اگر یہ کہا جائے کہ ہماری زندگی میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں ہم یہ نہیں جانتے یا کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ وہ سب ہم تک کیسے پہنچیں، یہاں سب کے بارے میں ذکر تو نہیں کیا جا سکتا مگر آج ایک شاید بہت ہی عام سی نظر آنے والی سبزی کی بات کرتے ہیں۔
تو جناب ذکر ہو جائے ’پیاز‘ کا۔
آنکھوں سے آنسو نکال دینے والی اس سبزی کی کاشت تو دُنیا کے بہت سے مُمالک میں ہوتی ہے مگر دُنیا کی کُل پیداروار میں سے پیاز کی 45 فیصد کاشت انڈیا اور چین میں ہوتی ہے۔
تاریخی طور پر پیاز سب سے پہلے کہاں اور کب استعمال ہوا تو اس سے متعلق امریکہ کی ’ییل یونیورسٹی‘ میں موجود قدیم شہر ’بابل کی تاریخ کے مجموعے‘ میں پیاز کے کھانوں میں استعمال سے متعلق شواہد ملتے ہیں۔
سامنے آنے والے ان قدیم اور تاریخی شواہد میں مٹی سے بنی تین چھوٹی تختیاں موجود ہیں جن کی موجودہ دور میں خاصی شہرت ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ سب سے پرانی کھانا پکانے کی کتابیں ہیں۔
پیاز کی کاشت اور تاریخ؟
مٹی کی ان تختیوں یا سلیٹوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تقریباً چار ہزار سال پُرانی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پہلی مرتبہ 1985 میں فرانسیسی آثارِ قدیمہ انھیں پڑھنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
جین بوٹیرو جو ایک سکالر ہیں اور انھیں میسوپوٹیمیا کی ثقافت کے ماہر کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ ’میسوپوٹیما‘ بنیادی طور پر مغربی ایشیا کا وہ قدیم علاقہ تھا جو اب موجودہ عراق میں آتا ہے۔
بوٹیرو نا صرف ایک سکالر ہونے کے ناطے جانے جاتے ہیں بلکہ وہ کھانا پکانے کے بھی شوقین تھے تاہم پیاز کی تاریخکو سب کے سامنے لانے والے بھی ہیں۔
بوٹیرو کے مطابق آثار قدیمہ سے ملنے والی اُن تین سلیٹوں پر کھانے پکانے کی پرانی تراکیب تحریر ہیں جن میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اُس دور میں کھانے پکانے میں جو سب سے زیادہ چیز استعمال ہوا کرتی تھی اور اسے پسند کیا جاتا تھا وہ ’پیاز‘ تھی۔
بوٹیرو کا کہنا ہے کہ ’اس وقت سبزیوں میں سب سے زیادہ پیاز کو پسند کیا جاتا تھا۔‘ اُن کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیاز کو منفرد اور نت نئے انداز اور طریقوں سے کھانوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔
پیاز سے ہماری محبت آج بھی قائم ہے
’میسوپوٹیما‘ کے لوگ اپنے کھانوں میں پیاز، پیاز کے پتے، چھوٹے پیاز یا ہرے پیاز اور لہسن کا استعمال زیادہ کیا کرتے تھے۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ پیاز سے ہماری یہ محبت 4000 سال بعد بھی برقرار ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ آج کے اس جدید دور میں اگر دُنیا بھر میں ایسا باورچی خانہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے جہاں پیاز کا استعمال نا ہوتا ہو تو یہ کام ممکن نظر نہیں آتا ہے۔ دنیا کی شائد ہی کوئی کھانوں کی تراکیب کی کتاب ہو جس میں پیاز کا تذکرہ نہ ملتا ہو۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 175 ممالک میں پیاز کاشت کیے جاتے ہیں جو گندم پیدا کرنے والے ممالک سے تقریبا دوگنا زیادہ ہے۔
پیاز زیادہ تر خاص کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
پیاز کہاں سے آیا؟Getty Images
موائرخ اور ’دی سلکروڈ گورمٹ‘ کی مصنفہ لورا کیلی کا کہنا ہے کہ ’جینیاتی تجزیے کی بنیاد پر ہمارا ماننا ہے کہ پیاز وسطی ایشیا سے آیا تھا۔‘
ایسے میں ’میسوپوٹیما‘ میں اس کے استعمال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پیاز نے اس وقت بھی بہت سفر کیا ہے اور تاریخی طور پر اس کے یورپ میں بھی استعمال کے ثبوت ملتے ہیں۔
کیلی کہتی ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ 2000 سال پہلے شاہراہ ریشم کے قریب کے علاقوں میں پیاز کا استعمال کیا جاتا تھا۔‘ کیلی نے ’میسوپوٹیما‘ کے پکوانوں کا ذائقہ چکھنے کے لیے اپنی ترکیب کے مطابق کچھ پکوان بھی آزمائے۔
پیاز کتنے کھائے جاتے ہیں؟
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق لیبیا میں ہر فرد سالانہ تقریباً 34 کلو پیاز کھاتا ہے۔ کیلی کہتی ہیں کہ ’میری ایک دوست نے مُجھے بتایا کہ لیبیا میں ہر کھانے میں پیاز کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے بنا کھانے کا تصور ہی مُمکن نہیں ہے۔
تاہم مغربی افریقہ کے بہت سے ممالک میں بھی بہت زیادہ پیاز کھایا جاتا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی مُلک ایسے 10 مُمالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے کہ جو پیاز کی کاشت میں بھی اہم مقام رکھتا ہوں۔ کیلی کہتی ہیں کہ ’فرانس میں لوگ یہ ضرور سوچتے ہیں کہ پیاز کا استعمال سب سے زیادہ وہ کرتے ہیں مگر ایک فرانسیسی ہر سال اوسطا 5.6 کلو گرام پیاز کھاتے ہیں۔‘
پیاز میں کتنی غذائیت پائی جاتی ہے؟
ماہر غذائیت ڈاکٹر ارچنا گپتا کے مطابق پیاز کم کیلوری والی غذا ہے جس میں بہت کم چکنائی ہوتی ہیں، لیکن وٹامن سی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ 100 گرام پیاز میں چار ملی گرام سوڈیم، ایک ملی گرام پروٹین، نو سے 10 ملی گرام کاربوہائیڈریٹ اور تین ملی گرام فائبر پایا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر پیاز کھانے کا مشورہ دیتے ہیں، اور اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں اینٹی آکسیڈنٹس بھی خاصی تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔