Getty Images’ٹیسٹ کرکٹ وہ واحد فارمیٹ ہے جو امام الحق کے ٹیمپرامنٹ اور سٹائل کا متحمل ہو سکتا ہے‘
پرتھ کے سورج کی تمازت یوں بڑھے جاتی تھی کہ آسٹریلوی بولنگ کی حدت ماند پڑنے کو تھی۔ پیسرز کے قدم تھکاوٹ کو مائل تھے اور پاکستانی اننگز مزاحمت کا استعارہ بننے کو تھی۔
مگر تب اچانک امام الحق کے قدم متحرک ہوئے اور پاکستانی اننگز منجمد سی ہو کر رہ گئی۔
نیتھن لیون کی اس گیند میں کچھ ایسا نہیں تھا کہ مسلسل تین سیشنز تک آہنی اعصاب کا مظاہرہ کرتے امام الحق کی قیمتی وکٹ بٹور پاتی۔ مگر امام خود اپنی مدد سے قاصر ٹھہرے اور گھنٹوں پہ محیط ضبط کا بندھن یکایک ٹوٹ گیا۔
لیون نے وہ گیند اپنی پہلی تین گیندوں سے قدرے کم رفتار پہ پھینکی اور لینتھ بھی کچھ پیچھے کھینچی۔ یہ امام الحق کے لیے دام بچھایا گیا تھا اور وہ بھی کسی صیدِ مطمئن کی مانند اس دام میں کھنچے چلے آئے۔
ٹیسٹ کرکٹ وہ واحد فارمیٹ ہے جو امام الحق کے ٹیمپرامنٹ اور سٹائل کا متحمل ہو سکتا ہے۔ پرتھ میں ان کی ذمہ داری رنز بٹورنے سے زیادہ اپنے کنارے کو باندھے رکھنا تھا تا کہ دوسرے کنارے سے معمول کی کارگزاری ہو سکے۔ مسلسل تین سیشنز تک انھوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔
بیٹنگ کے لیے جو دشواری آسٹریلین کنڈیشنز میں ہے، وہاں سینچری کر جانا کسی بھی ایشیائی بلے باز کے لیے ایک عظیم کامیابی تصور ہوتی ہے۔ امام الحق کے پاس بھرپور موقع تھا کہ وہ نہ صرف انفرادی سنگِ میل عبور کر جاتے بلکہ پاکستانی اننگز کا بھی بھرم بڑھا جاتے۔
جس مدافعانہ سوچ کے تحت پاکستان نے بولنگ کے لیے سازگار ترین کنڈیشنز میں بیٹنگ سے بھاری الیون الیون چنی تھی، وہ حکمتِ عملی بجائے خود الٹی پڑ گئی کہ امام الحق کے سوا کوئی بھی بلے باز ففٹی تک نہ پہنچ پایا۔
حقیقت پسندانہ زاویۂ نگاہ یہی ہے کہ اس پچ پہ ایسی آسٹریلوی بولنگ کے مقابل 300 کے لگ بھگ رنز کر جانا کسی بھی ایشین ٹیم کے لیے بڑی بات ہوتی۔ پاکستان کے حالیہ بیٹنگ وسائل اس قابل تھے کہ مجموعے کو اس ہندسے کے پار بھی پہنچا جاتے، لیکن اگر سکور بورڈ کا دباؤ یوں حاوی نہ ہوتا۔
اور سکور بورڈ کا دباؤ حاوی کرنے میں بنیادی کردار پہلے روز پاکستان کی بے جان بولنگ، ناقص فیلڈنگ اور اوسط وکٹ کیپنگ رہے۔
سرفراز احمد کو محمد رضوان پہ ترجیح صرف ان کی حالیہ بیٹنگ فارم کے سبب دی گئی تھی مگر یہ خیال کسی دانشور کے قریب بھی نہ پھٹک پایا کہ بسا اوقات ایک کیچ یا ایک سٹمپنگ بھی ایک ففٹی کے برابر سود مند ہو سکتی ہے۔
جو مواقع پاکستان نے پہلے دن کی فیلڈنگ میں گنوائے، وہ بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔
بولنگ میں بھی پاکستان کا انتخاب بے مغز سا تھا کہ اس ٹورنگ پارٹی میں صرف محمد وسیم ایسے بولر ہیں جو 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بولنگ کر سکتے ہیں، مگر پرتھ جیسی وکٹ پہ انھیں موقع دینے کی بجائے بینچ کی زینت بنا دیا گیا۔
Getty Imagesپرتھ میں جاری میچ میں اس وقت آسٹریلیا کو پاکستان پر برتری میسر ہے
بہرحال پاکستان کی یہ بیٹنگ اننگز ان خدشات سے بہتر ہی ثابت ہوئی جو میچ سے پہلے منڈلا رہے تھے۔ مگر یہ کاوش پاکستان کو کسی نادر موقع کے قریب بھی پہنچا سکتی تھی اگر ٹیم سلیکشن میں عقل کا دامن چھوٹنے نہ پاتا اور توجہ بیٹنگ سے زیادہ بولنگ وسائل پہ مرکوز رکھی جاتی ہے۔
امید افزا پہلو بہرطور یہ رہا کہ پہلی اننگز کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، دوسری اننگز میں پاکستانی بولنگ نے بہتر ڈسپلن اور بہتر لینتھ کا انتخاب کیا، جس کی بدولت اپنی اننگز کے پہلے گھنٹے میں آسٹریلوی بیٹنگ بالکل دیوار سے لگی نظر آئی۔
مگر فہیم اشرف، کہ جن کا انتخاب پہلے ہی توجیہات اور تشریحات کا متقاضی تھا، نے اپنے پہلے ہی اوور میں اتنے رنز ہدیہ کر دیے جو ایک گھنٹے میں بھی بن نہ پائے تھے اور اس قدر محنت سے جو دباؤ آسٹریلوی بیٹنگ پہ بنا تھا، یکبارگی پاکستانی بولنگ پہ پلٹ آیا۔
اب پاکستان اس میچ میں وہاں پہنچ چکا ہے جہاں سے باہر کا رستہ فقط معجزات کی صورت میں نکل سکتا ہے وگرنہ جو برتری آسٹریلیا کو میسر ہے اور جتنا وقت اس میچ میں باقی ہے، اب ندامت ہی نوشتۂ دیوار نظر آتی ہے۔