Getty Images
ایک روز امریکی ریاست مسوری کے ڈاکٹروں نے ایک ایسی دریافت کی جس سے وہ خود بھی چونک گئے۔
ایک 63 سالہ مریض معمول کے مطابق بڑی آنت کے معائنے کے لیے آیا جس دوران ڈاکٹروں نے ان کی بڑی آنت کے اندر سے ایک زندہ مکھی برآمد کی۔
ڈاکٹروں کو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا کہ یہ مکھی مریض کے منھ، ہاضمے کے انزائمز اور معدے کے تیزاب سے گزرتے ہوئے ایک خطرناک سفر طے کر کے کیسے بڑی آنت تک پہنچی۔
بطور اناٹومی پروفیسر میں نے لوگوں کے جسم میں ایسی کئی عجیب و غریب چیزوں کی کہانیاں سنی ہیں۔ ہم انھیں فارن باڈیز یا آبجیکٹس کہتے ہیں۔
تائیوان میں ایک خاتون کے کان کے اندر سے ایک مکڑی اور اس کا باہری ڈھانچہ ملا تھا۔ مکڑیوں سے خوفزدہ ہونے والے لوگ یہ سن کر شاید بہتر محسوس کریں گے کہ جسم کے اندر مکڑی کی موجودگی بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔
اس کے باوجود برطانیہ کے ایک بدقسمت پوسٹ مین نے ایک مکڑی کو نگل لیا تھا جس کے کاٹنے سے ان کے گلے میں سوجن ہوگئی اور اس وجہ سے ان کا سانس لینا مشکل ہوگیا۔
یہ ظاہر ہے کہ مکڑی کو نگل لینا اس شخص کی اپنی خواہش نہیں تھی۔ تاہم کچھ لوگ جان بوجھ کر بھی ایسی چیزیں منھ میں رکھ کر نگل لیتے ہیں جو ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ یہاں بات ان چھوٹے بچوں کی ہو رہی ہے جو نئی غذائی عادات اپنا رہے ہوتے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ چیزیں ان کی سانس کی نالی میں جاتی ہیں جس سے ہر سال متعدد تین سالہ یا اس سے کم عمر بچوں کی اموات ہوتی ہیں۔
بچے کوئی بھی چیز اٹھا کر منھ، ناک یا کان میں ڈال لیتے ہیں۔ منھ اور ناک میں ڈالی گئی چیزیں سانس کی نالی میں جاتی ہیں جس سے سانس بند ہوتی ہے۔ عام طور پر دم گھٹنے سے یہ چیزیں باہر بھی آ جاتی ہیں۔
بچے عموماً کھلونے، موتی یا مقناطیس نگل لیتے ہیں مگر بعض ایسے کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں جن میں بچوں نے جونک یا سوئی منھ میں ڈال کر نگل لی ہو۔
بچوں کی یہ عادات علاقائی اعتبار سے بھی فرق ہوسکتی ہیں۔ مغربی ممالک میں اکثر بچوں کی سانس کی نالی مونگ پھلی کے دانوں سے متاثر ہوتی ہے جبکہ کئی بچوں کی اموات ہاٹ ڈاگ نگل لینے سے بھی ہوئی ہیں۔
جنوب مشرقی ایشیا اور چین میں نئے قمری سال کے آغاز کے دوران ہڈیاں اور بیج نگلنے سے مسائل ہوتے ہیں۔ جبکہ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور بحیرۂ روم کے ملکوں میں یہ چیزیں بیچ یا گری دار میوے ہوتے ہیں۔
کئی مطالعوں میں معلوم ہوا ہے کہ مردوں میں ایسی چیزیں نگل لینے کی شرح خواتین کے مقابلے زیادہ ہے۔
حادثاتی طور پر چیزوں کو نگل لینا زیادہ خطرے کا باعث بنتا ہے جب آپ کی عمر زیادہ اور پٹھے کمزور ہوجائیں۔ بعض اوقات چیزیں غلط راہ کو چلی جاتی ہیں، مثلاً سانس کی نالی میں خوراک۔ مگر بعض اوقات ایسا دانتوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
کچھ کیسز میں وہ چیزیں جو بچے حادثاتی طور پر نگل لیتے ہیں ان کا کئی دہائیوں بعد پتا چلتا ہے۔ بچپن میں انگلینڈ کے ایک پوسٹ مین کی سانس کی نالی میں غلطی سے ٹریفک کون کا کھلونا چلا گیا تھا جس کے بارے میں انھیں 47 سال بعد پتا چلا جب ان کے پھیپھڑوں کا سکین ہوا، کیونکہ انھیں مسلسل کھانسی کی شکایت تھی۔
اسی طرح 40 سال تک ایک شخص کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی سانس کی نالی میں مٹر کا دانا ہے۔ یہ اس قدر دیر تک وہاں موجود رہا کہ اس نے اُگنا شروع کر دیا۔
منھ یا مقعد کے راستے داخل ہونے والی چیزیں جن سے موت بھی ہوسکتی ہے
سانس لینے کے دوران آکسیجن کے علاوہ دوسری کئی چیزیں جسم میں داخل ہوجاتی ہیں۔ مگر کچھ چیزیں نگل لینے سے بھی جسم کے اندر پہنچ جاتی ہیں۔
اکثر بچوں کو ہنگامی بنیادوں پر ہسپتال لے جایا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے کوئی فارن آبجیکٹ نگل لیا ہوتا ہے، جیسے سکے یا چھوٹے کھلونے۔ ان میں سے بعض چیزیں بغیر نقصان پہنچائے ہاضمے کے نظام سے گزر جاتی ہیں۔
تاہم قریب 20 فیصد کو برآمد کرنے کے لیے اینڈوسکوپ داخل کی جاتی ہے۔ یہ ایک ٹیوب ہے جسے منھ یا مقعد کے راستے داخل کیا جاتا ہے۔ قریب ایک فیصد اشیا کو نکالنے کے لیے سرجری درکار ہوتی ہے۔
مقناطیس کی صورت میں خطرہ بڑھ جاتا ہے، خاص کر جب ان کی تعداد ایک سے زیادہ ہو کیونکہ وہ ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اس سے آنت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
وہ دھات کی چیزیں جنھیں نگل لیا جائے اور وہ جسم میں کسی مقام پر پھنس جائیں وہ خطرے کا باعث بن سکتی ہیں اگر ان میں مقناطیسی صلاحیت ہو۔ یوں اگر کوئی شخص ایم آر آئی سکین کرواتا ہے تو یہ حرکت میں آنے یا گرم ہونے سے نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
جہاں کچھ لوگ منھ کے راستے غلطی سے چیزیں نگل لیتے ہیں وہیں دوسری حصوں سے بھی چیزیں جسم میں داخل ہوسکتی ہیں۔ ان میں اندام نہانی اور مقعد کی نالی شامل ہیں۔
اندام نہانی میں فارن آبجیکٹ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو طبی وجوہات کی بنا پر داخل ہوئے ہیں یا پھر وہ چیزیں ان کی کوئی دوسری وجوہات ہوں۔ ان میں مانع حمل کی اشیا شامل ہوسکتی ہیں جن کے بارے میں مریض بھول گئے ہوں یا ان میں ٹوٹ پھوٹ ہو۔
ان کے طویل مدتی خطرات ہوتے ہیں جن میں انفیکشن، فسچلا (ایک اعضا کو دوسرے اعضا یا جِلد کی سطح سے غیر معمولی رسائی ملنا) اور پتری بننا شامل ہیں۔
مقعد کے راستے سے بھی فارن آبجیکٹ داخل ہوسکتے ہیں۔ اس شکایت کے ساتھ ہسپتال آنے والے 66 سے 85 فیصد مرد ہوتے ہیں۔
اس صورت میں بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ چیزیں قدرتی حرکات اور پاخانے میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ وقت کے ساتھ اس سے مقعد کی نالی میں کھچاؤ بڑھتا ہے اور سوجن ہوسکتی ہے۔
جنسی خواہش سے لے کر قبض میں ریلیف تک، مقعد کی نالی میں کسی چیز کو داخل کرنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان چیزوں میں سیب، بینگن، برش، قلم، گاجر، مچھر مار سپرے کے کنٹینر، ڈیوڈرنٹ (جسے سرجری کے ذریعے نکالنے کے دوران آگ لگنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے)، گلاس، کولڈ ڈرنگ کی بوتل اور بیس بال شامل ہیں۔ سب سے زیادہ حیران کن چیز شاید پورا ناریل ہے۔
مقعد کی نالی کے باہر وہ پٹھے ہوتے ہیں جو پاخانے کو اندر رکھنے اور باہر نکالنے میں مدد کرتے ہیں۔ کسی فارن آبجیکٹ کے داخلے سے ان میں کھچاؤ پیدا ہوتا ہے اور ان میں اتنی قوت نہیں رہتی کہ وہ اُس چیز کو باہر نکال سکیں۔ ڈاکٹروں کو اکثر ان چیزوں کو باہر نکالنے کے لیے باقاعدہ سرجری کرنی پڑتی ہے۔
چاہے حادثاتی طور پر یا انجانے میں، جسم میں داخل ہونے والی ایسی چیزیں موت کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ ان سے آپ کی سانس رُک سکتی ہے یا خون بہنے سے آپ کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
ایسی کسی بھی صورت میں فوری طبی امداد درکار ہوتی ہے۔ مگر شاید آپ کسی مکھی کو منھ میں داخل ہونے سے نہ روک پائیں۔
ایڈم ٹیلر لنکاسٹر یونیورسٹی کے کلینیکل اناٹومی ٹیچنگ سینٹر کے پروفیسر اور ڈائریکٹر ہیں۔ ان کی یہ تحریر دی کنورسیشن پر شائع ہوئی تھی۔