انڈیا کی مقبول شاعروں میں سے ایک امریتا پریتم نے ایک بار لکھا تھا کہ ’میں نے اپنی ساری زندگی جو کچھ بھی سوچا اور لکھا وہ دیوتاؤں کو جگانے کی کوشش تھی، وہ دیوتا جو انسان کے اندر سوئے ہوئے ہیں۔‘
امریتا اور امروز کے تعلقات آہستہ آہستہ شروع ہوئے۔ امریتا نے سیٹھی نامی پینٹر سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنی کتاب ’آخری خط‘ کا سرورق ڈیزائن کریں۔ سیٹھی نے کہا کہ وہ ایک ایسے شخص کو جانتے ہیں جو ان سے بہتر یہ کام کر سکتا ہے۔
سیٹھی کے کہنے پر امریتا نے امروز کو اپنے پاس بلایا۔ اس وقت وہ اردو میگزین شمع میں کام کرتے تھے۔ امروز نے ان کی فرمائش پر اس کتاب کا ڈیزائن تیار کیا جائے۔
امروز یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انھیں ڈیزائن کے ساتھ ساتھ آرٹسٹ بھی پسند آیا۔ اس کے بعد ہم ایک دوسرے سے ملنے لگے۔ ہم دونوں قریب ہی رہتے تھے۔ میں ساؤتھ پٹیل نگر میں تھا اور وہ ویسٹ پٹیل نگر میں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک بار میں اتفاق سے ان سے ملنے گیا، بات چیت کے دوران میں نے انھیں بتایا کہ میں آج ہی کے دن پیدا ہوا ہوں، گاؤں میں لوگ پیدا ہوتے تو ہیں لیکن ان کی سالگرہ نہیں منائی جاتی۔ وہ ایک منٹ کے لیے اٹھی، باہر گئیں اور پھر واپس آگئیں اور سامنے بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک نوکر پلیٹ میں کیک لے کر باہر نکلا، اس نے کیک کاٹا اور ایک ٹکڑا مجھے دیا اور اپنے لیے بھی کاٹ لیا، کیک کھانے کے بعد نہ امریتا نے سالگرہ کی مبارک باد دی اور نہ میں نے اُس کا شُکریہ ادا کیا۔ بس ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس بات کا احساس ضرور ہوا کہ ہم دونوں ہی خوش ہیں۔‘
والد کا تھپڑ
یہ تو صرف شروعات تھی لیکن اس سے برسوں پہلے امریتا کے ذہن میں اپنے محبوب کا ایک عکس تھا اور انھوں نے اس کا نام بھی ’راجن‘ رکھا ہوا تھا۔ امریتا نے اس نام کو اپنی زندگی کی پہلی نظم کا موضوع بھی بنایا۔
ایک بار بی بی سی سے بات کرتے ہوئے امریتا نے کہا تھا کہ جب وہ سکول میں پڑھتی تھیں تو انھوں نے ایک نظم لکھی تھی۔ انھوں نے اُس نظم کو یہ سوچ کر اپنی جیب میں ڈال لیا تھا کہ جب وہ سکول جائیں گی تو اسے اپنے دوست کو دکھائیں گی۔
امریتا اپنے والد کے پاس کچھ پیسے مانگنے کے لیے گئیں۔ ان کے والد نے پیسے امریتا کے ہاتھ میں تھمانے کی بجائے اُن کی جیب میں ڈالے، یہ وہی جیب تھی کہ جس میں امریتا نے اپنے لکھی ہوئی وہ نظم رکھی ہوئی تھی کہ جس میں ’راجن‘ کا ذکر بھی تھا۔
اب ہوا یہ کہ امریتا کے والد نے اُن کی جیب میں پیسے رکھتے ہوئے اُس کاغذ کے ٹکڑے کو محسوس کر لیا اور اسے باہر نکال لیا۔ اُسے پڑھنے کے بعد امریتا کے والد نے اُن سے پوچھا کہ کیا یہ نظم انھوں نے لکھی ہے؟
امریتا نے جھوٹ بولا کہ یہ نظم ان کی دوست نے لکھی ہے۔ امریتا کے والد نے اُن کی بات پر یقین نہیں کیا اوراسے ایک مرتبہ پھر پڑھا اور وہ یہ جان گئے کہ یہ نظم امریتا نے ہی لکھی ہے۔ جس پر اُنھوں نے امریتا سے ایک اور سوال کیا کہ یہ راجن کون ہے؟
امریتا نے بوکھلا کر جواب دیا کہ کوئی نہیں لیکن انھیں یقین نہیں آیا۔ والد نے امریتا کو ایک زور دار تھپڑ مارا اور وہ کاغذ کا ٹُکڑا جس پر راجن کے لیے نظم لکھ رکھی تھی، اُسے پھاڑ دیا۔
امریتا کہتی ہیں کہ ’جو میری پہلی نظم کے ساتھ ہوا یہ اُس کا نصیب تھا۔ میں نے تو جھوٹ بولا تھا اور اپنی نظم کسی اور کے لیے وقف کرنے کی کوشش کی لیکن سب اس کے برعکس ہوا لیکن اُس ایک نظم نے میری زندگی بدل دی۔‘
مختلف کمرے
دنیا میں عشق کرنے والے ہر فرد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی محبت کا اظہار کرے لیکن امریتا اور امروز اس سب سے شاید بہت دور اور منفرد تھے، انھوں نے کبھی بھی ایک دوسرے پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا اور نہ ہی اس بات کا اظہار کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
امروز بتاتے ہیں کہ ’جب محبت ہے تو پھر بولنے کی کیا ضرورت ہے؟ فلموں میں بھی آپ ان کے کھڑے اور بیٹھنے کے انداز سے بتا سکتے ہیں کہ ہیرو اور ہیروئن ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ بار بار اپنی محبت کا ایک دوسرے سے اظہار کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ سچی محبت کرتے ہیں، گویا کبھی کبھی محبت جھوٹی ہوتی ہے۔‘
امروز نے بتایا کہ ’روایتی طور پر یہی ہوتا ہے کہ مرد اور عورت ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں۔ ہم پہلے دن سے ایک ہی چھت کے نیچے رہے مگر الگ الگ کمروں میں۔ وہ رات کو تب لکھا کرتی تھیں کہ جب کوئی آواز نہ ہو، کوئی ٹیلی فون نہ بجے اور کوئی آنے یا جانے والا نہ ہو۔‘
امروز نے کہا ’اسے لکھتے ہوئے چائے کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ خود بھی اٹھ کر چائے بنانے نہیں جا سکتی تھی۔ تو میں نے رات ایک بجے اٹھنا شروع کیا۔ میں چائے بنا کر خاموشی سے اس کے سامنے رکھ دیتا۔ وہ لکھنے میں اس قدر مگن ہوتی کہ میری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی تھی۔‘
اوما ترلوک امروز اور امریتا دونوں کی قریبی دوست رہی ہیں اور ان پر ایک کتاب ’امریتا اور امروز، ایک محبت کی کہانی‘ بھی لکھی۔
اوما کہتی ہیں کہ ’امریتا اور امروز کے درمیان محبت کا رشتہ رہا لیکن اس میں بہت آزادی تھی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک ہی گھر میں الگ الگ کمروں میں رہتے تھے اور جب بھی اس کا ذکر ہوتا تو امروز کہتے کہ وہ ایک دوسرے کی خوشبو سے ہی لطف اندوز ہوتے تھے یعنی وہ یہ جانتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ میں نے ایسا جوڑا شاذ و نادر ہی دیکھا۔‘
امروز کو دیکھ کر بخار اتر گیا
1958 میں جب امروز کو ممبئی میں ملازمت ملی تو امریتا کو یہ بالکل پسند نہیں آیا۔ انھیں لگا کہ ساحر لدھیانوی کی طرح امروز بھی ان سے الگ ہو جائیں گے۔
امروز نے بتایا کہ ’گرو دت انھیں اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ تنخواہ کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ اچانک ایک دن تقرری کا لیٹر آگیا اور انھوں نے جتنی رقم چاہی ادا کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔
میں بہت خوش تھا، دہلی میں صرف امریتا ہی تھی جس کے ساتھ میں اپنی خوشیاں بانٹ سکتا تھا۔ وہ مجھے خوش دیکھ کر خوش ہوئی لیکن پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس نے گھوم پھر کر اس بات کا اظہار کیا کہ وہ مجھے یاد کرے گی لیکن کچھ نہیں کہا۔ میرے جانے میں ابھی تین دن باقی تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تین دن ایسے تھے جیسے میری زندگی کے آخری دن ہوں۔
پھر میں ممبئی چلا گیا۔ میرے جاتے ہی امریتا کو بخار ہو گیا۔ میں نے یہیں فیصلہ کر لیا تھا کہ میں وہاں کام نہیں کروں گا۔ اگلے ہی دن میں نے فون کیا کہ میں واپس آ رہا ہوں۔
انھوں نے پوچھا سب ٹھیک ہے؟ میں نے کہا سب ٹھیک ہے لیکن میں اس شہر میں نہیں رہ سکتا۔ میں نے پھر بھی انھیں نہیں بتایا کہ میں ان کے لیے واپس آ رہا ہوں۔ میں نے انھیں اپنی ٹرین اور کوچ کا نمبر بتایا۔ جب میں دہلی پہنچا تو وہ میری کوچ کے باہر کھڑی تھیں اور مجھے دیکھتے ہی ان کا بخار اتر گیا۔
ساحر سے بھی محبت ہے
امریتا کو ساحر لدھیانوی سے بے پناہ محبت تھی۔ اپنی سوانح عمری میں وہ لکھتی ہیں کہ کس طرح ساحر لاہور میں اپنے گھر آ کر ایک کے بعد ایک سگریٹ پیتے تھے۔ ساحر کے جانے کے بعد وہ دوبارہ ان کے سگریٹ سلگانے لگ جاتی۔
اس طرح وہ سگریٹ پینے کی عادی ہو گئیں۔ امریتا ساری زندگی ساحر کو نہیں بھول پائیں اور امروز بھی اس بات سے واقف تھے۔ امریتا اور امروز کی دوست اوما ترلوک کہتی ہیں کہ یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ دونوں اس بارے میں ہمیشہ کافی پر سکون رہے۔
اوما ترلوک بتاتی ہیں کہ ’امریتا کہتی تھیں کہ ساحر آسمان جیسا ہے اور امروز میرے گھر کی چھت! ساحر اور امریتا میں محبت کا عالم ناقابلِ بیان تھا۔‘
’ایک بات امروز نے مجھے بتائی کہ جب ان کے پاس گاڑی نہیں ہوتی تھی تو وہ اکثر امریتا کو سکوٹر پر لے جایا کرتے تھے۔ امریتا کی انگلیاں ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی تھیں، چاہے ان کے ہاتھ میں قلم ہو یا نہ ہو۔ اس نے میرے پیچھے بیٹھے ہوئے کئی بار میری پیٹھ پر ساحر کا نام لکھا، یعنی وہ کیا کہتے ہیں نہ کہ ’دل کہیں دھرکن کہیں‘، اُس سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ ساحر سے کتنی محبت کرتی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر وہ انھیں چاہتی ہیں تو وہ انھیں چاہتی ہیں۔ میں بھی انھیں چاہتا ہوں۔‘
ساتھی اور ڈرائیور بھی
امریتا جہاں بھی جاتیں وہ امروز کو اپنے ساتھ لے جاتیں۔ یہاں تک کہ جب وہ راجیہ سبھا کے لیے نامزد ہوئی تھیں، تب بھی امروز روزانہ ان کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس جاتے اور باہر بیٹھ کر ان کا انتظار کیا کرتے تھے۔
وہ ان کے ساتھی بھی تھے اور ڈرائیور بھی۔ امروز کہتے ہیں کہ ’امریتا بہت مشہور تھیں۔ انھیں اکثر کئی سفارتخانے رات کے کھانے پر مدعو کرتے تھے۔ میں اسے لے جاتا تھا اور واپس بھی لاتا تھا۔ اگر میرا نام کارڈ میں نہ ہوتا تو میں اندر نہیں جاتا تھا۔ میرا کھانا میرے ساتھ جاتا تھا۔ میں گاڑی میں بیٹھ کر موسیقی سنتا اور امریتا کا انتظار کرتا۔‘
امروز نے آخری دم تک امریتا کا ساتھ نہیں چھوڑا
امریتا کے آخری ایام بڑے دکھ اور درد میں گزرے۔ باتھ روم میں گرنے سے ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ اس کے بعد جو درد انھیں محسوس ہوا اس نے اُس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
اوما ترلوک کہتی ہیں کہ ’امروز نے خود کو مکمل طور پر امریتا کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ امروز نے ان دنوں کو امریتا کے لیے خوبصورت بنا دیا تھا۔ امروز نے امریتا کی بیماری کو برداشت کیا، بڑے پیار سے کھلایا، نہلاوایا اور کپڑے پہنائے۔ وہ اب بس صرف سبزیاں ہی کھانے کی عادی ہو چُکی تھی۔ ان کے لیے اپنی پسند کے پھول لاتے۔‘
امریتا نے 31 اکتوبر 2005 کو آخری سانس لی لیکن وہ امروز کے آخری دم تک ان کے بہت قریب رہیں۔
امروز کہا کرتے تھے کہ وہ یہ دُنیا تو چھوڑ کر چلی گئی مگر وہ اب بھی میرے ساتھ ہے۔ اُس کی خوشبو اور اُس کا لمس میں اب بھی محسوس کر سکتا ہوں۔ وہ اب بھی ملتی ہے کبھی ستاروں کے سائے میں، کبھی بادلوں کے سائے میں، کبھی سورج کی کرنوں میں، کبھی خیالوں کی روشنی میں، ہم جیسے اب بھی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ساتھ چلتے ہیں۔‘