Getty Images
اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں ناگراجن کنن کا ہمارے لیے ایک سوال ہے ’کیا آپ کا پاخانہ جسم سے خارج ہونے کے بعد پانی کے اوپر تیرتا ہے یا اس میں ڈوب جاتا ہے؟‘
سننے میں یہ کافی عجیب سوال ہے۔
لیکن یہ ایسا سوال ہے جس میں ناگرنجن کی بہت دلچسپی ہے اور اس معاملے پر اُن کی تحقیق اب اُن کا ذاتی تحقیقی پراجیکٹ بن گیا ہے۔ یہاں یہ بھی بتا دیں کہ ناگرانجن مینیسوٹا کی میو کلینک کے سٹیم سیل اور کینسر بیالوجی لیبارٹری کے ڈائریکٹر ہیں۔
اُن کے دن کا زیادہ تر حصہ سیلیولر اور مالیکیولر نظام پر تحقیق میں گزرتا ہے جس کی وجہ سے چھاتی کا کینسر ہوتا ہے۔ لیکن فارغ وقت میں ناگراجن ایک الگ قسم کی پہیلی کو سلجھانے میں مست ہیں، اور وہ یہ ہے کہ کبھی کبھار پاخانہ پانی میں ڈوبنے کے بجائے تیرتا کیوں ہے؟
اگر آپ کے ٹوائلٹ میں انڈین کموڈ ہے تو شاید اس سوال کا جواب دینا آپ کے لیے کچھ مشکل ہو، مگر دوسرے کموڈ کی صورت میں آپ اس کا مشاہدہ ضرور کرتے ہوں گے۔
بہرحال کبھی کبھار پاخانے کے ٹکرے فلش نہیں ہوتے اور متعدد بار فلش کرنے کے باوجود انتہائی ڈھٹائی سے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ جبکہ کئی دفعہ پاخانہ مکمل طور پر کموڈ میں موجود پانی کے اندر ڈوب جاتا ہے اور آسانی سے فلش ہو جاتا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
ناگراجن کنن کا ماننا ہے کہ اس کا جواب ہمیں ہمارے جسم کی صحت اور اس میں رہنے والے مائیکروبز (بیکٹریا) کے بارے میں دلچسپ معلومات فراہم کرتا ہے۔
Getty Images
ابتدا میں یہ مانا جاتا تھا کہ پاخانے کے پانی میں تیرنے کی وجہ اس میں موجود چکنائی کی مقدار ہوتی ہے۔ لیکن 1970 کے اوائل میں یونیورسٹی آف مینیسوٹا کے دو تحقیق کاروں نے اس خیال کو آزمانے کے لیے متعدد تجربات کیے۔
انھوں نے 39 رضاکاروں سے حاصل ہونے والے پاخانوں کو کئی تجربات سے گزارا، انھوں نے اپنے پاخانوں کو بھی اس تجربے میں نہیں بخشا۔ ان تجربات کے نتیجے میں انھیں یہ پتا چلا کہ پاخانے کے تیرنے کی وجہ چکنائی نہیں بلکہ اس میں موجود گیس تھی۔
زیادہ واضح طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاخانے کے اندر پائی جانے والی گیس کی مقدار اس حد تک مختلف ہو سکتی ہے کہ وہ یا تو سطح پر تیر سکتی ہے یا کسی ٹھوس شے کی طرح پانی میں دھنس سکتی ہے، اس کے علاوہ گیس کی مقدار کی حد اتنی بھی ہو سکتی ہے کہ نہ تو وہ مکمل طور پر پانی سطح پر آتی ہیں اور نہ ڈوبتی ہے بلکہ ڈوبی بھی ہوتی ہے اور تیر بھی رہی ہوتی ہے۔
بہرحال محققین کو یہ پتا چلا کہ اگر وہ پاخانے سے گیس نکال دیں تو وہ مکمل طور پر ڈوب جاتا ہے۔
Getty Images
محقیقین نے بتایا کہ یہ فرق میتھین گیس کے بننے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اور اس مقام پر ناگراجن کنن اس بحث میں داخل ہوتے ہیں۔ اس پہلی تحقیق کے بعد طبی سائنس نے اس بات سے پردہ اٹھایا ہے کہ دل کے عارضے سے لے کر موٹاپے تک کئی معاملات پر ہمارے جسم میں موجود مائیکرو بایوٹا اثر انداز ہوتے ہیں۔ ناگراجن کا ماننا ہے ہمارے آنتوں میں موجود سوکھرب بیکٹیریا، فنگی اور دیگر مائیکروآرگینیزمز (بیکٹریا) میں تبدیلیاں اس بات کی ذمہ دار ہوتی ہیں کہ آیا ہمارا پاخانہ ڈوبے گا یا نہیں۔
وہ کہتے ہیں ’ فیکل مادّہ کی اکثریت بنیادی طور پر تبدیل شدہ خوراک کے ذرات پر مشتمل ہوتی ہے جو بیکٹیریل ماس بناتی ہے۔‘
چوہوں پر کیے گئے تجربے کے نتائج
اس تھیوری کا تجربہ کرنے کے لیے ناگراجن اور میو کلینک میں ان کے ساتھیوں نے جراثیم سے پاک ماحول میں پیدا اور بڑے ہوئے چوہوں کے پاخانے کا مطالعہ کیا۔ ان چوہوں کی آنتوں میں چونکہ مائیکروبز نہیں تھے اسے لیے ان کےپاخانے فوراً پانی میں ڈوب گئے۔ جبکہ ایسے چوہے جن کی آنتوں میں مائیکروبز تھے ان کے 50 فیصد پاخانے ابتدا میں پانی میں تیرے اور پھر ڈوب گئے۔ جب انھوں نے اس کا مزید مطالعہ کیا تو اس کی وجہ واضح ہوئی۔
ناگراجن کہتے ہیں ’جراثیم سے پاک پاخانہ غیر ہضم شدہ خوراک کے سب-مائیکروسکوپک ذرات سے بھرا ہوتا ہے اور ان میں ایسے پاخانے کی نسبت کثافت زیادہ ہوتی ہے جو مائیکروبز سے بھرے ہوں۔‘
پھر محققین نے جراثیم سے پاک چوہوں کی ’فیکل ٹرانسپلانٹ‘ ان عام چوہوں سے کروائے جن کا پاخانہ پانی میں تیرتا تھا، یعنی ان میں آنتوں کے جراثیم متعارف کروا دیے۔ اس کے بعد سابقہ جراثیم سے پاک چوہوں کے پاخانے بھی پانی میں تیرنے لگے۔
getty images
جب چوہوں میں انسانوں کے جراثیم بھی متعارف کروائے تو ان کے پاخانے پانی پر تیرنے لگے۔
ناگراجن کہتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ جراثیم انسانوں سے آئے یا کہیں اور سے۔ ایک بار وہ متعارف ہو جائیں تو چوہوں کا پاخانہ تیرنا شروع کر دیتا ہے۔
ناگراجن اور ان کے ساتھیوں نے تیرنے والے چوہوں کے پاخانے میں موجود جراثیم کی قسم کا وسیح جینیاتی تجزیہ کیا ہے اور انھیں دس قسم کے جراثیم کی بڑی تعداد ان میں ملی ہے جو گیس بنانے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ان میں بھی اکثریت ’بیکٹیروآئڈز اویٹس‘ ہے جو کاربوہائیڈریٹس کے ابال کے ذریعے گیس پیدا کرنے کے لیے جانا جاتا ہے اور اس کا تعلق انسانی مریضوں میں ضرورت سے زیادہ پیٹ پھولنے سے بھی ہے۔
اگرچہ چوہوں سے پائے جانے والے نتائج کو احتیاط سے دیکھا جانا چاہیے یعنی ان کی انسانی ڈوبنے یا تیرنے والے پاخانے سے مطابقت رکھنے کی تصدیق ہونا باقی ہے لیکن ناگراجن کا خیال ہے کہ ہمارے پاخانے کا تیرنا ہمارے جسم میں بیکٹیریا کی مختلف اقسام میں تبدیلیوں کا اشارہ ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’مجھے شک ہے کہ اینٹی بائیوٹک لینے سے تیرتا ہوا پاخانہ ڈوبنے لگتا ہے۔‘
لیکن ان کا مزید کہنا ہے کہ انھوں نے کسی کو ابھی تک اس متعلق تحقیق کرتے نہیں دیکھا، وہ کہتے ہیں کہ اس موضوع پر فنڈنگ حاصل کرنا مشکل ہے۔
GETTY IMAGES
ہماری خوراک، تمباکو نوشی کی عادت، ہم جس تناؤ کا شکار ہوتے ہیں اور ہم جو دوائیں لیتے ہیں ان سمیت متعدد عوامل ہماری آنتوں میں موجود بیکٹیریا کو بدل سکتے ہیں۔ ناگراجن اب صرف اس بات کی کھوج کرنے کے خواہاں ہیں کہ کن وجوہات کی وجہ سے گیس بنانے والے خاص بیکٹیریا بنتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’چاہے آپ ایک سماجی محفل میں ہوں یا خلا کے سفر میں ہوں آپ نہیں چاہیں گے کہ آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ بیٹھے ہوں جس کی آنتیں گیس بنانے والے مائیکروبز سے بھری ہوں۔‘
اگرچہ یہ ایک غلیظ کام ہے لیکن کسی کو تو کرنا ہو گا!