NASA
11 اپریل 1970 کو امریکی خلائی ادارے ناسا نے تین خلا باز چاند پر بھیجے۔ اگر یہ مشن کامیاب ہو جاتا تو یہ ناسا کا انسانوں کو چاند پر بھیجنے کا تیسرا کامیاب مشن ہوتا۔
اپالو 11 کے ذریعے امریکہ نے مئی 1969 میں نیل آرمسٹرانگ اور دیگر کو چاند پر کامیابی سے اتارا تھا۔ اس کے بعد یہ تیسرا انسان بردار قمری مشن تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک سال میں ناسا نے لگاتار دو بار عملے کو کامیابی سے لینڈ کرایا تھا۔
مگر اپالو 11 کے بعد قمری مشن کے حوالے سے عوام کا جوش و خروش کم ہونے لگا تھا۔ لوگ سوال اٹھا رہے تھے کہ خلائی تحقیق کی جگہ پیسے غربت کے خاتمے اور تعلیم پر لگانے چاہییں۔
اپالو 13 مشن کو براہ راست نشر بھی نہیں کیا گیا کیونکہ لوگ اسے دیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے لیکن 13 اپریل کو سب کچھ بدل گیا۔
دراصل ہوا یہ تھا کہ جو لوگ مشن کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے وہ بھی ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے اور اپالو 13 کے خلابازوں کی باحفاظت واپسی کے لیے دعائیں مانگنے لگے۔
NASAتین افراد کو لے جانے والے خلائی جہاز میں دھماکہ ہوا
اس دستے میں تین کمانڈر تھے: جیمز لوول، لونر ماڈیول پائلٹ فریڈ ہائیس اور کمانڈ ماڈیول پائلٹ جان جیک سوئگرٹ۔
اس مشن میں چاند تک پہنچنے میں تین دن لگنا تھے۔ مشن کے تیسرے دن، 13 اپریل کو اپالو 13 نے زمین سے 321869 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور چاند کے مدار میں داخل ہو گیا۔
خلائی جہاز براہ راست نشریات کے لیے کیمروں سے لیس تھا۔ کمانڈر لوول کی اہلیہ لانچ کو دیکھنے کے لیے ناسا کے دفتر گئیں۔
فریڈ ہائیس نے بعد میں کہا کہ یہ ایک بڑے دھماکے کی آواز تھی۔ ’یہ دن کا اختتام تھا۔ ہم سونے ہی والے تھے کہ ایک دھماکہ ہوا۔‘
نو بج کر آٹھ منٹ پر لوول آکسیجن ٹینک چیک کر رہے تھے کہ اچانک انھوں نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی۔
جیمز لوول نے بتایا کہ ’دو آکسیجن ٹینک تھے جن میں سے ایک پھٹ گیا تھا۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا کہ ملبہ خلا میں تیزی سے اڑ رہا تھا۔ اس سے دوسرے ٹینک کو بھی نقصان پہنچا۔‘
یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ خلائی جہاز کو اور کیا نقصان پہنچا ہے۔ صرف ایک آکسیجن ٹینک رہ گیا تھا جسے نقصان پہنچنے کی وجہ سے آکسیجن خارج ہو رہی تھی۔ اس لیے خلائی جہاز کا چاند تک پہنچنا یا زمین پر واپس آنا ممکن نہیں رہا تھا۔
ہر سیکنڈ کے ساتھ جہاز کئی کلومیٹر آگے بڑھ رہا تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر ہی جہاز اپنا راستہ کھو بیٹھا اور زمین سے اتنا دور چلا گیا کہ خلا بازوں کے زمین سے اس فاصلے نے نیا ریکارڈ بنا دیا جو آج بھی قائم ہے لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ آکسیجن کم تھی اور اس کے ختم ہونے سے پہلے تینوں خلابازوں کو زمین پر واپس لانا تھا۔
NASAخلائی جہاز کو زمین پر واپس کیسے لایا جائے؟
اپالو کے کمانڈ اور سروس ماڈیول کا نام اوڈیسی تھا جبکہ قمری ماڈیول کا نام اکویریئس تھا۔ ابھی یہ طے ہونا تھا کہ خلائی جہاز کو باحفاظت کیسے اور کس راستے سے زمین تک لایا جائے گا۔
ایسا کرنے کا سب سے یقینی طریقہ یہ تھا کہ خلائی جہاز کا رُخ زمین کی طرف تبدیل کیا جائے لیکن ایسا کرنے کے لیے اوڈیسی سروس ماڈیول کا مین انجن چلانا پڑنا تھا جسے دھماکے کی وجہ سے بند کیا گیا تھا۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ آیا انجن ٹھیک ہے یا خراب۔
طیارے میں ایندھن کم تھا کیونکہ اس کا ایندھن وہی آکسیجن تھی۔
زمین تک پہنچنے کا دوسرا راستہ کچھ طویل تھا: چاند کے گرد گھوم کر زمین کی طرف مڑنا۔
اس کے لیے انجن کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کے لیے چار سے پانچ دن لگ سکتے تھے۔ یہ بھی خطرناک تھا کیونکہ جہاز میں تین افراد کے لیے پانی اور آکسیجن ناکافی تھے۔
ناسا کے فلائٹ ڈائریکٹر نے اسی لمبے راستے کا انتخاب کیا۔
اگرچہ یہ فیصلہ نسبتاً محفوظ تھا لیکن اس میں بہت سی مشکلات اور چیلنجز تھے۔ قمری ماڈیول کو تقریباً 20 گھنٹے تک صرف دو خلابازوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا لیکن اب تینوں خلابازوں کے چار سے پانچ دن تک ماڈیول میں رہنے کی امید تھی۔
قمری ماڈیول کے انجن کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔ انجن کو شروع کرنے کے لیے ایندھن بھی جلایا جانا تھا۔
خلابازوں سے کہا گیا کہ وہ توانائی کے تحفظ اور سپلائی کو برقرار رکھنے کے لیے غیر ضروری آلات بشمول ہیٹر بند کر دیں کیونکہ بجلی کی بچت زیادہ ضروری تھی لیکن قمری ماڈیول میں سردی سے بچنے کے لیے ڈھال نہیں تھی۔ یوں خلابازوں کا باحفاظت زمین کے مدار میں داخل ہونا مشکل لگ رہا تھا۔
کیبن میں درجہ حرارت تیزی سے گرنے لگا اور کچھ کھانا خراب ہونے لگا تھا۔
عملے نے پانی کا استعمال کم کر دیا کیونکہ قمری ماڈیول کا درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لیے پانی کی ضرورت تھی۔
زمین پر واپسی کے دوران عملہ دوبارہ سروس ماڈیول میں داخل ہوا اور انجن کو شروع کیا۔
جب انجن شروع ہوتا ہے تو اسے برن کہتے ہیں۔ یہ پہلی بار ایک نئی سمت میں جانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
اس کی مدد سے وہ چاند کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ اب وہ زمین سے چار لاکھ کلومیٹر دور تھے۔
یہ جہاز اب 153 گھنٹے بعد زمین پر واپس پہنچ سکتا تھا۔ اس کے بعد خلابازوں کے پاس صرف ایک گھنٹے کی اضافی خوراک، پانی اور آکسیجن باقی رہ جاتے۔ مزید یہ کہ یہ فاصلہ بھی بہت خطرناک تھا۔
ناسا کی ارتھ ٹیم کے مطابق خلابازوں کو دوسری بار انجن برن کرنے کا کہا گیا۔
کیا قمری ماڈیول کے لحاظ سے کسی اور کے انجن کو جلانا مناسب ہو گا؟ مشن کنٹرول انجینئرز نے اس کا تعین کرنے کے لیے کچھ حساب کتاب کیا۔ دوسری بار جب انجن جل گیا تو یہ اعداد درست تھے جس کی وجہ سے پرواز کا وقت 153 گھنٹے سے کم ہو کر 143 گھنٹے کر دیا گیا۔
NASAایک کے بعد ایک جھٹکا
خلابازوں کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادہ مقدار تھی۔ اس جہاز میں آکسیجن ٹینک کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہٹانے کے لیے لیتھیم ہائیڈروکسی کے کنستر تھے۔
لیتھیم ہائیڈرو آکسائیڈ کا ایک کین اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ ری ایکٹ کر کے لیتھیم کاربونیٹ بناتا ہے۔ لیتھیم ہائیڈروکسی کا ایک کنستر صرف دو خلابازوں کے لیے دو روز کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تین لوگ تھے اور انھیں چار دن گزارنے تھے۔
کمانڈ ماڈیول میں کچھ ڈبے تھے جس کے فلٹر چکور جبکہ قمری ماڈیول کے فلٹر گول تھے۔
محققین کے پاس اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے صرف 24 گھنٹے تھے۔ خلابازوں نے زمین پر موجود عملے کے ساتھ بات چیت کی اور انھیں اپنے اردگرد کی ہر چیز سے آگاہ کیا۔ اس میں پلاسٹک کے تھیلے اور موٹے کاغذ شامل تھے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم کرنے کے لیے ایک کے بعد ایک تجویز کے ساتھ مقامی طور پر دستیاب مواد سے نئے آلات بنائے جا رہے تھے۔
کمانڈر لوئیل نے اپنی کتاب ’لوسٹ مون‘ میں کہا ’نئی ڈیوائس مکمل نہ ہونے کے باوجود کام کر گئی۔‘
کیا اضافی پیشاب بھی خلائی جہاز کی سمت بدل سکتا ہے؟
خلابازوں کو ایک دن میں 200 ملی لیٹر سے زیادہ پانی نہ پینے کی ہدایت کی گئی تھی کیونکہ اگر وہ زیادہ پانی پی کر پیشاب کرتے ہیں تو بڑھے ہوئے وزن سے جہاز کی سمت بدل سکتی تھی۔
اس لیے انھیں پانی کم پینا پڑا۔ ان تینوں نے مجموعی طور پر 14 کلو وزن کم کیا تھا۔ ہائز ایک انفیکشن سے متاثر ہوئے۔
چار دن بعد جب اپالو 13 زمین کے مدار میں تھا تو اس وقت خلابازوں کو احساس ہوا کہ انھیں دوبارہ انجن برن کرنا ہوگا۔
انھوں نے خلائی جہاز سے نکلنے والی بھاپ کو محسوس نہیں کیا جس کی وجہ سے طیارے کی سمت بھٹک گئی۔
کمانڈر لوویل نے تیسری بار قمری ماڈیول لانچ کیا اور خلائی جہاز دوبارہ راستے پر آگیا۔
اس طرح لونر ماڈیول کا انجن جسے صرف ایک بار برن کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، خوش قسمتی سے تین بار کامیابی سے چلایا گیا۔
اب خلائی جہاز زمین کی فضا میں داخل ہونے والا تھا۔
NASAآخری لمحات
پوری دنیا کی نظریں ٹی وی چینلز پر جمی ہوئی تھیں۔
جب خلائی جہاز زمین کی فضا میں داخل ہو گا تو کیا وہ گرمی کی شدت کو برداشت کر سکے گا؟ کیا اندر موجود خلاباز زندہ رہ سکتے ہیں؟ ایسے سوالات لوگوں کے ذہنوں میں تھے۔
جیسے ہی کمانڈ ماڈیول زمین کی فضا میں داخل ہوا، اس کا رابطہ منقطع گیا۔
رابطہ ختم ہونا عام بات تھی۔ ہوا کے آئن (چارج شدہ ایٹم) آواز کی لہروں کو روکتے ہیں اس لیے زمین پر موجود ناسا کے اہلکاروں اور خلا میں موجود خلابازوں کے درمیان رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔
عام طور پر یہ رابطہ دو یا تین منٹ تک بند رہتا ہے۔ تین منٹ گزر چکے تھے لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
تین منٹ کے بعد دس سیکنڈ گزر گئے، 30 سیکنڈ، 60 سیکنڈ۔۔۔ چار منٹ کے بعد جہاز سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ کوئی بھی واقعی نہیں جانتا تھا کہ خلابازوں کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
آخر کار 4 منٹ اور 27 سیکنڈ کے بعد تالیوں اور جوش و خروش کا ایک دور ہوا۔ اپالو 13 کا پیراشوٹ ٹی وی پر صاف نظر آرہا تھا۔
NASA
خلابازوں کے واپس آنے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن نے کہا ’میں اس مشن کو کامیاب قرار دیتا ہوں۔ خلائی تحقیق شروع سے ہی ایک پُرخطر کام رہا ہے۔‘
ٹی وی پر دیکھنے والے سامعین نے آخر کار سکھ کا سانس لیا جب تینوں خلاباز زندہ بچ گئے اور پیراشوٹ آہستہ سے بحرالکاہل میں گرا۔
امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے 1961 میں دنیا سے ایک وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ ایک دہائی میں چاند پر انسان بھیجیں گے۔
کینیڈی کی تقریر نے ناسا کے انسانی خلائی مشن کے لیے رہنمائی فراہم کی اور یہ ہدف 20 جولائی 1969 کو اس وقت پورا ہوا جب کمانڈر نیل آرمسٹرانگ اپالو 11 کے قمری ماڈیول سے چاند پر اترے۔
مشن کا بنیادی مقصد نہ صرف چاند کی سطح کو تلاش کرنا اور اس کا مطالعہ کرنا تھا بلکہ قمری ماحول میں کام کرنے کے لیے انسانی صلاحیتوں کو تیار کرنا بھی تھا۔
اپالو 13 کا مقصد فرا مورو کے علاقے میں اترنا تھا مگر دھماکے کی وجہ سے یہ چاند پر لینڈ نہیں کر سکا۔ لہذا اپالو 14 کو فرا مورو پر لینڈ کرنے کا کام سونپا گیا۔