Getty Images
سابق امریکی صدر ولیم مک کنلی نے کہا تھا کہ نیم دلی سے کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ سڈنی میں پاکستان بھی یہ سمجھنے سے معذور رہا کہ نیم دلانہ کاوشیں نیم دلانہ نتائج ہی پیدا کر سکتی ہیں۔
یہ محمد رضوان کے کریئر کی ایک یادگار اننگز ہو سکتی تھی۔ کنڈیشنز بیٹنگ کے لیے سازگار تھیں، آسٹریلوی بولنگ دباؤ کا شکار تھی اور پاکستان کا رن ریٹ ون ڈے کرکٹ کی مانند تند تھا۔
یہاں محمد رضوان اُس سنچری کے قریب تھے جو آسٹریلیا میں گنے چنے پاکستانی بلے بازوں کا مقدر ہو پائی ہے۔
پیٹ کمنز اٹیک میں آئے تو انھوں نے فیلڈرز کو باؤنڈری کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ وہ شارٹ پچ بولنگ سے رضوان پر یلغار کرنے کو ہیں اور خود رضوان بھی اس امر سے واقف تھے کہ اب کیسی بولنگ ان کے رستے آنے کو ہے۔
مگر نہ چاہتے ہوئے بھی رضوان اسی دام میں آ گئے اور تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ اس انہدام میں، ان کی کوئی تکنیکی صلاحیت آڑے نہیں آئی بلکہ وہی نیم دلی ان کا بھی زوال ثابت ہوئی جو صبح سے پاکستانی بیٹنگ کا خاصہ رہی تھی۔
صائم ایوب اور بابر اعظم کی تو بدقسمتی رہی کہ بہترین گیندیں ان کا نصیب ٹھہریں مگر ان کے سوا دیگر سبھی پاکستانی بلے باز محض اپنی نیم دلی کے ہاتھوں زیر ہوئے۔
عبداللہ شفیق میلبرن میں ایک قیمتی کیچ ڈراپ کرنے کے بعد سے خود اعتمادی کے ایسے بحران کا شکار ہیں کہ اپنی مبادیات سے ہی بے بہرہ دکھائی دیے۔ جس گیند کو چھوڑ دینا بہتر تھا، وہ اسی پر نیم دلی سے بلا چلا بیٹھے۔
Getty Images
اور شان مسعود کی قسمت بارے کیا ہی کہا جائے کہ مچل مارش کی جس گیند پر وہ آؤٹ قرار پائے، وہ نو بال ٹھہری اور انھیں ایک نئی زندگی مل گئی مگر بدقسمتی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ ایک ہی اوور بعد وہ عین اسی لائن و لینتھ کی گیند پر ہو بہو اسی بے دلی سے بلا گھما گئے۔
سعود شکیل کا بھی قصہ مختلف نہیں تھا جو یہ طے کرنے سے قاصر رہے کہ جارحیت اور مدافعت میں سے کس کا چناؤ کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں۔ سلمان آغا کی کہانی بھی مختلف نہ رہی۔
یہ پاکستان کی خوش بختی کی انتہا تھی کہ یہاں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا موقع میسر آیا اور وہ سکور بورڈ پر ایک مسابقتی مجموعہ جما کر آسٹریلیا پر کچھ دباؤ پیدا کر سکتے تھے جسے چوتھی اننگز میں بیٹنگ کرنا ہو گی۔
اکیلے عامر جمال نے اپنے تئیں اس ساری بے دلی کا ازالہ کرنے کی کوشش جمائی اور پھر وہ کریز پر ایسے جمے کہ پیٹ کمنز کے بولرز سر کھجاتے رہ گئے۔
یہ ہرگز متوقع نہ تھا کہ جہاں ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر اس قدر تر نوالہ ثابت ہوئے، وہاں عامر جمال اس بہترین بولنگ اٹیک کے گلے میں ہڈی کی مانند اٹک جائیں گے۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اس طرح کے باؤنس پر یہ خطرناک اٹیک پاکستانی بلے بازوں کا کچھ نہ بگاڑ پاتا اگر نیم دلی آڑے نہ آتی۔
گو ان کی اننگز کا آغاز مضبوط نہ تھا مگر جیسے جیسے عامر پچ کی رفتار سے ہم آہنگ ہوتے گئے، آسٹریلوی ٹیم پچھلے قدموں پہ بھٹکنے لگی۔ بدقسمتی سے وہ خود تو سنچری تک نہ پہنچ پائے مگر اپنی ٹیم کو ضرور ایک قابلِ قدر مجموعے تک پہنچا گئے۔
جو سکور پہلی اننگز میں اس پچ پر یقینی تھا، پاکستان کا مجموعہ بہرحال اس ہندسے سے خاصا پیچھے بھٹک رہا ہے لیکن عامر جمال کی جی داری کے طفیل ٹیم اب وہاں کھڑی ہے کہ جہاں سے کم از کم مسابقت کا کچھ امکان موجود ہے۔