پوسٹ مارٹم کے دوران لاشوں کے ٹکڑے کرنے والی حاملہ ورالو: ’لوگ کہتے ہیں ایسی حالت میں لاش کو مت چُھونا‘

بی بی سی اردو  |  Dec 24, 2023

(اس مضمون کے کچھ حصے آپ کے لیے تکلیف دہ ہو سکتے ہیں)

’کیا آپ لاشوں سے ڈرتے ہیں لیکن آپ سب کو تو زندہ لوگوں سے ڈرنا چاہیے۔‘

یہ کہنا ہے ک ورالو نامی ایک نوجوان خاتون کا جو پوسٹ مارٹم کے کمرےمیں مردہ لوگوں کی لاشوں کے ٹکڑے کرتی ہیں۔

بہت سے لوگ لاش کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایم کام کی ڈگری یافتہ ورالو گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہ کام کر رہی ہیں اور ان دنوں حاملہ بھی ہیں۔

لاشوں کی چیڑ پھاڑ اور ان کے ہر حصّے کو جدا کرنے کا کام عام طور پر مردوں سے منسوب کیا جاتا ہے اور اس پیشے میں آنے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ ایسے میں نوجوان ورالو اس پیشے میں کیسے آئیں؟ اس مضمون میں انہی کی زبانی ہم بتائیں گے۔

ورالو اس وقت حاملہ ہیں اور زچگی کی چھٹی پر گھر میں موجود ہیں۔ بی بی سی کو اپنی زندگی کی کہانی انھوں نے اپنے گھر میں ہی سنائی اور نہایت خوش دلی سے اس کا آغاز کیا۔

’میرا نام بگاتلا ورالو ہے میں 24 سال کی ہوں اور میرا گھر ضلع کڈپاہ میں ہے۔ میں پروداتور میں ایک سرکاری ہسپتال میں پوسٹ مارٹم اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہی ہوں۔‘

’حادثات میں مرنے والوں، خودکشی کرنے والوں اور قتل ہونے والوں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے لائی جاتی ہیں اور یہاں میرا کام ان لاشوں کو توڑنا اور ان کے اعضا کو نکالنا ہے۔

’میں نے اپنی مکمل رضا مندی سے تو اس کام کو نہیں اپنایا۔ میں گھر چلانے اور روزی روٹی کمانے کے لیے اس شعبے میں آئی ہوں۔ میں نے پرادتھور میں انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ پھر تروپتی میں ایم کام کیا۔ میرے والد ایک چرواہے تھے۔ والدہ گھر پر کام کرتی ہیں۔ اس سے پہلے میں ایک نجی کمپنی میں ڈیٹا انٹری آپریٹر کے طور پر کام کر رہی تھی۔‘

پچھلے سال میری شادی ہوئی تھی۔ میں نے اناٹومی اسسٹنٹ کے لیے بھرتیوں کا نوٹیفکیشن دیکھا اور نوکری کے لیے درخواست دے دی۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ کاغذی کام ہوگا۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں میرا کام لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور انھیں جانچنا ہے۔

اس نوکری کے علاوہ آپ دوسری نوکریوں کو بھی آزما سکتے ہیں۔ لیکن وہ تنخواہ خاندان کی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ چونکہ یہ سرکاری ملازمت ہے اس لیے یہاں تنخواہ زیادہ ہے۔ میں اس کام کو اس امید کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہوں کہ مستقبل میں یہ ملازمت مستقل ہو جائے گی۔‘

BBCبگاتلا ورالوکے مردہ خانے میں پوسٹ مارٹم اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے نے سب کو حیران کر دیاپہلے ہی دن تین لاشیں

اپنی کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہا:

’پہلے پہل مجھے لاشوں سے خوف آتا تھا۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ اگر ہم لاشوں کے قریب جائیں گے تو مردے ’بھوت‘ بن کر ہمیں ستائیں گے۔ لہٰذا کوئی بھی مردہ لاشوں کے قریب جانا پسند نہیں کرتا۔ ایسے میں مجھے نوکری پر پہلے دن تین لاشوں سے نمٹنا پڑا۔ ڈاکٹر کو لاشوں کے ٹکڑے کرتے اور جسم کے اعضا کا معائنہ کرتے دیکھا گیا۔‘

’تب تک میں اناٹومی کرنا نہیں جانتی تھی۔ پہلا دن بہت خوفناک تھا۔ جس ڈاکٹر نے مجھے سکھایا اس نے کہا کہ آپ کو بھی ایسا ہی کرنا ہے‘۔

’ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کو یہی کام کرنے کے لیے رکھا گیا ہے۔ تب سے میں نے خوف کو چھوڑ دیا ہے۔ میں نے اسے ایک پیشہ سمجھا اور اسے نوکری کے طور پر کرنا شروع کر دیا۔‘

’میں نے ایک لاش کے ٹکڑے کیے اور اعضا نکالے۔ مجھے اس دن اور رات وہ یاد آتی رہی۔ لاشوں کے سر توڑنا اور جسم کے اعضا نکالنا خواب میں بھی خوفزدہ تھا۔ ایسے خواب عام ہیں۔ میں پہلے اس عمل سے گزرنے سے ڈرتی تھی لیکن بعد میں اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ عادت بن گئی۔‘

زندگی سے بیزاریBBCورالو نے ثابت کیا کہ مرد مردہ خانے میں خواتین بھی کام کر سکتی ہیں

اپنے کام کے تجربے کے بارے میں ہم سے بات کرتے ہوئے ورالو نے کہا کہ مردہ خانے میں کام کرنا آسان کام نہیں ہے۔

’یہ کام مجھے آتا تو ہے لیکن یہ ہرگز آسان نہیں کبھی کبھی تو زندگی سے ہی نفرت ہو جاتی ہے۔ کچھ لاشیں دیکھ کر جُھرجُھری آجاتی ہیں۔ کئی لاشیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو بوسیدہ اور گلی سڑی ہوتی ہیں جس سے پورا کمرہ بدبودار ہو جاتا ہے۔‘

’یہ کس چیز کا صلہ ہے؟ پوری زندگی ایسے کیسے کیوں نہیں گزاری جا سکتی جیسے ایک بچے کی ہوتی ہے۔ مرنے والے تو اب جا چکے اور اب ان کا شمار ہم میں نہیں۔ ایسے ہی بہت سے سوالات میرے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔‘

وارالو اس بات پر فکر مند ہیں کہ بہت سے لوگ بدقسمتی سے معمولی وجوہات کی بنا پر بھی خودکشی کر لیتے ہیں جب کہ ان کے مطابق ان خودکشیوں کو روکا جا سکتا تھا۔

ان کے مطابق لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر زہر پی لیتے ہیں، خود کو پھندے سے لٹکا لیتے ہیں یہاں تک کہ ٹرین کے نیچے لیٹ جاتے ہیں۔

’موبائل فون کا نہ ملنا، والدین کا تفریح کے لیے اجازت نہ دینا، ایک موٹر سائیکل خریدنے کی قوت نہ رکھنا۔ اور اس چھوٹی سی بات پر ان کے جسم گل سڑ رہے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی کیا جان لینے کا سبب بن جاتی ہیں؟‘

’ایسا لگتا ہے کہ اگر میں ان کے مرنے سے پہلے ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کرتی تو وہ اس قدر المناک طور پر اپنی جان نہ گنواتے۔‘

’ایسی حالت میں لاش کو مت چھونا‘BBCوارلو اس وقت حمل کے باعث چھٹیوں پر ہیں

وارلو اس وقت حمل کے باعث چھٹیوں پر ہیں۔ انھوں نے لوگوں کے رویے سے متعلق انھوں نے جواب میں بتایا۔

’بہت سے لوگ مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کو ایسی ماسٹر ڈگری کے ساتھ اس نوکری کی ضرورت ہے؟ کچھ لوگ مجھے حاملہ دیکھ کر باتیں کرتے ہیں کہ یہ عورت اس حالت میں لاشوں کے قریب کام کرتی ہے۔ تو کچھ کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں لاش کو مت چھونا۔‘

’کچھ لوگ لاشوں کے ٹکڑے کرنے پر مجھے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر بھی تو ایسا ہی کام کرتا ہے اگر میں ایسے کروں تو کیا حرج ہے؟‘

’پہلے تو میں ایسے الفاظ سن کر ناراض ہو جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ عادت پڑ گئی۔ میں اپنا کام کرتی ہوں۔ میں کیوں پروا کروں کہ وہ کیا سوچتے ہیں؟‘

پہلے پہل مجھے لاشوں سے ڈر لگا اور میں گھر میں اکیلے سونے سے ڈرتی تھی۔ مگر اب میں سیدھا لاش کے بہت قریب جاتی ہوں۔ لاشیں انسانوں سے بہتر لگتی ہیں۔ درحقیقت وہ ہمارا کوئی بھلا نہیں کرتے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین کو پوسٹ مارٹم کے لیے لاشوں کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ لیکن یہ میرا کام ہے۔ میں ایسا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔

BBC’ہر ماہ 25 لاشیں آتی ہیں‘

وارلو کےمطابق ان کا یہ کام چیلنجز سے بھرپور ہے۔

’بعض لاشوں کو ان کے لواحقین چھوتے تک نہیں۔ وہ قریب جا کر دیکھتے ہیں اور دور ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لوگ ان لاشوں کو دیکھ کر نفرت محسوس کرتے ہیں۔ لیکن یہاں آپ کو ہم میں اور ان لاشوں کو سنبھالنے والے دوسرے لوگوں میں فرق کا احساس ہونا چاہیے۔‘

’ہر ماہ تقریباً 25 لاشیں اس مردہ خانے میں پہنچتی ہیں جہاں میں کام کرتی ہوں۔ دو ملازمین صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کام کرتے ہیں۔‘

مشکل کام کے پیچھے شوہر اور ساس کی حمایت BBC

وارالو کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ کام کرنے میں ان کو اپنے شوہر بلیا اور ساس کی حمایت حاصل ہے۔

’میں نے انھیں کہا تھا کہ کسی کی پرواہ نہ کرو۔ ڈاکٹرز مریضوں کا آپریشن اس وقت کرتے ہیں جبکہ وہ زندہ ہوتے ہیں۔ وہ مرنے والوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ پہلے تو میں بھی ڈر گیا لیکن اب نہیں. مجھے اب ایسا کوئی احساس یا خوف نہیں ہے۔‘

ان کے شوہر نے مزید کہا ’میں نے ایم بی اے کیا ہے۔ میں کام کی قدر جانتا ہوں اور ایسے ہی خواتین اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے محنت کرتی ہیں۔‘

BBC’پہلے ہم شک میں تھے‘

وارالو نے جب یہ کام شروع کیا تو اس وقت آغاز میں ڈاکٹروں کو بھی شک تھا کہ یہ نوجوان لڑکی کیسے یہ کام کر سکتی ہے اور اب وہ بھی حیران ہیں کہ وارالو اپنا کام کس قدر مؤثر طریقے سے کرتی ہیں۔

ڈسٹرکٹ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ آنند بابو نے ورالو کے انتہائی بہادری سے کام کی تعریف کی۔

’وارالو اب ان دنوں چھٹی پر ہیں۔ وہ ڈیڑھ سال سے یہ کام کر رہی ہیں۔ پہلے تو ہمیں شک تھا کہ وہ اس کام کو کیسے جاری رکھ سکیں گی۔ شروع میں انودپ نامی ماہر فرانسک نے ورالو کو اچھی تربیت دی۔ ورالو خود لاشوں کو کاٹتی ہیں اور اس میں سے اعضا نکالتی ہیں۔‘

’وہ بے خوفی اور ہمت سے کام کرتی ہیں۔عام طور پر خواتین پوسٹ مارٹم کے کام میں معاونت نہیں کرتیں۔ یہاں صرف مرد آتے ہیں جن میں سے بہت سوں کو الکحل (شراب) پی کر کام کرنا پڑتا ہے۔‘

آنند بابو نے مزید کہا،

’لیکن ورالو بڑی بہادری سے بوسیدہ جسم کو کاٹ کر اعضا نکالتی ہیں۔ عورت یہ کام کر سکتی ہے۔ وہ یہ کام بہت اچھے طریقے سے کر رہی ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More