BBC
انٹرنیٹ پر آپ کو ایسی بہت سی ویڈیوز مل جائے گی جن میں کوئی اپنے بچوں کو ٹھنڈے پانی میں تیراکی کے طریقے سکھا رہا ہے تو کہیں خواتین کا ایک گروپ شدید سردی یعنی صفر کے درجہ حرارت قریب سمندر کے پانی میں تیراکی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔
ایسے ہی ایک ویڈیو میں ایک لڑکی یہ بتاتی ہے کہ کس طرح انھوں نے ’سنو مین وم ہاف‘ سے متاثر ہو کر برفیلے پانی میں غوطہ لگانا سیکھا اور اس چیز نے ان کی زندگی کس طرح بدل کر رکھ دی۔
سردیوں کے اس موسم میں جب ٹھنڈے پانی میں غسل کا خیال بھی رونگٹے کھڑا کر دیتا ہے تو آخر وہ کون لوگ ہیں جو برفیلے پانی میں منٹوں نہیں بلکہ گھنٹوں تیرنے کی ہمت دکھاتے ہیں؟
کیا انھوں نے اپنے جسم پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے یا وہ مافوق الفطرت انسان ہیں؟ بی بی سی کی نامہ نگار انیا ڈوروڈیکو نے اسی قسم کے کچھ سوالات جاننے کے لیے ڈاکٹر ہیتھر میسی کے تحقیقی مرکز کا دورہ کیا۔
برطانیہ کے جنوبی ساحل پر واقع پورٹسماؤتھ کے ایک خصوصی تحقیقی مرکز ایکسٹریم انوائرنمنٹ لیبارٹری کی محقق ڈاکٹر ہیتھر میسی خواتین کے ایک گروپ کا حصہ تھیں جنھیں انیا نے برطانیہ کے ساحل پر ٹھنڈے پانی میں تیراکی کرتے ہوئے پایا۔ خواتین کا یہ گروپ اس وقت ٹھنڈے پانی میں تیراکی کر رہا تھا جب درجہ حرارت 10 ڈگری سے کم تھا۔
BBCکولڈ واٹر سوئمنگ یعنی ٹھنڈے پانی کی تیراکی
ٹھنڈے یا برفیلے پانی کے رابطے میں آنے پر جسمانی اور ذہنی اثرات کیا ہوتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ہیتھر میسی نے بی بی سی کی نامہ نگار کو بتایا کہ ’سب سے پہلے جلد میں سردی محسوس ہوتی ہے۔ اسے کولڈ شاک کہا جا سکتا ہے۔ یہ سرد جھٹکا آپ کے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر کو بڑھاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایڈرینالین اور نورائڈرینالین جیسے سٹریس ہارمونز پیدا ہوتے ہیں۔‘
جسم میں ان دونوں ہارمونز کی سطح بڑھنے سے کچھ مختلف قسم کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر میسی کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا ردعمل یہ ہے کہ ٹھنڈے پانی کی سوئمنگ انھیں خوشگوار احساس دیتی ہے اور ان کا موڈ بھی بہتر ہو جاتا ہے۔
ان کے مطابق کچھ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے مائیگرین، بی پی اور یہاں تک کہ مینوپوز کے دوران موڈ میں تبدیلی جیسے مسائل کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ویسے اگر ہم برصغیر ہندو پاک کی بات کریں تو یہاں کا موسم برطانیہ اور یورپ کی طرح سال بھر سرد نہیں رہتا اور نہ ہی ٹھنڈے پانی میں تیرنے کا رواج ہے۔
BBCہر طرح کے موسم میں تیراکی
لیکن برطانیہ میں جہاں پچھلے کچھ سالوں میں لوگوں میں ٹھنڈے پانی میں تیراکی کا شوق بڑھ گیا ہے، وہیں انڈیا اور پاکستان میں ہر موسم کے سوئمنگ پولز کا رجحان بڑھ گیا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ لوگ سردیوں کے موسم میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تیراکی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
برصغیر میں عام طور پر پانی کا درجہ حرارت ہر موسم میں تیراکی کے لیے 25-26 ڈگری سیلسیس کے ارد گرد رکھا جاتا ہے۔
لیکن کیا یہاں کی آب و ہوا کو دیکھتے ہوئے سردیوں میں تیراکی کرنا محفوظ ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فورٹس ہسپتال کے انٹرنل میڈیسن کی ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر پرمیلا رامنس بیٹھا نے بی بی سی کے نامہ نگار آر دویدی کو بتایا کہ اگر کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو اس کے بہت سے فائدے ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر پرمیلا کہتی ہیں کہ ٹھنڈے پانی میں تیراکی قوت مدافعت بڑھانے، تناؤ کم کرنے، کیلوریز جلانے اور دوران خون کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہے۔
ڈاکٹر میسی کا یہاں تک کہنا ہے کہ ڈپریشن اور تناؤ کو دور کرنے کے علاوہ یہ ڈیمنشیا کے علاج میں بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے توجہ کو مرکوز کرنے میں مدد ملتی ہے اور لوگ اپنے کام پر بہتر توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کیا ٹھنڈے پانی میں تیراکی سے ذہنی مرض ڈیمنشیا کا علاج ممکن ہے؟
کیا ٹھنڈے پانی سے نہانا آپ کے جسم و دماغ کو بدل دیتا ہے؟
Getty Imagesچانگ چونک میں برفیلے پانی میں غسلعلاج کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر ہیتھر میسی کہتی ہیں ’اگرچہ ٹھنڈے پانی کی تیراکی کے بعد لوگوں کے تجربات عام طور پر بہتر ہوتے ہیں، لیکن اسے علاج کے طور پر اس وقت تک استعمال نہیں کیا جانا چاہیے جب تک کہ سخت طبی آزمائشوں کے دوران اس کے فوائد اور نقصانات کا صحیح طور پر تعین نہ کر لیا جائے۔ اس وقت تک اس کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔‘
ہیتھر میسی اور ان کے ساتھی یہ جاننے کے لیے اپنی تحقیق میں مصروف ہیں کہ آیا اسے بطور علاج استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وہ اس میں مضمر خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ٹھنڈے پانی کے اچانک استعمال سے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو بعض طبی حالات میں مبتلا لوگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر پرمیلا رامنس بھی ٹھنڈے پانی میں نہانے یا تیرنے سے پہلے احتیاط کرنے کی سفارش کرتی ہیں۔
لاپرواہی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔
انڈیا کی بات کریں تو شمال مشرقی ریاست کے معروف شہر شیلانگ میں واقع ایک کلب میں پچھلے 25 سالوں سے نئے سال کے موقع پر ہر سال 31 دسمبر کو برف کے پانی کے تالاب میں تیراکی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اس دوران تالاب میں ٹنوں برف ڈالی جاتی ہے اور لوگ اس میں تیراکی کے سنسنی خیز تجربے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
کیا اس کا جسم پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا؟ اس پر ڈاکٹر پرمیلا کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی احتیاط اور ماہرین کی نگرانی میں کیا جانا چاہیے۔
Getty Imagesجنوری 2008 میں وِم ہوف نے اپنی گردن تک برف کے کیوبز سے بھرے ایک بڑے جار میں 71 منٹ تک رہ کر ایک ریکارڈ قائم کیادماغ پر قابو پانے کا فن
اگر ہم برفیلے پانی میں غوطہ لگانے کی بات کریں تو یہ ڈچ اکسٹریم ویدر ایتھلیٹ وِم ہوف کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی۔
اس کے تحت شارٹس میں ماؤنٹ کلمانجارو پر چڑھنا، آرکٹک سرکل میں ننگے پاؤں ہاف میراتھن دوڑنا، برف سے بھرے کنٹینر میں 112 منٹ سے زیادہ کھڑے رہنے جیسے ریکارڈز کی وجہ سے وم ہوف کو آئس مین کا خطاب دیا گیا ہے۔
وم موسم کے ایسے شدید تجربات کو خوش کن، صحت مند اور مضبوط بننے کے منتر کے طور پر بیان کرتے ہیں اور دنیا بھر کے لوگوں کو اس کے ذریعے غیر معمولی مقاصد حاصل کرنا سکھاتے ہیں۔
ان کے خیال میں یہ جسم اور دماغ کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کا ایک غیر معمولی فن ہے جو آپ سے ہر قسم کے خوف کو دور کر دیتا ہے۔
انٹارکٹیکا میں صرف 1 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے ساتھ پانی میں تیرنے کا ریکارڈ بنانے والی بھکتی شرما کو انڈیا کی آئس وومن کہا جاتا ہے۔
وہ ایک موٹیویشنل سپیکر ہیں اور ٹی ای ڈی ٹاک ویڈیو میں انھیں یہ بتاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ برفیلے پانی نے اس مقصد کو حاصل کرنے میں کس طرح ان کی مدد کی کہ آپ واقعی خوف پر فتح پا سکتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ برف کا پانی یا ٹھنڈے پانی میں تیراکی آپ کے دماغ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے، تناؤ پر قابو پانے اور اچھی صحت رکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ لیکن جیسا کہ ماہرین کہتے ہیں کہ اسے اپناتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بہت ضروری ہیں۔