سٹیل کے ٹرے میں تیار کی گئی پرتھ کی پِچ جس کا ’پیس اور باؤنس‘ پاکستانی بلے بازوں کو بےبس کر سکتا ہے

بی بی سی اردو  |  Dec 13, 2023

’پچ پر10 ملی میٹر گھاس چھوڑ دی گئی۔۔۔‘ ’ہارڈ، فاسٹ اور باؤنسی پچ۔۔۔‘ ’اس میں سے پچ کونسی ہے اور گراؤنڈ کون سا ہے۔۔۔‘

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تین میچوں کی ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ پرتھ کے آپٹس سٹیڈیم میں کھیلا جا رہا ہے اور کھیل کا آغاز ہونے سے پہلے ہی پچ موضوعِ بحث ہے۔

اس بحث میں صرف پرتھ کی ہی نہیں بلکہ کینبرا کی پچ کے بارے میں بھی محمد حفیظ کی جانب سے کی گئی تنقید شہ سرخیوں کا حصہ بنی رہی تھی۔

کینبرا میں پاکستان نے پرائم منسٹر الیون کے ساتھ پریکٹس میچ کھیلا تھا جو بے نتیجہ رہا تھا تاہم حفیظ نے اس میچ میں ’سلو پچ‘ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کینبر میں ملنے والی پچ پر مجھے حیرت بھی ہے اور مایوسی بھی ہوئی۔

’یہ آسٹریلیا میں بطور مہمان ٹیم اب تک کی سب سے زیادہ سلو وکٹ تھی جس پر ہم کھیلے، شاید یہ ان کی حکمتِ عملی کا حصہ ہو لیکن ہم مکمل طور پر تیار ہیں۔‘

تاہم اب پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ پرتھ میں ہے جہاں آپٹس سٹیڈیم کی تازہ پچ پاکستان بلے بازوں کا انتظار کر رہی ہے اور اس کے بارے میں پچ کیوریٹر ایزاک مکڈونلڈ نے کہا ہے کہ ’یہاں کی کنڈیشنز ایک ہارڈ، فاسٹ اور باؤنسی پچ بنانے کے لیے انتہائی سازگار تھیں۔‘

انھوں نے پچ پر گھاس چھوڑنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس پر ابھی 10 ملی میٹر گھاس ہے لیکن ابھی ایک دن اور ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ میچ شروع ہونے تک بھی اتنی ہی گھاس ہو گی، میرا ہدف کم گھاس رکھنا ہے۔‘

تاہم یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ یہ پچ جس کی تصویر سوشل میڈیا پر آتے ہی پاکستانی مداحوں کو اپنے بلے بازوں کی فکر لاحق ہو گئی تھی صرف تین ہفتے پہلے ہی اس گراؤنڈ میں لائی گئی ہے۔

اس پچ کو قریب ہی موجود پرتھ کے تاریخی واکا کرکٹ گراؤنڈ کی مٹی اور گھاس سے بنایا گیا اور اس بارے میں پچ کیوریٹر کو یہی امید ہے کہ یہ وکٹ واکا گراؤنڈ کی تاریخی پچ کی طرح اچھا پیس اور باؤنس فراہم کرے گی۔

تاہم اس پچ پر اس وقت تنقید ہوئی تھی جب سنہ 2022 میں ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا جانے والا میچ پانچویں دن تک گیا تھا کیونکہ پچ بہت فلیٹ تھی اور اس میں پانچ روز میں زیادہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔

اس لیے جہاں ایک جانب مداحوں کو ڈر ہے کہ کہیں پاکستان بلے باز اس پچ کا باؤنس اور پیس سہہ نہ پائیں وہیں یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ اگر یہ پچ بھی ویسٹ انڈیز والے میچ کی طرح آغاز میں باؤنس اور پیس کے بعد وقت کے ساتھ فلیٹ ہی رہی اور اس میں تبدیلی نہ آئی تو یہ دو دھاری تلوار بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

تاہم اس سب کے باوجود آسٹریلیا اب تک اس گراؤنڈ میں کھیلے گئے تینوں میچ بھاری مارجن سے جیتنے میں کامیاب ہوا ہے اور تینوں میں ہی آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کی تھی۔

ڈراپ ان پچز کیسے تیار کی جاتی ہیں اور انھیں گراؤنڈ میں کیسے لایا جاتا ہے؟

کیا آپ نے کبھی برفی کے مواد کو کٹائی سے قبل مختلف مستطیل سانچوں میں پڑے دیکھا ہے؟

تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیں کہ برفی کی چوکور ڈلیاں کاٹنے کی بجائے کسی ایک سانچے کو بغیر چھیڑے ہی الٹ دیا جایا تو اسی سانچے کی طرح مستطیل مواد آپ کو سامنے پڑا دکھائی دے گا۔

کرکٹ میں جدید ڈراپ ان پچز لگ بھگ اسی طرز پر تیار ہوتی ہیں۔

انھیں گراؤنڈ سے باہر کسی نرسری، گرین ہاؤس یا کبھی کسی دوسرے گراؤنڈ میں ایک سٹیل کے سانچے یا ٹرے میں رکھا جاتا ہے اور پھر آسٹریلیا میں کرکٹ سیزن کی آمد پر انھیں گراؤنڈ میں اتارا جاتا ہے۔

ان پچز کو جہاں تیار کیا جاتا ہے وہاں ان کی دیکھ بھال بالکل ویسے ہی کی جاتی ہے جیسے کسی عام پچ کی اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ میچ سے پہلے یہ مکمل طور پر تیار ہوں۔

گراؤنڈ تک پچ پہنچانے کا عمل خاصا دلچسپ اور دیکھنے کے لائق ہے۔ یہ سب کچھ ایک دیو ہیکل کسٹمائزڈ ٹرالر کی مدد سے ممکن ہو پاتا ہے جو اس مٹی اور گھاس کے مجموعے کو گراؤنڈ تک پہنچانے اور پچ کی مخصوص جگہ پر اتارنے میں مدد کرتا ہے۔

آپٹس سٹیڈیم میں اس ٹرالر کو ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلایا جاتا ہے اور بغیر کسی مشکل کے پچ کو اس کی جگہ پر اتارنے کا کام مکمل کر لیا جاتا ہے۔

عموماً جس جگہ پر پچ کو اتارا جاتا ہے وہاں پہلے سے سیمنٹ سے لیپائی کی جاتی ہے۔ یوں پچدراصل مٹی میں نہیں بلکہ سیمنٹ کے فرش پر اترتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ پچ مٹی میں اپنی جگہ نہ پکڑ پائے اور اسے باآسانی واپس نکالا بھی جا سکے۔

https://twitter.com/FoxCricket/status/1734380728195129517?t=ZJliEPwf1ZhieXKC2c5AnQ&s=19

عموماً انھیں نکالنے کے بعد اس خالی جگہ پر ریت کا بلاک ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اس پر آرٹیفشل گھاس ڈال کر اسے کسی دوسرے کھیل جیسے آسٹریلین رولز فٹبال، رگبی یا کسی کانسرٹ کے لیے تیار کر دیا جاتا ہے۔

یوں آسٹریلیا جیسے ممالک جہاں کرکٹ مقبول ترین کھیل نہیں، وہاں گراؤنڈز کا مختلف کھیلوں اور تقریبات کے لیے استعمال ان کے لیے معاشی پائیداری کا باعث بنتا ہے۔

کرکٹ کے کھیل میں پچز کو انتہائی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ لگ بھگ 22 یارڈ کی پچ میچ کے نتیجے پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔

پچ بنانا یعنی اس کی کیوریشن باقاعدہ طور پر پڑھائی جاتی ہے اور کس علاقے میں اس کے موسم کے اعتبار سے کون سی مٹی سازگار رہے گی اور اس کے باعث اس پچ کی نیچر میں کیا تبدیلی آئے گی یہ سب کچھ گراؤنڈ سٹاف اور پچ کیوریٹر کو معلوم ہوتی ہے۔

مختلف گراؤنڈز کی پچز کے بارے میں مختلف باتیں مشہور ہیں۔ جیسے ایڈیلیڈ کی پچ سپنرز کے لیے سازگار سمجھی جاتی ہے جبکہ پرتھ کے پرانے گراؤنڈ واکا کی پچ پیس اور باؤنس کے لیے خاصی مشہور تھی۔ اسی طرح انڈیا اور پاکستان میں پچز سپنرز کے لیے زیادہ موزوں ہوتی ہیں۔

Getty Imagesڈراپ ان پچز متنازع کیسے بنیں؟

ڈراپ ان پچز کو 90 کی دہائی میں آسٹریلیا میں آزمانا شروع کیا گیا تھا جس کے بعد سے اب یہ وہاں ایک معمول کی بات ہے۔ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ، ایڈیلیڈ اوول اور آپٹس سٹیڈیم پرتھ میں ڈراپ ان پچز استعمال کی جاتی ہیں کیونکہ ان تینوں ہی میدانوں میں دیگر کھیل بھی سال بھر کھیلے جاتے ہیں۔

تاہم ڈراپ ان پچز کی جدت جہاں آنکھوں کو بھاتی ہے وہیں فاسٹ بولرز تاریخی طور پر ان سے کچھ زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔

آسٹریلوی فاسٹ بولر گلین میکگراتھ کے مطابق یہ ’ضرورت سے زیادہ فلیٹ ہوتی ہیں۔‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ روزہ ٹیسٹ میچوں کے دوران ان میں کچھ زیادہ تبدیلی واقع نہیں ہوتی جس کے باعث یہ بلے بازوں کے لیے موزوں ہو جاتی ہیں۔

آسٹریلوی بلے باز مائیکل بیون کے مطابق ڈراپ ان پچز کے باعث آسٹریلیا کا روایتی ’ہوم ایڈوانٹج‘ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ ان میں وہ پیس اور باؤنس نہیں ہوتا جن کے لیے آسٹریلیا کی روایتی پچز مشہور ہیں۔

سابق آسٹریلوی فاسٹ بولر مچل جانسن ان وکٹوں کے ناقد رہے ہیں۔ انھوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ بہت زیادہ بلے بازوں کو فائدہ دیتی ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ ایک پچ پانچ روز کے دوران ٹوٹے، لیکن ان پچز میں ایسا نہیں ہوتا۔‘

بلے باز بریڈ ہاج نے کرک انفو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ڈراپ ان پچز زیادہ پیس اور باؤنس کے لیے سازگار نہیں ہوتیں اور نہ ہی ان پر گیند زیادہ سپن ہوتی ہے۔

’آسٹریلیا میں آپ جہاں بھی جائیں آپ کو ایک جیسی وکٹیں ملتی ہیں لیکن انڈیا میں ایسا نہیں، وہاں مختلف گراؤنڈز میں مختلف وکٹیں ہیں۔‘

کیوریٹرز عام طور پر ان پچز کے فلیٹ ہونے کی وجہ وہ سٹیل کا ٹرے بتاتے ہیں جن میں انھیں بنایا جاتا ہے اور یہ انھیں پانچ روز کے دوران ٹوٹنے سے روکتے ہیں۔

پرتھ کے آپٹس سٹیڈیم میں مثال کے طور پر اسی مٹی کو استعمال کرتے ہوئے پچ بنائی گئی ہے جس سے واکا کی مشہور پچ بنائی گئی تھی اور اس میں پیس اور باؤنس تو موجود ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More