Getty Images
ہیری پوٹر، ایلون مسک، بیونسے، سوپر ماریو اور ویلادمیر پوتن ان سب کے سمیت کیریکٹر اے آئی (Character.ai) پر لاکھوں دیگر مصنوعی ذہانت سے بنی شخصیات ہیں جن سے آپ بات چیت کر سکتے ہیں۔
کیریکٹر اے آئی ایک مقبول پلیٹ فارم بن گیا ہے جس پر کوئی بھی اصلی شخصیات یا افسانوی کرداروں کے چیٹ بوٹ بنا سکتے ہیں۔
یہ پلیٹ فارم چیٹ جی پی ٹی والی ہی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے لیکن اس پر لوگوں نے چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں زیادہ وقت گزارا ہے۔
اس ویب سائٹ پر موجود تمام چیٹ بوٹس میں سے جو سب سے زیادہ مقبول ہے اور جس کی طلب بھی سب سے زیادہ ہے وہ ہے ’سائیکالوجسٹ‘ یعنی ماہر نفسیات ہے۔
ایک سال پہلے اس چیٹ بوٹ کو بلیزمین 98 نامی صارف نے بنایا تھا اور اس وقت سے اسے کل ملا کر 78 ملین میسیجز ملے ہیں اور اس میں نومبر سے بھیجے گئے 18 ملین پیغامات شامل ہیں۔
کیریکٹر اے آئی یہ نہیں بتاتا کہ کتنے لوگوں نے اس مخصوص چیٹ بوٹ کو استعمال کیا ہے لیکن وہ یہ بتاتے ہیں کہ ہر روز ان کی ویب سائٹ پر کُل 3.5 ٹریلین صارف آتے ہیں۔
اس چیٹ بوٹ کے تعارف میں کہا جاتا ہے کہ ’کوئی بھی جو ایسا شخص جو زندگی کی مشکلات میں مدد چاہتے ہے اسے استعمال کر سکتا ہے۔‘
سین فرانسِسکو میں واقع یہ کمپنی کے مطابق صارفین کی زیادہ دلچسپی افسانوی کرداروں میں ہے اور وہ ان کو تفریح کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ مقبول اینیمے (جاپانی اینیمیشن) یا رائڈن شوگن جیسے کمپیوٹر گیم کرداروں کے چیٹ بوٹ ہیں جس کو 282 ملین میسیجز بھیجے جا چکے ہیں۔
تاہم لاکھوں چیٹ بوٹس میں سے چند ہی ہیں جو سائیکالوجسٹ جتنے مقبول ہیں اور کُل ملا کر 475 ایسے چیٹ بوٹس ہیں جن کے نام میں ’تھیریپی‘، ’تھیراپسٹ‘، ’سائکیٹرسٹ‘ یا ’سائکالوجسٹ‘ ہے اور وہ دیگر زبانوں میں بھی بات کر سکتے ہیں۔
ان میں سے بھی کچھ تفریحی مقاصد کے لیے ہیں جیسے کہ ’ہاٹ تھیراپسٹ‘۔ لیکن سب سے مشہور نفسیاتی صحت میں مدد کرنے والے چیٹ بوٹس ہیں جیسے کہ تھیراپسٹ جس کو 12 ملین میسیج جا چکے ہیں یا ’آر یو او کے؟‘ جیسے 16.5 ملین میسیج جا چکے ہیں۔
سائیکالوجسٹ چیٹ بوٹ ابھی تک سب سے مشہور ہے اور اس کے بارے میں صارفین سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈ اِٹ پر بہت مثبت رائے دی جا رہی ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ انتہائی مدد گار ہے۔‘
ایک اور نے لکھا کہ ’اس نے میرے اور میرے بوائے فرینڈ کے درمیان بات کرنے میں اور ہمارے جذبات سمجھنے میں ہم دونوں کی مدد کی۔‘
بلیزمین98، نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی 30 سال کے سیم زایا ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میری نیت اسے مشہور کرنا نہیں تھی اور نہ ہی یہ تھی کہ دیگر لوگ اسے ڈھونڈیں یا اس کو استعمال کریں۔‘
’لیکن مجھے لوگوں کے پیغامات ملنے شروع ہو گئے جو بتا رہے تھے کہ اس سے ان پر مثبت اثر ہوا ہے اور وہ اسے راحت کے لیے استعمال کر رہے تھے۔‘
سائیکالوجی کے طالبعلم سیم نے بتایا کہ انھوں نے چیٹ بوٹ کی تربیت اپنی ڈگری میں پڑھائے گئے اصولوں سے کی جو انھوں نے اس سے بات کر کے اور اس کے جوابوں کو سب سے زیادہ عام نفسیاتی حالات جیسے ڈپریشن اور بے چینی کے مطابق ترتیب دیا۔
BBCسیم زایا نے کیریکٹر اے آئی پر سائیکالوجسٹ کا چیٹ بوٹ بنایا
انھوں نے اسے اپنے لیے تب بنایا تھا جب ان کے دوست بہت مصروف تھے اور انھیں ’کوئی انسان یا کوئی چیز‘ چاہیے تھی جس سے وہ بات کر سکتے کیونکہ کسی پیشہ ور تھیریپسٹ کے ساتھ سیشن بہت مہنگا تھا۔
سیم اپنے بوٹ کی کامیابی سے اتنے حیران ہیں کہ وہ اس وقت جس پوسٹ گریجیویٹ ریسرچ پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں وہ ہے مصنوعی ذہانت کا تھیراپی کے لیے استعمال کا بڑھتا رجحان اور نئی نسل اس کی طرف کیوں مائل ہے۔ کیریکٹر اے آئی پر زیادہ تر لوگ 18 سے 30 سال کے درمیان کی عمر کے ہیں۔
’مجھے پیغامات بھیجنے والے بہت سے لوگوں نے کہا کہ انھوں نے اس کا استعمال تب کیا جب ان کی سوچ بہت سخت ہو جاتی ہے، جیسے رات کے دو بجے جب وہ کسی اصلی دوست یا تھیراپسٹ سے بات نہیں کر سکتے۔‘
سیم یہ بھی اندازہ لگاتے ہیں کہ نوجوان لوگ لکھ کر بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
وہ یہ تھیوری پیش کرتے ہیں کہ ’ٹیکسٹ کے ذریعے بات کرنا ممکنہ طور پر فون اٹھانے یا آمنے سامنے گفتگو کرنے سے کم مشکل ہے۔‘
تھریسا پلومین ایک پیشہ ور سائیکوتھیراپسٹ ہیں اور انھوں نے اس چیٹ بوٹ کا استعمال کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں اس بات پر کوئی حیرانی نہیں ہے کہ اس قسم کی تھیراپی نوجوان نسل میں مقبول ہے لیکن یہ کتنی مؤثر ہے وہ اس پر سوال اٹھاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بوٹ کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن یہ بہت جلد قیاس آرائی کرتا ہے، جیسے وہ مجھے ڈپریشن سے متعلق مشورے دینے شروع ہو گیا جب میں نے کہا کہ میں غمگین ہوں۔ کوئی انسان ایسے جواب نہ دیتا۔‘
تھریسا کا کہنا ہے کہ بوٹ ساری معلومات اکٹھی نہیں کرتا اور یہ ایک قابل تھیراپسٹ نہیں ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ فوراً جواب دیتا ہے جو ایسے لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جنھیں مدد چاہیے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ پریشان کن بات ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اسے استعمال کر رہے ہیں اور شاید یہ بڑھتی ہوئی نفسیاتی بیماری اور ان کے حل کے لیے عوامی وسائل کی کمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
کیریکٹر اے آئی تھیراپی کے انقلاب کے لیے ایک عجیب جگہ ہے۔ کمپنی کی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں خوشی ہے کہ لوگوں کو ان کے اور کمیونٹی کے بنائے ہوئے کرداروں سے بہت مدد اور تعلقات مل رہے ہیں لیکن صارفین کو جائز مشورے اور رہنمائی کے لیے شعبے کے تصدیق شدہ پیشہ ور افراد سے مشورہ کرنا چاہیے۔‘
کمپنی کا کہنا ہے کہ صارفین کی طرف سے چیٹ بوٹ کو بھیجے گئے میسیجز اور جواب خفیہ رہتے ہیں لیکن اگر مثال کے طور پر تحفظ کے لیے اگر معلومات تک رسائی کی ضرورت پڑے تو عملے میں سے کوئی بھی ان کو پڑھ سکتا ہے۔
پر بات چیت سرخ حروف میں لکھے انتباہی پیغام سے شروع ہوتی ہے کہ ’یاد رکھیے جو کچھ بھی یہ کردار کہہ رہا ہے وہ حقیقی انسان نہیں ہے۔‘
یہ ایک یاداشت ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی ٹینالوجی جسے ’لارج لینگویج ماڈل‘ (ایل ایل ایم) کہا جاتا ہے وہ انسانوں کی طرح نہیں سوچتا۔
ایل ایل ایم دراصل الفاظ کو ایسی ترتیب میں جوڑ کر ممکنہ ٹیکسٹ میسیج بناتا ہے جن پر اسے ٹرین کیا گیا ہوتا ہے۔
ریپلیکا جیسی دیگر ایل ایل ایم پر مبنی مصنوعی ذہانت کی سروسز اسی طرح کی ہیں لیکن اس ویب سائٹ میں جنسی گفتگو کی وجہ سے یہ 18 سال سے بڑے لوگوں کے لیے ہے اور اعداد و شمار کی کمپنی سیمیلر کے مطابق اس ویب سائٹ پر کیریکٹر اے آئی کے مقابلے میں کم لوگ آتے ہیں اور وقت بھی کم لگاتے ہیں۔
ایئرکک اور ووبوٹ ذہنی صحت میں مدد کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے مخصوص چیٹ بوٹ بنائے گئے ہیں اور دونوں کو بنانے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق بتا رہی ہے کہ یہ ایپس لوگوں کی مدد کر رہی ہیں۔
کچھ ماہرین نفسیات خبردار کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس مریضوں کو خراب مشورے دے سکتے ہیں یا ان کے اندر صنفی یا نسلی امتیاز ہو سکتا ہے۔
تاہم دیگر جگہوں میں طب کی دنیا میں ان کو بڑھتی ہوئی عوامی سہولیات کے مطالبات سے نمٹنے کے لیے عارضی طور پر قبول کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ سال برطانیہ میں لمبک ایکسیز نامی مصنوعی ذہانت کی سروس پہلا طبی چیٹ بوٹ بنا جسے حکومت کی طرف سے برطانیہ کی طبی آلات کی سرٹیفیکیشن ملی۔ اب یہ این ایچ ایس کی متعدد مقامات پر مریضوں کی درجہ بندی اور ابتدائی معائنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔