’مجھے انجینیئرنگ کی تعلیم اس لیے چھوڑنی پڑی کیونکہ میں روزانہ کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا‘

بی بی سی اردو  |  Dec 27, 2023

BBCبیبرگدونوں پیروں سے ہمیشہکے لیے مفلوج ہیں اور وہ ویل چیئر کے بغیر کہیں آ جا نہیں سکتے

بیبرگ بلوچ نے میٹرک کے بعد انجینیئر بننے کا خواب آنکھوں میں سجایا تھا جس کی تعبیر کے لیے انھوں نے نہ صرف خوب محنت کی بلکہ وہ انجینیئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔

یہ دو مارچ 2010 کی شب تھی جب یونیورسٹی کے احاطے میں طلبا، بلوچ ثقافتی دن کی مناسبت ایک تقریب میں شریک تھے۔ اس تقریب پر نامعلوم افراد نے دستی بموں سے حملہ کیا جس میں دو طالب علم ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ۔ان زخمیوں میں بیبرگ بلوچ بھی شامل تھے۔

بیبرگ اس حملے کے نتیجے میں اپنے دونوں پیروں سے ہمیشہ کے لیے مفلوج ہوگئے اور اب وہ ویل چیئر کے بغیر کہیں آ جا نہیں سکتے۔

علاج اور اس سانحے کے صدمے سے نکلنے میں انھیں دو سال لگے۔

لیکن جب وہ اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کو جوڑنے کے لیے دوبارہ یونیورسٹی گئے تو ایک بار پھر مایوسی نے ان کی راہ روک دی۔

’میں دو سال بعد جب ویل چیئر پر اپنے تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے انجینیئرنگ یونیورسٹی پہنچا تو ایک ایک معمولی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے میرا انجینیئر بننے کا خواب چکنا چور ہو گیا اور مجھے انجینیئرنگ کی تعلیم چھوڑنا پڑی۔‘

بیبرگ بلوچ کون ہیں؟BBC

بیبرگ بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع سوراب سے ہے لیکن وہ کوئٹہ میں رہتے ہیں۔ وہ اس وقت یونیورسٹی آف بلوچستان میں زولوجی کے مضمون میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں طلبا کے لیے کیریئر کونسلگ کا مناسب انتظام نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر طالب علم کی اوّلین ترجیجات میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ وہ انجینئر یا ڈاکٹر بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے انجینئر بننے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجایا تھا اور بھرپور محنت کرکے انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔

ایف ایس سی کے بعد آبائی علاقے سے انجنیئرنگ کی نشست ملنے کے بعد ان کا داخلہ انجنیئرنگ نیورسٹی آف خضدار میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں انتہائی خوش تھا کیونکہ انجینئر بننے کا جو سب سے بڑا مرحلہ تھا وہ عبور کر لیا تھا۔‘

تاہم 2010 میں جب وہ انجنیئرنگ کے تیسرے سال میں پہنچے تو اس سانحے کے بعد انجینئرنگ کی تعلیم کوجاری رکھنا مشکل ہوگیا۔

بیبرگ کے انجینئر بننے کی راہ میں رکاوٹ کیا بنی؟

بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ اگرچہ وہ اس واقعے کے بعد چلنے اور پھرنے کے قابل نہیں رہے تھے لیکن ان کے انجینئرنگ کی تعلیم جاری رکھنے کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’جب علاج کے دو سال بعد میں یونیورسٹی پہنچا تو یونیورسٹی میں میری نقل و حمل مشکل تھی کیونکہ دوسری منزل پر رسائی کے لیے یونیورسٹی میں ریمپ نہیں تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ چونکہ یونیورسٹی میں تمام لیباریٹریز اوپری منزلوں پر تھیں جہاں سیڑھیوں کے سوا کوئی اور سہولت نہیں تھی۔

وہ کہتے ہیں ’آپ کو معلوم ہے کہ انجینئرنگ کی تعلیم کا ایک اہم حصہ لیباریٹریز میں ہوتا ہے اور تجربوں کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوتی ہے۔ سیڑھیوں پر چڑھنے اور اترنے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس لیے میرے لیے انجنیئرنگ کی تعلیم کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔‘

بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ جہاں عمارتوں پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں وہاں ان کروڑوں روپوں کے مقابلے میں معمولی رقم سے معذور افراد یا عمر رسیدہ افراد کے لیے ریمپ کا انتظام کیا جاسکتا ہے مگر یہ باتافسوسناک ہے یہ سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی طرح کئی لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میری حوصلہ افزائی کے لیے کوئی اقدام کرنے کی بجائے مجھے یہ بتایا گیا کہ اب میرے لیے انجنیئرنگ کی تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگا جس پر مجھے بہت دکھ اور افسوس ہوا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جب میں مایوس ہو گیا تو پھر مجھے انجنیئرنگ کی تعلیم کو ترک کرنا پڑا کیونکہ میں ہر روز کسی کے لیے بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ریمپ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے جہاں میں انجینیئر نہیں بن سکا وہاں اس کے بعد بھی میں اپنی خواہش کے مطابق تعلیمی شعبے کا انتخاب بھی نہیں کرسکا۔

BBCیونیورسٹی کے بعض حصوں میں گراؤنڈ فلورز پر بھی ریمپ کی سہولت نہیں ہےانجینئرنگ کو ترک کرنے کے بعد بیبرگ کا دوسرا انتخاب کیا تھا؟

بیبرگ بلوچ کا کہنا تھا کہ میری دوسری خواہش یہ تھی کہ میں انگریزی ادب میں ایم اے کروں جس کے لیے میں نے کوئٹہ میں یونیورسٹی آف بلوچستان کا رخ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے اپنے داخلہ فارم یونیورسٹی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ بھجوائے تو انھیں معلوم ہوا کہ انگلش ڈیپارٹمنٹ گرائونڈ فلور پر نہیں بلکہ پہلی منزل پر اور وہاں جانے کے لیے سیڑھیوں پر چڑھنے کے سوا رسائی کا دوسرا انتظام نہیں ہے جس کے باعث وہ انگریزی میں بھی ایم اے کرنے سے محروم رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد میں نے زولوجی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا جو نہ صرف گراؤنڈ فلور پر ہے بلکہ اس کے داخلی راستوں پر ریمپ کی سہولت بھی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے بعض حصوں میں گراؤنڈ فلورز پر بھی ریمپ کی سہولت نہیں ہے۔

انھوں نے یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری دکھاتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یونیورسٹی میں چار سال ہوگئے اور اس وقت میں یہاں سے ایم فل کررہا ہوں لیکن میں اس لائبریری سے کوئی استفادہ حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ اس میں ویل چیئرزاستمعال کرنے والوں کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔‘

بصارت سے محروم طلبا بھی تعلیمی سہولیات سے محرومBBCبختاور بی بی نے بتایا کہ بلوچستان کے علاوہ باقی صوبوں میں بریل کی سہولیات موجود ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے بصارت سے محروم طلبہ کا تعلیمی معیار یہاں کے مقابلے میں بہتر ہے

جہاں پیروں سے معذور طلبا کو بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں ریمپ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے وہیں یونیورسٹی میں بصارت سے محروم طلبا کو بریل سسٹم نہ ہونے کے باعث تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات ہیں۔

ایسی ہی کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ایک طلبا بختاور بی بی بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بریل کی سہولت نہ ہونے سے سب سے زیادہ بصارت سے محروم خواتین کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معذور افراد کے لیے کوئٹہ اور خضدار کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بریل سسٹم اور دیگر سہولیات میسّر نہیں ہیں جس کے باعث خصوصی افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بختاور بی بی نے بتایا کہ بلوچستان کے علاوہ باقی صوبوں میں بریل کی سہولیات موجود ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے بصارت سے محروم طلبہ کا تعلیمی معیار یہاں کے مقابلے میں بہتر ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی بریل نصاب میٹرک تک ہے اور میٹرک کے بعد ان کو بھی ریکارڈنگ کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے۔

اگرچہ بیبرگ بلوچ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں لیکن بختاور بی بی بریل کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکی۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ بی ایس کرنا چاہتی ہیں لیکن کسی یونیورسٹی تک ان کی رسائی بہت مشکل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر بصارت سے محروم افراد کے لیے کسی مرکز میں حکومت کی جانب سے تعلیم کا انتظام کیا جاتا تو وہاں جانا ممکن تھا لیکن کسی یونیورسٹی میں مجھ جیسے افراد کے لیے روزانہ آنا اور جانا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ آمدورفت کے لیے روزانہ دوسرے افراد کا سہارا لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بریل سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے انھیں بریل پر وہ عبور حاصل نہیں ہے جو کہ دوسرے صوبوں کے طلبا کو حاصل ہے۔

BBC’میں نے بھی تعلیم کو ترک کرنے کے بارے میں سوچا‘

امو خان خروٹی کا تعلق کوئٹہ شہر کے علاقے خروٹ آباد سے ہے۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے میرے والدین نے بتایا کہ میں پیدائشی طور پر معذور نہیں تھا۔ مجھے تیز بخار ہوا تھا جس کے بعد میں چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا۔‘

امو خان نے بتایا کہ انھوں نے مڈل تک مشکل سے تعلیم حاصل کی لیکن جب وہ میٹرک میں داخلے کے لیے خروٹ آباد سکول میں داخلے کے لیے گئے تو وہاں نویں اور دسویں جماعت کے کلاس روز گراؤنڈ فلور پر نہیں تھے۔

انھوں نے بتایا کہ انھیں سکول میں داخلہ تو مل گیا لیکن ان کو اٹھا کر کلاس تک لے جانے میں نہ صرف انھیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا تھا جس کی وجہ سے ایک دو ہفتے بعد انھیں سکول کو چھوڑنا پڑا اور میٹرک اور انٹرمیڈیٹ پرائیویٹ طور پر کرنا پڑا۔

امو خان نے بتایا کہ کالجز میں ریمپ کی سہولت نہ ہونے کے باعث انھوں نے تعلیم کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور ایک دوست سے کوئی کام کرنے کے بارے میں مشورہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوست نے انھیں رکشہ چلانے کا مشورہ دیا وہ تیار بھی ہو گئے لیکن پڑھائی کے شوق کے باعث انھوں نے بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ سائنسز میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے معذور ہونے کی وجہ سے کئی خدشات کے ساتھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

BBCاموخان بیوٹمز میں بی ایس ایجوکیشن میں پہلے سمسٹر کے طالب علم ہیں۔

ریمپ کی سہولت نے امو خان کے لیے یونیورسٹی میں آسانی کر دی۔ امو خان بی ایس ایجوکیشن کے پہلے سمسٹر کے طالب علم ہیں۔

بیوٹمز میں بھی ان کے کلاس رومز گراؤنڈ فلور پر نہیں بلکہ فرسٹ فلور پر ہیں لیکن ان کووہاں جانے میں کوئی مشکل درپیش نہیں کیونکہ وہاں ریمپ بنائے گئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے دیگر مقامات پر بھی آسانی کے ساتھ آ جا سکتے ہیں۔

اموخان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ میں گھسیٹ کر چلتا ہوں اس لیے میں یہ سوچتا رہا کہ یونیورسٹی میں کیا ہوگا، کیسے کلاس تک جاؤں گا، اگر گر گیا تو کیا ہوگا لیکن یہاں صورتحال بالکل مختلف ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بیوٹمز میں کلاس ہو، مسجد ہو ، لائبریری ہو یا واش رومز ہو میں آسانی کے ساتھ موومنٹ کرسکتا ہوں۔

انھوں نے بتایا کہ بیوٹمز میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں ان کے لیے آسانی سے رسائی ممکن نہ ہو۔ حتیٰ کی ریمپ کی سہولت ہونے کے باعث میں یونیورسٹی کے جم بھی جاتا ہوں۔

BBC’معاشرہ سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے‘

بیبرگ بلوچ کہتے ہیں کہ وہ ایسے بہت سے لوگوں کو جانتے ہیں جو کہ معمولی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ سب کے لیے یکساں ہو جس طرح دوسرے لوگ ہر جگہ جاسکتے ہیں اسی طرح معذور افراد کو ہر جگہ تک رسائی ہونی چاہیے۔ نقل و حمل کی بہتر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم سے محروم ہونے کے علاوہ دفاتر اور ہسپتال وغیرہ نہیں جاسکتے وہ شاپنگ مالز وغیرہ بھی نہیں جاسکتے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اپنی پسند کی کوئی چیز اپنی پسند کی جگہ سے خرید نہیں سکتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے شاپنگ مالز میں ریمپ کی سہولت نہیں ہے۔‘

بیبرگ بلوچ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہاس بات کا خیال رکھا جائے کی معذور افراد کو بھی تعلیمی اداروں ، ہسپتالوں، دفاتر، بینکوں، پارکس اور دفاتر تک آسانی سے رسائی ہو۔

حکام اس متعلق کیا کہتے ہیں؟

بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی تسلیم کرتے ہیں کہ خصوصی افراد کی ہر جگہ تک رسائی ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ اس کو ممکن بنانے کے لیے اب تک مناسب انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خصوصی افراد کو نہ صرف تعلیمی اداروں میں رسائی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے بلکہ وہ ہسپتال اور بینک وغیرہ بھی نہیں جاسکتے ہیں۔

جان محمد اچکزئی نے کہا کہ نگراں حکومت اس معاملے کا جائزہ لے گی اور جتنے بھی پالیسی ساز ادارے ہیں ان میں خصوصی افراد کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا جائے گا تاکہ نہ صرف ان کے مسائل کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں بلکہ ان کے مسائل کے مستقل حل کے لیے بھی منصوبہ بندی ہو۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More