بلوچ یکجہتی مارچ میں آٹھ ماہ کی بچی اور 85 سالہ بزرگ بھی موجود:’لاپتہ افراد کے معاملے میں وزیراعظم سے امید لگانا بے وقوفی ہو گی‘

بی بی سی اردو  |  Dec 23, 2023

BBC

’میں 14 سال سے اپنے بیٹے ذاکر کی منتظر ہوں۔ ذاکر کی انگوٹھی رکھی ہے، اس کی منگنی کے لیے میں نے لڑکی ڈھونڈی، اس کی شادی کا سامان جمع کیا۔ جس کمرے میں اس کا سامان رکھا ہے وہاں میں نہیں جاتی، میرا دل روتا ہے۔ ہمارا گھر برباد ہو گیا۔‘

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے ادھیڑ عمر راج بی بی اپنے بیٹے کی جدائی کے دکھ کو جب ہم سے بیان کر رہی تھیں تو ان کے الفاظ میں کرب صاف نمایاں تھا۔

بلوچستان کے علاقے مستونگ کی راج بی بی کا 14 سال پہلے جوان بیٹا لاپتہ ہوا جس کا آج تک سراغ نہیں ملا اور اس وقت وہ بلوچ یکجہتی مارچ کے ساتھ بلوچستان سے آنے والی ان 100 سے زائد خواتین میں شامل ہیں جن کے دل اپنے پیاروں کی جدائی کے غم میں نڈھال ہیں۔

اسلام آباد پریس کلب کے باہر جب میں بلوچ یکجہتی مارچپر رپورٹنگ کے لیے پہنچی تو وہاں موجود بزرگ خواتین سے لے کر نوجوان لڑکیاں سب اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے بے چین لیکن پر عزم نظر آئیں۔

راج بی بی بی نے جب اپنے بیٹے کا ذکر کیا تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ آٹھ جون 2009 کو ان کے بیٹے ذاکر مجید کو مستونگ سے اٹھایا گیا تھا تو اس وقت ان کی منگنی کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔

’14 سال۔۔۔ یہ ایک گھنٹہ، ایک دن یا ایک ہفتہ نہیں بلکہ طویل عرصہ ہے۔ وہ طالب علم تھا۔ میں اپنے بیٹے کا بہت انتظار کرتی ہوں۔ دعا کرتی ہوں کہ اللہ اس کے ساتھ کچھبرا نہ ہونے دے۔‘

’میں بہت بیمار ہوں، مجھے نیند نہیں آتی۔ میں سونے کے لیے دوا لیتی ہوں لیکن پھر بھی سو نہیں پاتی۔ ہم نے ذاکر کے لیے ہر جگہ ٹھوکریں کھائیں۔ ہم کمیشن گئے، عدالت گئے مگر 14 سال سے اس کا اتہ پتہ نہیں۔ میں ذاکر کے لیے اسلام آباد آئی ہوں۔‘

یاد رہے کہ بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا چھ دسمبر کو بلوچستان کے شہر تربت سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ مارچ بدھ کی شام اسلام آباد پہنچا تھا۔

BBC’پولیس بے رحمی اور بے دردی سے گاڑیوں میں ڈال رہی تھی‘

تربت سے اسلام آباد تک اس مارچ کے سرگرم رہنماؤں میں ماہ رنگ بلوچ، سمی بلوچ اور گلزاردوست شامل ہیں۔

سمی دین بلوچ گزشتہ 14 سال سے اپنے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کر رہی ہیں اور اب ایک بار وہ پھر اسلاممیں بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا کے درمیان احتجاج میں موجود ہیں۔

’یہ پہلی بار نہیں کہ ہم نے اسلام آباد کا رخ کیا ہو۔ نہ ہی یہ پہلی بار ہوا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ کا رویہ غلط ہو۔ پہلے بھی ہمیں کئی بار مارا گیا، تشدد کیا گیا اور لاٹھی چارج ہوا۔‘

واضح رہے کہ بدھ کی رات جب بلوچ یکجہتی مارچ اسلام آباد پہنچا تھا تو ان پر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے کریک ڈاون کیا گیا اور لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔

سمی بلوچ کے مطابق ’جس وقت وہاں حملہ ہوا میں وہاں نہیں تھی۔ رات کو ہماری 50 کے قریب خواتین تھیں جن میں 80 سال کی ماؤں سے لے کر دو سال کی بچیاں ہیں، انھیں پولیس تشدد کر کے لے گئی۔ انھیں مارا گیا، گھسیٹا گیا اور حوالات میں بند کیا گیا۔‘

’صبح پانچ بجے مذاکرات ہوئے، جس کے بعد ہماری خواتین کو چھوڑا گیا۔‘

سمی بلوچ نے بتایا کہ ’جس وقت یہ خواتین کو بسوں میں زبردستی ڈال رہے تھے اس وقت میں وہاں موجود تھی۔

’وہ بال کھینچ رہے تھے۔ مائیں پریشانی کے عالم میں تھیں۔ بچیوں کی آنکھیں خوف سے پھٹ رہی تھیں۔ پولیس بے رحمی اور بے دردی سے گاڑیوں میں ڈال رہی تھی۔ کچھ ساتھی بے ہوش ہوئیں اور کچھ زخمی ہوئیں۔‘

دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا پر کسی قسم کے تشدد کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے انھیں گمراہ کن قرار دیا ہے۔

اپنے بیان میں پولیس ترجمان نے کہا کہ ’21 اور 22 دسمبر کو بلوچ یکجہتی مارچ کے دوران خواتین یا بچوں کے ساتھ کسی بھی سطح پر کسی بھی قسم کا ناروا سلوک نہیں کیا گیا۔ ان میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔‘

’وزیر اعظم سے امید لگانا بے وقوفی ہو گی‘

سمی بلوچ نے بتایا کہ ’ہم اس امید کے ساتھ آئے تھے کہ یہاں اسمبلیاں اور عدالتیں ہیں۔ شاید بلوچستان میں ہماری بات نہیں سنی جاتی لیکن اسلام آباد نے ہمیں یہ باور کروایا کہ آپ غلط جگہ آ گئے ہیں اور یہاں ہماری شنوائی نہیں ہو گی۔ ریاست نے احساس دلایا کہ آپ جو انصاف کی امید لے کر یہاں آئے ہیں وہ آپ کو نہیں ملے گا۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’ہمارے ساتھی بازار سے کھانا لینے جاتے ہیں تو ان سے پوچھ گچھ ہوتی ہے، انھیں تنگ کیا جاتا ہے۔ یہ سب مشکل ہے لیکن یہ تکلیفیں اس سے چھوٹی ہیں جس سے ہم اپنے گھروں میں گزر رہے ہیں۔ 24 گھنٹے میں ہم کئی بار مرتے ہیں۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ ان کو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے کیا امید ہے تو جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت کے وزیر اعظم جس طرح لاپتہ افراد کے معاملے کو دیکھتے ہیں تو امید لگانا بے وقوفی ہو گی۔‘

’ہماری واحد امید اس ملک کی عدالت ہے۔ گو عدالتوں نے بھی بار بار ہماری امیدوں کو توڑا ہے۔‘

BBCہائی سکیورٹی زون کی طرف ریلی یا اجتماع کی اجازت نہیں: پولیس

بلوچ یکجہتی مارچ کی سرگرم رہنما ماہ رنگ بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس مارچ میں ڈیڑھ سو کے قریب خاندان ہیں۔

’یہاں سب سے چھوٹی بچی آٹھ ماہ کی ہے جو اپنی دادی کے ہمراہ سفر کر رہی ہے جبکہ سب سے معمر شخص 85 سالہ بزرگ ہیں۔ بچہ بچہ ہمارے ساتھ ہے کہ ہمارے لاپتہ لوگ ہمیں واپس کریں۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس وقت خواتین اور بچے سردی کے باوجود بھی پرعزم ہیں۔

’سردی ہے مگر ہمارے پاس گرم کپڑے نہیں۔ کچھ ایسی عورتیں ہیں جو چل بھی نہیں سکتیں لیکن ہمارا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ جو غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے اس کے ٹراما کو محسوس کرنا آسان نہیں۔‘

’کل ہم نے آعلان کیا تھا کہ آج ہم پر امن واک کریں گے تاہم ہمیں اجازت نہیں دی گئی اور تعاون نہیں کیا گیا۔‘

بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا کے اسلام آباد پریس کلب کے باہر دھرنے اور احتجاج کے موقع پر اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری بھی وہاں موجود ہے جن میں خواتین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

اسلام آباد پریس کلب کے باہر لگے کیمپ کے اطراف میں پولیس کی جانب سے خاردار تاریں لگا دی گئیں ہیں اور پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات احتجاج کرنے والوں کی سکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے گئے ہیں۔

انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ’اگر اس احتجاج میں شامل خواتین اور مظاہرین نے پریس کلب سے آگے جانے کی کوشش کی تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔‘

سنیچر کی دوپہر مارچ کے شرکا نے جب ’پیس واک‘ کرنے کا ادارہ کیا تو اسلام آباد پولیس کی جانب سے انھیں روک دیا گیا۔ جس کے بعد مظاہرین دوبارہ پریس کلب کے سامنے آ بیٹھے۔

پولیس ترجمان کے بیان کے مطابق ’نیشنل پریس کلب کے باہر گراؤنڈ میں 200 افراد موجود ہیں۔ نیشنل پریس کلب کے باہر قواعد و ضوابط کے مطابق پر امن احتجاج کی اجازت ہے اور ہائی سکیورٹی زون کی طرف ریلی یا اجتماع کی اجازت نہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More