وہ خاندان جو ’غم کا علاج کرنے والی کمپنی‘ کی مدد سے چاند کو اپنے بیٹے کی آخری آرام گاہ بنانا چاہتا ہے

بی بی سی اردو  |  Dec 31, 2023

آنے والے سال کے اوائل میں امریکہ کے کیپ کیناورل سے ایک بے مثال مشن پر ایک راکٹ روانہ ہو رہا ہے۔ اس مشن کا مقصد 70 سے زیادہ لوگوں کے لیے چاند کو آخری آرام گاہ بنانا ہے اور ان میں 16 سالہ لیام آنند کی باقیات بھی شامل ہیں۔

لیام کی والدہ ندائن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں باہر آ کر اوپر دیکھوں گی تو مجھے معلوم ہو گا کہ اس کا جسم چاند پر کہاں ہے۔ یہ جادوئی اور جذباتی طور پر تسلی بخش ہو گا۔‘

کینیڈا کے شہر ڈیپے سے تعلق رکھنے والے لیام کی سنہ 2018 میں ایک موٹرسائیکل حادثے میں موت ہو گئی تھی۔ اس وقت لیام کا خاندان ان کی آخری رسومات کے لیے روایتی طریقے سے کچھ مختلف کرنے کا سوچ رہا تھا۔

ندائن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کچھ ایسا چاہتے تھے جو اس کی شخصیت کی نمائندگی کرے۔‘

لیام اپنے اہل خانہ کے مطابق ایک پرجوش نوجوان تھا جو ہمیشہ جلدی میں نظر آتا تھا، جب وہ بڑا ہوا تو مریخ کے خلائی مشن کا حصہ بننے کا خواب دیکھنے لگا، یا پھر وہکان کنی کے کاروبار میں شامل ہونے کا خواب دیکھا کرتا تھا۔

اس کی موت کے کئی سال بعد ایک دن دوپہر کے وقت ندائن کو خلا کے ساتھ اس کی محبت یاد آئی اور اس نے آن لائن تلاش شروع کی اور پھر اس کے نتیجے میں انھیں چاند پر ایک میموریل سروس کا پتا چلا۔

اب لیام کی استھیوں کا ایک حصہ پیریگرین قمری جہاز سے سیٹلائٹ کے ذریعے چاند پر پہنچے گا۔

ندائن نے کہا کہ ان کے بیٹے کے مشن کا حصہ بننے سے خاندان کو اپنا دکھ کم کرنے میں مدد ملی ہے اور یہ غیر معمولی آرام گاہ انھیں اسے یاد رکھنے کا مستقل وسیلہ فراہم کرے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’وہ خلا میں جانا چاہتا تھا۔ اس طرح ان کا خاندان، اس کے دوست، جو بھی اسے یاد کرتے ہیں وہ ایسا چاہتے ہیں کہ جب وہ چاند کو دیکھیں تو اسے ہیلو کہہ سکیں۔

’ایسا لگتا ہے کہ ہم اس کا خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔‘

بچپن کا خواب

چاند پر باقیات پہنچانے کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی کے سی ای او چارلس شیفر نے کہا کہ ان کے کاروبار کا انسانی پہلو اتنا ہی اہم ہے جتنا ایرو سپیس ٹیکنالوجی۔

انھوں نے کہا کہ ’جب میں نے کمپنی کی بنیاد رکھی تو میں نے سوچا کہ ہم ایک ایرو سپیس کمپنی بنیں گے لیکن بہت جلد میں نے محسوس کیا کہ ہم ایک غم کا علاج کرنے والی کمپنی ہیں۔‘

ایک سکولی طالب علم کے طور پر چاند پر اپالو مشن کو جاتا دیکھنے کے بعد انھوں نے تجارتی خلائی صنعت میں اپنے کریئر کا آغاز کیا، جس میں پرائویٹ فنڈڈ تجارتی راکٹ لانچ میں تعاون شامل تھا۔

سنہ 1995 میں انھوں نے سیلسٹس نامی کپنی کی بنیاد رکھی جو کہ ابتدا میں لوگوں کی باقی ماندہ استھیاں ان کے ڈی این اے کے نمونے مدار میں رکھے تھے۔ اب انسانی باقیات کو چاند پر لے جانے کے لیے ان کی کمپنی نے قمری مشن کے تحت پیریگرین ماڈیول میں جگہ خریدی ہے جس کا بنیادی مقصد سائنسی تجربات کو چاند پر لے جانا ہے۔

شیفر نے کہا کہ ان کی اس نئی سروس کی قیمت 'امریکہ میں روایتی طور پر آخری رسومات منانے کی قیمت کے برابر ہے' یعنی اس پر 13 ہزار امریکی ڈالر خرچ آئے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ راکٹ کی قیمت حیرت انگیز طور پر کم ہے۔ 'زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ ہم ایک انتہائی خدمت پر مبنی کاروبار ہیں۔'

سائنس سے محبت ہی انھیں اس صنعت کی طرف لے گئی ہے، لیکن اب انھیں خاندانوں کو ان کے سانحے سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنے میں تسلی ہوتی ہے اور انھیں یہ چیز خاص طور پر فائدہ مند محسوس ہوتی ہے کہ ان کی خدمات ان لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بن سکتی ہیں جو شدید بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

شیفر کہتے ہیں کہ انھیں اس بات سے بہت سکون ملتا ہے جب لوگ ان سے یہ کہتے ہیں کہ ان کے 'والد اپنے آخری دنوں میں زیادہ تر افسردہ رہتے تھے، لیکن جب میں نے انھیں بتایا کہ ہم ان کے لیے کیا کرنے جا رہے ہیں، تو وہ ایسے مسکرائے جیسے لگا کہ ساری زندگی مسکراتے رہے ہیں۔'

شیفر نے کہا کہ 'ایسے بہت ہی کم کام ہیں جہاں آپ کو اس قسم کا ردعمل ملتا ہو۔'

ایک لاکھ سال

مائیکل کلائیو کو وہ لمحہ یاد ہے جب انھوں نے اپنے والد ایلن کو کہا تھا کہ انھوں نے ان کی کچھ استھیاں چاند پر بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ان کے والد کینسر کے مرض میں مبتلا اور سخت بیمار تھے۔

انھوں نے کہا کہ 'تمام دوائیوں کے باوجود (وہ زیر علاج تھا) ہم ان کے ساتھ بات چیت کرنے میں کامیاب رہے۔

'جب میں نے اپنے والد کو بتایا کہ ہم ان کی استھیاں چاند پر بھیجنے جا رہے ہیں، تو انھوں نے مسکرا کر کہا، 'ٹھیک ہے، یہ بہت اچھا ہے۔'

ایلن نے جب سنہ 1950 کی دہائی میں پڑھنا لکھنا شروع کیا تھا تو انھیں سائنس فکشن کی صنف سے لازوال محبت تھی جبکہ مائیکل کو 'سٹار ٹریک: دی نیکسٹ جنریشن' سیریز سے دلچسپی تھی۔ وہ اس فلم کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ دیکھتے اور ان کی بہن ایلن کو اس فلم کی ایکشن کی کہانی سناتی جو اس وقت تک اپنی آنکھوں کی روشنی کھو چکے تھے۔

ان کے والد نے ان گروپوں میں حصہ لیتے تھے جو خلا کے بارے میں تعلیم دیتے تھے۔ وہ پلینٹری سوسائٹی اور چیلنجر سنٹر کا بھی حصہ تھے۔ انہی کے ذریعے ایلن کی ملاقات یوجین شومیکر سے ہوئی۔

اب تک مشہور ماہر فلکیات اور ماہر ارضیات شومیکر ہی وہ واحد شخص ہیں جن کی استھیاں چاند پر رکھی گئی ہے۔ وہ سنہ 1997 میں فوت ہو گئے تھے۔

ان کی باقیات کا کچھ حصہ ناسا کی تحقیقات کے تحت چاند کو روانہ کی جانے والی خلائی گاڑی میں رکھا گیا تھا اور اسے دانستہ طور پر چاند پر گرایا گیا تھا تاکہ سائنسدان اس کے اثرات کا مطالعہ کر سکیں۔

مائیکل کو خوشی ہے کہ ان کے والد کی استھیوں کو ایک نرم، زیادہ روایتی لینڈنگ کے ساتھ چاند پر پہنچایا جائے گا۔ اور یہ کہ چاند کی جراثیم سے پاک، موسم سے پاک سطح کا مطلب ہے کہ وہ ہزاروں سال تک وہاں موجود رہیں گے۔

ان کا خیال ہے کہ یہ ایک ہزار سالوں تک وہیں پڑا رہے گا، اور شاید 10,000 سالوں تک وہیں پڑا رہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ 100,000 سالوں تک وہیں رہے۔

'اور ایسا کچھ نہیں ہے جو زمین پر اتنی دیر تک رہ سکتا ہے۔'

وہ یہاں تک امید کرتے ہیں کہ اگر نئی ٹیکنالوجی خلائی سفر کو مزید معمول بناتی ہے تو جب ان کے بچے بڑے ہوں گے تو ممکنہ طور پر ایک دن اپنے دادا سے ملنے کے لیے چاند کا سفر کریں گے۔

مستقبل قریب میں ندائن اپنے شوہر سنجیو اور لیام کے چار بھائیوں کے ساتھ پیریگرین خلائی جہاز کی لانچنگ دیکھنے کی منتظر ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 'اگر لیام دیکھ سکتا کہ ہم اس کے لیے کیا کر رہے ہیں، تو وہ خوش ہو جاتا کیونکہ اسے توجہ پسند تھی، اگرچہ بہت زیادہ نہیں۔'

انھوں نے مزید کہا کہ یہ لانچ ان کی جذباتی بحالی کے عمل اور غم کو کم کرنے کا وسیلہ ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ 'یہ ایک خوشی کا لمحہ ہوگا۔ میں جانتی ہوں کہ آنسو ضرور ہوں گے، لیکن وہ خوشی کے آنسو ہوں گے۔'

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More