ڈیوڈ وارنر کا فیئر ویل خراب ہو سکتا ہے؟ سمیع چوہدری کا کالم

بی بی سی اردو  |  Jan 02, 2024

Getty Images

یہ تو سب پر عیاں ہے کہ کل انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈیوڈ وارنر اپنی الوداعی جھلک دکھائیں گے مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ سڈنی ٹیسٹ شان مسعود کے لیے کسی نئے عہد کا آغاز ہو گا یا پھر یہ ان کا بھی الوداعی میچ ثابت ہو گا۔

بظاہر یہ چونکا دینے والی خبر ہو سکتی ہے مگر پچھلے ایک برس سے جو گھمسان کا رن پاکستان کرکٹ بورڈ میں برپا ہے اور جو قومی ٹیم کی حالیہ کارکردگی ہے، یہاں ناممکنات کو حقیقت بننے زیادہ دیر نہیں لگتی۔

مثلاً مِکی آرتھر جب چھ ماہ قبل نجم سیٹھی کے پُر زور اصرار پہ ٹیم ڈائریکٹر مقرر ہوئے تو یہ نہیں جانتے تھے کہ چار ہی ماہ بعد وہ ایک اور چیئرمین کے رحم و کرم پہ ہوں گے اور سڈنی میں کھیلتی ٹیم سے کہیں دور ہائی پرفارمنس سنٹر میں ایک ’او ایس ڈی‘ کی مانند اپنے کنٹریکٹ کو نبھا رہے ہوں گے۔

ذکا اشرف تمام تر تگ و دو کے باوجود چیئرمین نہیں بن پائے اور خصوصی احکامات کے تحت ایک عبوری مینجمنٹ کمیٹی کی سربراہی کے ذریعے پی سی بی کو چلا رہے ہیں جہاں طویل مدتی فیصلے ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔

اور جب ملک میں الیکشن کی آمد آمد ہے تو پی سی بی کی راہداریوں میں بھی یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ الیکشن کے بعد ممکنہ طور پہ ذکا اشرف پی سی بی کی صدارت پہ براجمان نہ ہوں گے۔ ایسے میں یہ سوال ناگزیر ہے کہ ذکا اشرف کی طے کردہ تعیناتیوں کا مستقبل کیا ہو گا؟

شان مسعود جب کپتان مقرر ہوئے تو یہ پی سی بی کے اپنے سابقہ معیارات کے حوالے سے بھی عجیب ترین خبر تھی کہ جنھوں نے اپنے کیریئر میں اتنا وقت ٹیم کے اندر نہیں گزارا جتنا باہر گزارا ہے، وہ راتوں رات کپتان کیسے بن گئے۔

لیکن بطور کپتان شان مسعود کی فراست قابلِ دید رہی ہے۔ وہ مثبت پسندی کے ساتھ جارحیت کو ترجیح دیتے ہیں اور صرف بیٹنگ ہی میں نہیں، آن فیلڈ فیصلہ سازی میں بھی حریف کیمپ کے اعصاب پہ سوار رہا کرتے ہیں۔

انھی صلاحیتوں کی بدولت پرتھ ٹیسٹ میں بھی ایک ڈیڑھ دن تک انھوں نے پاکستان کی امیدیں روشن کیں جبکہ میلبرن ٹیسٹ میں تو بہت عرصے بعد آسٹریلوی ٹیم اس قدر دباؤ کا شکار نظر آئی اور پاکستان جیت کے عین قریب بھی آن پہنچا۔

اب کل سے شروع ہونے والا سڈنی ٹیسٹ شان مسعود کے لیے ایک امید کی کرن ہے کہ نہ صرف سڈنی کی کنڈیشنز پاکستانی ٹیم کے لیے سہل ترین آسٹریلوی کنڈیشنز ہوں گی بلکہ تین دہائیاں پہلے پاکستان نے آسٹریلیا میں آخری ٹیسٹ بھی اسی گراؤنڈ پہ جیتا تھا۔

Getty Images

جس طرح سے اس سیریز میں شان مسعود اپنی قائدانہ صلاحیتیں ظاہر کرتے آئے ہیں، آسٹریلوی ٹیم یقیناً دباؤ کا شکار ہو گی اور ٹیم سلیکشن میں بھی پاکستان نے جو جرات مندانہ فیصلے کیے ہیں، اگر بار آور ہو گئے تو بعید نہیں کہ تاریخ کا ورق پلٹ جائے اور یہ معرکہ شان مسعود کا ممکنہ الوداعی میچ بننے کی بجائے ایک نئے باب کا افتتاحی میچ بن جائے۔

کیونکہ اس ٹور کے بعد پاکستان کو اگلے چھ ماہ میں کوئی ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلنا ہے اور چھ ماہ میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے کی تبدیلیاں پی سی بی کے ایوانوں تک منتقل ہو چکی ہوں گی، سو اگر شان مسعود یہاں کوئی تاریخ رقم کر پائے تو چھ ماہ بعد حالات مختلف ہو سکتے ہیں۔

ڈیوڈ وارنر کا یہ الوداعی میچ ہے اور پاکستان کے خلاف ان کا ریکارڈ یونھی تابناک نہیں رہا بلکہ پاکستانی فیلڈرز بھی ہمیشہ دامے، درمے، سخنے، ان کی حتی الامکان مدد کرتے آئے ہیں۔ لیکن اگر پاکستان سلپ کارڈن کے بہتر انتخاب میں کامیاب رہا تو شاید وارنر کی قسمت یوں نہ کھل پائے۔

ابرار احمد کی انجری کے سبب ساجد خان کافی عرصے بعد ایکشن میں نظر آئیں گے، ان کا تجربہ اور سڈنی کا 'ایشین' باؤنس پاکستان کے امکانات بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا جبکہ شاہین آفریدی کو کیویز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز سے پہلے آرام دینا اہم تھا لیکن ان کی غیر موجودگی میں حسن علی کا کردار اہم تر ہو گا۔

اور امام الحق کو ڈراپ کیا جانا بہرحال ایک جرات آموز فیصلہ ہے اور شان مسعود ہی یہ اقدام اٹھا سکتے تھے۔ طویل فارمیٹ میں اگرچہ صائم ایوب کا تجربہ بہت محدود ہے لیکن اگر وہ اپنے مختصر فارمیٹ کے جارحانہ انداز کو یہاں بھی نبھا پائے تو آسٹریلوی بولرز کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہو سکتے ہیں۔

ماضی کے آسٹریلوی دوروں کے برعکس پچھلے دو میچز میں شان مسعود نے ایک نو آموز بولنگ اٹیک کے ہمراہ بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر پاکستان اسی مومینٹم کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہ گیا تو وارنر کا فیئر ویل خراب بھی کر سکتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More