Getty Imagesمائیکل کلارک نے چند روز پہلے جب یہ کہا کہ پاکستان جیسی ٹیموں کے خلاف یکطرفہ میچز کھیلنے سے آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹ کی بقا خطرے میں پڑ رہی ہے
ایک برس پہلے تک پاکستان کے پیس ذخائر اس قدر وسیع تھے کہ فائنل الیون کی ایک نشست کے لیے دو دو ایسے امیدوار منتظر ہوا کرتے جو 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بولنگ کر سکتے تھے۔ مگر شومئی قسمت کہ یہ سب وسائل پی سی بی جیسے انتظامی ادارے کے رحم و کرم پہ تھے۔
جس بورڈ میں آنے والے چیئرمین کو نہ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیوں لایا گیا اور نہ ہی یہ خبر کہ وہ کیونکر نکالا جائے گا، وہ بورڈ اپنے ہڑبونگ میں ہی اس قدر سرشار رہتا ہے کہ وسائل کی نگہداشت جیسی لایعنی باتوں کو درخورِ اعتنا سمجھنا گوارا ہی نہیں کر پاتا۔
جہاں ورک لوڈ مینیجمنٹ کا یہ عالم ہو کہ افغانستان کے خلاف بھی تین فرنٹ لائن پیسرز میدان میں اتارنا لازم سمجھا جائے اور فرنچائز کرکٹ میں بھی حسبِ توفیق شمولیت کی کھلی چھٹی ہو، وہاں پھر ایسے ہی مظاہر برپا ہو سکتے ہیں کہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ فائنل میں اختتامی مراحل کے دو اہم ترین اوورز پھینکنے کو شاہین آفریدی میسر ہی نہ ہو پائیں۔
وقار یونس کی حیرانی بجا ہے کہ شاہین آفریدی کی پیس کہاں کھو گئی مگر جب ایک پریمئیر پیسر کی انجری سے بحالی صرف اس لیے فاسٹ ٹریک کی جائے گی کہ ایک چیئرمین پی سی بی کو اپنے تاج میں ایک ورلڈ کپ ٹرافی کا پر ٹانکنا ضروری تھا، تو پھر یہی کچھ ہو سکتا ہے۔
جس بورڈ کی انتہائی عظمت یہ ہو کہ وہ ہر سال باقاعدگی سے پی ایس ایل میں تمام پیسرز کی فٹنس یقینی بنانا ہی نقطۂ کمال سمجھتا ہو، وہاں مچل سٹارک کو کوئی کیسے سمجھائے کہ جس پیس کی عدم موجودگی پہ وہ حیران ہو رہے ہیں، اس کی نگہداشت کو بیچارے پی سی بی کے پاس اتنے ’وسائل‘ ہی نہیں ہیں کہ وہ فٹنس اور ڈائٹ ڈسپلن کی کوئی رجیم ترتیب دے سکے۔
گذشتہ پی ایس ایل کے بعد ایک چارٹ منظر عام پہ آیا تھا جس کے مطابق پاکستان کو 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینکنے والے سات آٹھ بولرز میسّر تھے مگر اب یہ عالم ہے کہ شاہین آفریدی بھی 130 کلومیٹر فی گھنٹہ کی اوسط تک آ چکے ہیں۔
Getty Images
اور اس سکواڈ میں 140 کلومیٹر فی گھنٹہ والے اکلوتے آپشن محمد وسیم کی تعمیر میں ہی شاید کوئی ایسی خرابی ہے کہ وہ ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ کی نظرِ التفات حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
جہاں اندرونی محاذ پہ یہ خلفشار درپیش ہے تو وہیں پاکستان کرکٹ کے خودساختہ میڈیائی پاسبانوں کے نزدیک کائنات کا سب سے بڑا مسئلہ سرفراز احمد کی الیون میں شمولیت ہے۔ حالانکہ سوال یہ نہیں کہ میلبرن ٹیسٹ کے لیے سرفراز احمد کو ڈراپ کیوں کیا گیا بلکہ سوال تو یہ ہے کہ پرتھ ٹیسٹ میں بھی محمد رضوان کو نظر انداز کیوں کیا گیا تھا؟
وکٹ کیپر کا بنیادی کام سٹمپس کے پیچھے کا محاذ سنبھالنا ہے جہاں کیچز ڈراپ ہونا اور سٹمپنگ چانسز ضائع ہونا کسی جرم سے کم نہیں۔ مگر سرفراز احمد کی تائید میں ہانپتی آوازیں اس نقصان کا تخمینہ لگانے سے بھی قاصر ہیں جو پرتھ ہی میں پاکستان کو سٹمپس کے پیچھے سے اٹھانا پڑا۔
مائیکل کلارک نے چند روز پہلے جب یہ کہا کہ پاکستان جیسی ٹیموں کے خلاف یکطرفہ میچز کھیلنے سے آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹ کی بقا خطرے میں پڑ رہی ہے تو پاکستانی شائقین بہت جُز بُز ہوئے مگر تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ جب آسٹریلیا میں کوئی ٹیسٹ جیتے ہوئے تین دہائیاں ہونے کو آ چکیں تو سوچنے کا مقام بالکل ہے کہ پاکستان آخر وہاں لینے کیا جاتا ہے۔
لیکن پاکستان کی کم مائیگی پہ حیراں مائیکل کلارک اور مچل سٹارک کو کون بتلائے کہ قصور ان کرکٹرز کا نہیں بلکہ اس بورڈ کا ہے جس کی سربراہی پہ آنے والے جیسے بے وجہ لائے جاتے ہیں، ویسے ہی بلاوجہ چلتے بھی کر دیے جاتے ہیں تو ایسے میں کون کہاں بیٹھ کر ایسے دقیق انتظامی مسئلے سوچے کہ آسٹریلیا میں پاکستان کا ریکارڈ اس قدر شرمناک کیونکر ہے؟