Getty Imagesایلولوز قدرتی طور پر بہت کم دستیاب ہے اور یہ قدرتی طور پر انجیر اور کشمش میں پایا جاتا ہے
’مجھے یقین ہے کہ چینی کا یہ متبادل دراصل نسخہ کیمیا ہے۔‘
’زس فوڈ سائنسز‘ کے سربراہ زیو زویگھافٹ نے چینی کے متبادل کے طور پر ’ایلولوز‘نامی اس سفید دانے دار پاؤڈر کو شفایابی کی قوت رکھنے والے پتھر ’ہولی گریل‘ سے تشبیہ دی ہے۔
ایلولوز اپنے ذائقے میں تقریباً 70 فیصد تک چینی کی طرح میٹھا ہوتا ہے لیکن یہ بہت کم کیلوریز کا حامل ہوتا ہے اور اس کے بلڈ شوگر کی سطح پر اثرات لگ بھگ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ ایلولوز قدرتی طور پر بہت کم دستیاب ہے اور یہ قدرتی طور پر انجیر اور کشمش میں پایا جاتا ہے۔
امریکہ میں تقریباً ایک دہائی قبل اس کے استعمال کی سب سے پہلے منظوری دی گئی۔ یہ نام نہاد ’نادر چینی‘ تجارتی طور پر فرکٹوز یعنی پھلوں میں پائے جانے والی قدرتی گلوکوز سے تیار کی جاتی ہے۔
تاہم اب اسے وسیع پیمانے پر چینی کے ایک بہترین متبادل کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ ذائقہ اور کام دونوں میں یکساں مفید ہے لیکن چونکہ یہ انتہائی کم مقدار میں دستیاب ہے اس لیے اس کی قیمت کافی زیادہ ہے۔
ڈاکٹر زویغافت نے اسرائیل کے سٹارٹ اپ ’امبروسیا بایو‘ میں اسے ایک پروپرائیٹی انزائم (جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مائیکروجنزم کے ذریعہ تیار کردہ) کے ساتھ بنانے کا انتہائی سستا طریقہ قرار دیا ہے کیونکہ اس کے لیے وہ شکر یا زیادہ فرکٹوز والے کارن سیرپ کو خام مال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر زویغافت کو امید ہے کہ اس طرح وہ ایلولوز کو عام استعمال کے لیے دستیاب کر سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں موٹاپے اور ذیابیطس کی شرح میں اضافے کے باعث بہت سے صارفین اب چینی کے بہتر اور صحت مند متبادل کی تلاش میں ہیں۔
فوڈ ٹیک سٹارٹ اپس کا ایک گروپ ایلولوز کو بڑی فوڈ کمپنیوں کو فراہم کرنے میں مصروف عمل ہے تاکہ وہ انھیں اپنی مصنوعات میں شامل کریں۔
’گرے بی‘ نامی کمپنی کے تجزیہ کار گورو ساہنی کا کہنا ہے کہ ’چینی کی متبادل صنعت کی مانگ عالمی سطح پر بہت زیادہ ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ مختلف ممالک کی حکومتیں چینی پر ٹیکسوں میں اضافے اور اسی نوعیت کے دیگر اقدامات کے ذریعے اس رجحان میں حصہ ڈال رہی ہیں۔
’گرے بی‘ نے چینی کے متبادل کی عالمی مارکیٹ کا منصوبہ بنایا ہے جس کی مالیت آج 17 ارب امریکی ڈالر ہے اور ایک دہائی کے عرصے میں اس کی قدر 28 ارب ڈالر سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔
دیکھا جائے تو چینی کے بہت سارے متبادل پہلے ہی موجود ہیں۔ ایسپرٹیم، سیکچارن اور سکرالوز جیسی پرانی مصنوعی مٹھاس عام طور پر ڈائیٹ ڈرنکس میں استعمال ہوتی ہیں اور یہ نئے قدرتی میٹھے جیسے سٹیویا اور مونک فروٹ پودوں سے نکالے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ مؤخر الذکر کو ابھی تک برطانیہ یا یورپی یونین میں کھانے کی اشیا کے طور پر منظور نہیں کیا گیا ہے۔
یہ چینی سے کئی گنا زیادہ مٹھاس کے حامل ہوتے ہیں اس لیے ان کی صرف تھوڑی مقدار ہی کافی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ پولیول یا شوگر الکوحل بھی ہیں اور اریتھریٹول نے خاص طور پر حالیہ برسوں میں مقبولیت حاصل کی ہے۔
یہ قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں لیکن تجارتی طور پر چینی اور نشاستہ سے تیار کیے جاتے ہیں، یہ چینی کی طرح میٹھے نہیں ہوتے لیکن ان میں تیار کی گئی اشیا اور دیگر پراسیسڈ فوڈ بنانے کے لیے مناسب مقدار میں مٹھاس موجود ہوتی ہے۔
Getty Images چینی کے متبادل کو کم قیمت اور بھرپور مقدار کے ساتھ مقابلہ کرنا ہو گا
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود چینی کے متبادل کم پڑتے ہیں اور اُن کا ذائقہ اور استعمال کے بعد منہ میں پیدا ہونے والی مٹھاس کا احساس پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔
اسی بات پر تحقیق کرنے والی امریکی بایوٹیک فرم جنگکو بایو ورکس کے سینیئر ڈائریکٹر مروین ڈی سوزا کہتے ہیں: ’چینی چیزوں کو میٹھا بنانے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کرتی ہے۔‘
اس میں ممکنہ طور پر صحت کو نقصان پہنچانے کے اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔
چینی کے متبادل ایریتھریٹول سے فالج اور دل کے دورے کے خطرے سے بھی خبردار کیا گیا ہے۔ (حالانکہ کئی دیگر محققین اس نتیجے کو قبل از وقت قرار دیتے ہیں۔)
ایک اور متبادل ایسپرٹیم کے بارے میں عالمی ادارہ صحت کے کینسر کے ماہرین نے خدشات کا اظہار کیا ہے اور اسے ’ممکنہ طور پر کینسر پیدا کرنے والا‘ قرار دیا ہے۔ تاہم عالمی ادارہ صحت کے ایک ذیلی ادارے نے خوراک کے موجودہ رہنما اصولوں کے تحت اس کے محفوظ ہونے کی تصدیق کی ہے۔
مئی کے مہینے میں عالمی ادارہ صحت نے وزن کو کنٹرول کرنے کے لیے چینی کے متبادل میٹھے کے استعمال کے خلاف ایک عمومی سفارش کی تھی جس میں انھوں نے مزید کہا ہے کہ وہ ذیابیطس اور قلبی امراض کا خطرہ بھی بڑھا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ادارے نے سٹیویا سمیت کئی قسم کی مصنوعات کے حوالے سے دستیاب شواہد کا جائزہ لیا ہے لیکن مونک، الیولوز یا ایریتھریٹول وغیرہ پر تجربہ نہیں کیا ہے۔ اسٹارٹ اپس کو اس میں بہتری کی گنجائش نظر آتی ہے۔
جنوری میں امریکہ میں قائم سٹارٹ اپ ’بونوموس اے ایس آر‘ گروپ کی مدد سے گنے کی حاصل ہونے والی شکر کو صاف کرنے والے دنیا کے سب سے بڑا ایک نیا پلانٹ کھولا تاکہ ایک قدرتی مٹھاس والے ٹیگاٹوس (tagatose) کو بھی کم قیمت پر تیار کیا جا سکے۔
اسے بھی ایک بہترین چینی کا متبادل سمجھا جاتا ہے اور یہ نوے فیصد مٹھاس کے ساتھ ایلولوز کے قریب تر ہے۔ بونوموس کے چیف ایگزیکٹیو ایڈ راجرز اسے بہترین مٹھاس قرار دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر کئی نئے سویٹینرز(چینی کے متبادل) بڑی تعداد میں سامنے آ رہے ہیں۔
برطانیہ کی ایک سپلانٹ کمپنی نے ایک کم کیلوریز کی حامل پروڈکٹ تیار کی ہے جو ہلکی مٹھاس لیے ہوئے ہے۔ سپپلانٹ اسے زرعی فضلے سے تیار کرتا ہے جس میں مخصوص طریقے سے انجیر کے تنے اور ڈنٹھل یہاں تک کے اس کے بھوسے تک کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔
چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر ٹام سیمنز کا کہنا ہے کہ یہ چینی کی مماثلت لیے ہوئے ہے جبکہ اس کا خام جزو وافر، سستا اور ماحولیاتی طور پر پائیدار ہے۔
دوسری جانب چینی سے کہیں زیادہ مٹھاس رکھنے والے نام نہاد میٹھے پروٹینز بھی ہیں جو قدرتی طور پر کچھ کے پھلوں اور بیریوں میں پائے جاتے ہیں جبکہ اس کو پسند کرنے والے انھیں ایک اچھے ذائقے والے میٹھے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
امریکہ میں قائم سٹارٹ اپ ’اوبلی‘ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خمیر کا استعمال کرتے ہوئے چینی کو خمیر کر کے میٹھے پروٹین تیار کرتا ہے۔
اوبلی کے چیف ایگزیکٹیو علی ونگ کہتے ہیں کہ ’سویٹ پروٹین سوڈا میں بہترین کام کرتے ہیں۔‘ تاہم ان دعوؤں کے باوجود سٹارٹ اپ کمپنیوں کو کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
ان میں سے ایک گاہکوں کو تلاش کیا جانا ہے۔ بڑے مینوفیکچررز کو نئے اجزا کا استعمال کرتے ہوئے کسی پراڈکٹ کی اصلاح کرنے میں چند سال لگ سکتے ہیں۔ سٹارٹ اپس کو یہ بھی ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے متبادل کو قابل اعتماد بنانے کے ساتھ بڑے پیمانے پر تیار کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب نئی مصنوعات آزمانے کے لیے خریداروں میں ہچکچاہٹ بھی دیکھی جاتی ہے۔
Getty Images
ان اجزا کے لیے ریگولیٹری کی منظوری حاصل کرنا بھی مشکل مرحلہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر مصنوعات کو امریکہ میں منظوری حاصل ہے تاہم یورپ میں یہی منظوری کہیں زیادہ مشکل ہے۔
ایلولوز فی الحال برطانیہ یا یورپی یونین سے منظور شدہ نہیں ہے حالانکہ کمپنیوں کی ایک ایسوسی ایشن اس منظوری کے حصول کی کوشش کر رہی ہے۔
سپپلانٹ کمپنی فی الحال اپنی مصنوعات کو برطانیہ اور یورپی یونین کے ریگولیٹرز میں جمع کرانے کے لیے ڈوزیئر تیار کر رہی ہے۔ دوسری جانب ٹیگاٹوس امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین میں استعمال کے لیے منظور کی جا چکی ہے۔
لیکن اس کی مارکیٹنگ مشکل ہو سکتی ہے۔ اسے ایلولوز کی طرح ’زیرو شوگر‘ کے طور پر بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس میں ایلولوز سے تھوڑی زیادہ کیلوریز ہوتی ہیں۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی، ڈیوس میں غذائیت کے ماہر حیاتیات، کمبراسٹین ہوپ کہتے ہیں کہ چینی کے نئے متبادل سامنے آتے دیکھنا دلچسپ ہے۔ بہترین حل چینی کا استعمال ختم کرنا ہے لیکن یہ مشکل ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق ’ہمیں ان مصنوعات کی ضرورت ہے۔‘
ڈاکٹر شین ہوپ کا خیال ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے برعکس چینی کے بغیر میٹھا کھانا وزن کو کنٹرول کرنے اور ذیابیطس کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے صرف ایک قسم کے مطالعے پر اپنی سفارشات کی بنیاد رکھی ہے۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر نئی مصنوعات کو حفاظت اور ممکنہ فائدے کے لیے احتیاط سے جانچنے کی ضرورت ہو گی۔ ’ہمیں ان کے لیے کلینیکل ٹرائلز کی ضرورت ہے۔‘