Getty Imagesکمنز کے دوسرے سپیل میں پاکستانی مڈل آرڈر کی کم مائیگی سامنے آئی اور پورے دن کا حلیہ ہی بدل گیا
سلمان آغا دو سوچوں کے بیچ بٹے رہ گئے۔ وہ لینتھ بلاشبہ ڈرائیو کے لیے لبھانے کو تھی مگر وہ لائن ہرگز ڈرائیونگ کے لیے موزوں نہ تھی اور بالآخر جس انداز میں ان کا بلا گیند تک پہنچا، ایسی نیم دلی اسی انجام کی مستحق تھی۔
آسٹریلیا کو اپنی ہوم کنڈیشنز میں شکست دینے کو صرف بیس وکٹیں حاصل کرنا ہی کافی نہیں بلکہ بلے بازوں کو بھی اپنی بہترین کاوش دکھانا پڑتی ہے۔ جب تک کوئی ایک بلے باز سنچری جیسی بڑی اننگز نہ کھیل جائے، تب تک کینگروز کو دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا۔
کل پاکستان کی بولنگ پہلی بار اس حیثیت میں نظر آئی کہ سٹیون سمتھ اور مارنس لبوشین جیسے گھاگ بلے باز بھی بھرپور دباؤ میں دکھائی دیے۔
ٹاس جیت کر شان مسعود کا بولنگ کا فیصلہ بالکل بجا تھا کہ نہ صرف پچ پہلے بولنگ کو موزوں تھی بلکہ میلبرن کا ابر آلود مطلع بھی سوئنگ کے لیے سازگار تھا۔
مگر پہلے روز کی بہترین بولنگ کاوش بھی خاطر خواہ نتائج یوں حاصل نہ کر پائی کہ مارنس لبوشین کی مزاحمت نے وہ ساری کاٹ کند کر ڈالی لیکن دوسری صبح پاکستانی بولنگ ڈسپلن اور جرات میں اپنے بہترین پر ابھر آئی اور آسٹریلوی بیٹنگ کو کاؤنٹر اٹیک کا سامنا کرنا پڑا۔
لنچ سے پہلے پہلے آسٹریلوی بیٹنگ کو سمیٹ لینا بولرز کے علاوہ کپتان شان مسعود کی بھی نمایاں کامیابی تھی کہ اس سیریز میں کھیلی گئی اب تک سات روز کی کرکٹ میں محض دوسری بار پاکستان برتری پر دکھائی دیا۔
اور پاکستان کی یہ برتری نہ صرف مستحکم ہو سکتی تھی بلکہ طویل عرصے بعد اس سرزمین پر کوئی ٹیسٹ میچ جیتنے کی امیدیں مزید تقویت پکڑ سکتی تھیں اگر امام الحق یوں اپنے خول میں محبوس نہ رہ جاتے۔
پرتھ میں پچ کا باؤنس اس قدر غیر متوازن اور بے یقینی سے لبریز تھا کہ امام الحق کی وہ احتیاط قابلِ فہم تھی لیکن میلبرن کی اس پچ کو دوسرے دن کی دھوپ لگ چکی تھی، گھاس بھی ماند پڑ چکی تھی اور حالات بیٹنگ کے لیے بالکل سازگار تھے۔
مگر امام الحق اپنے خول سے باہر نہ آ سکے اور ابتدائی اوورز میں پاکستان کا رن ریٹ سستی سے بھی پست تر رہا لیکن شان مسعود کے کریز پر آتے ہی گویا کوئی نئی روح بیدار ہو گئی اور یکایک سکور بورڈ یوں تیزی سے چلنے لگا کہ آسٹریلوی بولنگ دباؤ میں آ گئی۔
شان مسعود کی جارحیت کی بدولت پاکستان نے دوسری وکٹ کے لیے ایک ضخیم ساجھے داری کمائی اور پیٹ کمنز کی اس گیند پر اگر عبداللہ شفیق کی قسمت دغا نہ کرتی تو یہ پورا دن بھی پاکستان کے نام ہو سکتا تھا مگر کمنز کی سمجھداری اور ایک بہترین کیچ کی بدولت وہ ساجھے داری ٹوٹ گئی۔
Getty Imagesاگر عبداللہ شفیق کی قسمت دغا نہ دیتی تو یہ پورا دن بھی پاکستان کے نام ہو سکتا تھا
وہ شراکت ٹوٹنے کی دیر تھی کہ دن بھر میچ پر چھائی رہی ٹیم یکبارگی پچھلے قدموں پر چلی گئی اور آسٹریلوی بولنگ اپنے ہی سائے سے ابھر کر پھر سے میچ پر چھانے لگی۔
بابر اعظم بدقسمت رہے کہ دن کی بہترین گیند پر ان کا نام لکھا تھا مگر ان کے بعد باقی ماندہ مڈل آرڈر اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے سے معذور دکھائی دیا۔ سعود شکیل بھی سلمان آغا کی طرح اسی مخمصے کا شکار رہے کہ گیند کا تعاقب کیا جائے یا احتراز سے کام لیا جائے۔
یہ درست ہے کہ اگر جدید ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کو باقی دنیا کے ہم پلّہ رہنا ہے تو اپنی چال بدلنا بھی لازم ہے۔ اس دور میں تین دہائی پرانے رن ریٹ پر چل کے میچ جیتے نہیں جا سکتے لیکن یہ ذمہ داری نبھانے کو صرف ایک عبداللہ شفیق کی اننگز یا محض شان مسعود کی مثبت اپروچ ہی کافی نہیں ہو سکتی۔
یہاں مڈل آرڈر کو اپنی ذمہ داری کا ادراک کرنا ہو گا کہ ٹاپ آرڈر نے تو پرتھ کی پہلی اننگز میں بھی اپنے حصے کا بوجھ اٹھایا تھا مگر جب تک مڈل آرڈر واقعی اس بیٹنگ لائن کی ریڑھ کی ہڈی ثابت نہیں ہو گا، تب تک اس آسٹریلوی ٹیم پر برتری کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔
ایک بھرپور دن جو پاکستان کے لیے خوابناک خوبیوں سے مزین تھا، یکسر پاکستان کے نام ہو سکتا تھا لیکن کمنز کے دوسرے سپیل میں پاکستانی مڈل آرڈر کی کم مائیگی سامنے آئی اور پورے دن کا حلیہ ہی بدل گیا۔