بنگلہ دیش میں الیکشن: ’معاشی معجزہ‘ قرار دیے جانے والا ملک رفتہ رفتہ ’آمریت‘ کی جانب کیسے بڑھ رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 07, 2024

Getty Images

نور بشر کی روزانہ کی آمدنی صرف 500 بنگلہ دیشی ٹکہ (تقریباً 1300 پاکستانی روپے) ہے۔ اس میں سے نصف ان کے اہل خانہ کے نو لوگوں کے کھانے پینے پر لگ جاتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں افراط زر کی شرح کے بڑھنے کے ساتھ یہ رقم بھی مزید کم ہو سکتی ہے۔

43 سال کے نور بشر مزدور ہیں اور دارالحکومت ڈھاکہ سے جنوب میں 400 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود کاکس بازار میں رہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ بہت مشکل میں ہیں۔ اگر میں مچھلی خریدتا ہوں تو مسالحے نہیں خرید پاتا، اگر مسالحے خریدتا ہوں تو چاول نہیں خرید پاتا۔‘

بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ ہے اور یہ ملک مہنگائی کا سامنا کر رہا ہے۔

ملک میں ترقی کی رفتار رک گئی ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار نشیبی ڈیلٹا میں سنگین چیلنجز جنم لے رہے ہیں۔

لیکن اتوار کو ہونے والے انتخابات سے یہاں کے پہلے سے ہی ناامید ووٹرز کو زیادہ امیدیں نہیں ہیں۔

نور بشر کہتے ہیں کہ ’میرا مقصد اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنا ہے۔ مجھے سیاست سے کوئی غرض نہیں کیونکہ اس سے میرے اہل خانہ کا پیٹ نہیں بھرنے والا۔ میں ہمیشہ یہ سوچتا رہتا ہوں کہ میں لوگوں سے لیے اپنے قرضے کیسے واپس کروں گا۔‘

BBC

ماہرین کے مطابق شیخ حسینہ کی سربراہی میں حکومت کرنے والی جماعت عوامی لیگ آج ہونے والے انتخابات کے ساتھ اپنی آمرانہ گرفت مضبوط کرنے کے لیے تیار ہے۔ جبکہ مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔

اس سے پہلے شیخ حسینہ کی حکومت نے اپنے کئی ہزار سیاسی حریفوں اور حامیوں کو گرفتار کیا تھا۔ اس عمل کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اسے انتخابات سے پہلے اپوزیشن کو مفلوج کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

کئی ووٹروں کے نظر میں عوامی لیگ نے الیکشن جیت لیا ہے اور اس وقت کوئی قابل اعتماد اپوزیشن امیدوار نہیں ہے۔ بہت سارے لوگوں کو خطرہ ہے کہ شیخ حسینہ کی تسلسل سے چوتھی حکومت معاشی حالات کو مزید خراب کر سکتی ہے۔

چٹاگانگ میں ایک سکیورٹی گارڈ غیاس الدین نے کہا کہ ’مجھے انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں کیوں پرواہ کروں؟ نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو، میری قسمت نہیں بدلے گی۔‘

57 سال کے غیاس کہتے ہیں کہ ان کی معاشی صورتحال اتنی مشکل ہے کہ ان کے گھر میں صرف دو وقت کھانا کھایا جاتا ہے۔ وہ اب مچھلی اور گوشت نہیں خریدتے کیونکہ وہ اب بہت مہنگی ہو گئی ہیں اور ’مسلسل دوسروں کا بچا ہوا کھانا جمع کرتے ہیں اور اس کو ملا کر کچھ پکا کر اپنے نو بچوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔‘

BBC

ان کا گھر خیرات اور دوستوں سے لیے گئے قرضوں پر زندہ ہے۔

غیاس کہتے ہیں ’میں نے اب تک دو لاکھ ٹکہ قرض لیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم میں یہ کیسے واپس کروں گا صرف خدا کو معلوم ہے۔‘

’یہ انتی مشکل صورتحال ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں مجھے مر جانا چاہیے۔‘

غربت سے امیری اور پھر غربت؟

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگہ دیش کا آمریت کی طرف جانا اس کے لیے سب سے بڑے خطروں میں سے ایک ہے جبکہ کچھ سالوں پہلے تک خبروں میں بنگلہ دیش کو ایک ’معاشی معجزہ‘ قرار دیا جاتا تھا۔

ڈھاکہ میں سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ تھنک ٹینک کے ماہر اقتصادیات دیباپریہ بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ معیشت میں اعتماد کی بحالی اگلی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔

’لیکن یہ بہت مشکل ہو گا کیونکہ حکومت کے پاس استحکام لانے کے لیے درکار پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کی سیاسی طاقت نہیں ہے۔‘

حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش نے مضبوط اقتصادی ترقی دیکھی تھی۔

BBC

کام کرنے کے خراب ماحول کے باوجود اس کی ملبوسات کی صنعت نے لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالنے میں مدد کی ہے اور اب یہ ملک کی برآمدات کا تقریباً 80 فیصد حصہ ہے۔ بنگلہ دیش، چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گارمنٹ پروڈیوسر بن گیا ہے۔

لیکن عالمی اقتصادی سست روی کے بعد 2022 کے وسط میں اس کی معیشت بدحالی کا شکار ہو گئی تھیاور توانائی کے بحران اور مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے پر ادائیگیوں کے توازن کا بحران پیدا ہو گیا اور لوگ سڑکوں پر نکلنا شروع ہو گئے تھے۔

نومبر میں افراط زر کی شرح تقریباً 9.5 فیصد تھی لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اعداد و شمار کم رپورٹ کیے گئے ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ایک بار پیش گوئی کی تھی کہ بنگلہ دیش کی مجموعی گھریلو پیداوار سنگاپور اور ہانگ کانگ جیسی ترقی یافتہ معیشتوں سے آگے نکل سکتی ہے تاہم اسی آئی ایم ایف نے 2023 میں بنگلہ دیش کی اب ایک متزلزل معیشت کو فروغ دینے کے لیے 4.7 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دی ہے۔

لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بنگلہ دیش کے مسائل اتنی آسانی سے حل نہیں ہو سکتے۔ جبکہ بیرونی عوامل نے مسائل میں کردار ادا کیا لیکن بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ پالیسی ساز ان پر توجہ دینے یا ضروری اصلاحات کو نافذ کرنے میں ناکام رہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بنگلہ دیش کو دنیا کے 180 ممالک میں سے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 12 ویں نمبر پر رکھا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More