Getty Images
آخری بار جب پاکستان آسٹریلوی سر زمین پر کوئی ٹیسٹ میچ جیتا، تب بابر اعظم فقط ایک برس کے تھے، شاہین شاہ آفریدی پیدا نہیں ہوئے تھے، پاکستان ایٹمی قوت نہیں بنا تھا اور ایک ڈالر صرف 31 روپے کا تھا۔
سنہ 2016 کے دورے پر جو پاکستانی الیون سٹیو سمتھ کی ٹیم کے ہاتھوں کلین سویپ ہوئی، وہ آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ کی فاتح اور رینکنگ میں نمبر ون ٹیم تھی۔ اس ٹیم کے کپتان مصباح الحق سے جب پوچھا گیا کہ آیا ان کی ٹیم پچھلی دو دہائیوں میں آسٹریلیا کا دورہ کرنے والی بہترین ٹیم تھی تو انھوں نے اپنے پیشرو وسیم اکرم کی ٹیم کو بہترین قرار دیا تھا جو بذاتِ خود 1999 کے دورے پر کلین سویپ ہوئی تھی۔
اور جس آسٹریلوی اٹیک نے مصباح الحق کی نمبر ون ٹیم کو کلین سویپ کیا تھا، اس کے تو سبھی مہرے جوں کے توں ہیں مگر پاکستان اپنے پچھلے دورے کی ہی طرح اس بار بھی ایک نئے بولنگ اٹیک کے ہمراہ میدان میں اترے گا۔
حالیہ پاکستانی ٹیم اگرچہ تجربے اور مہارت میں مصباح الحق کی ٹیم سے بہتر نہیں ہے مگر بہرحال یہ اس پاکستانی ٹیم سے قوی تر ہے جو تین سال قبل ایک یکسر نو آموز بولنگ اٹیک کے ہمراہ آسٹریلیا گئی تھی۔
ایشین ٹیموں میں صرف انڈیا ہی وہ ٹیم ہے جو آسٹریلیا کو ہوم گراؤنڈز پر کوئی ٹیسٹ سیریز ہرانے میں کامیاب رہی ہے اور اس کی کلید بھی نہ صرف سیریز کے آغاز سے خاصا پہلے آسٹریلیا روانگی بلکہ سازگار حالات میں وافر پریکٹس میچز کی فراہمی بھی تھی۔
مگر پی سی بی چونکہ بی سی سی آئی جیسے مالی رسوخ سے محروم ہے تو پریکٹس میچ کے لیے کرکٹ آسٹریلیا کا فراہم کردہ وینیو اور وسائل بھی مثالی نہیں تھے اور پرتھ میں اترنے سے پہلے اگر پاکستان محض کینبرا کے اس میچ پر اکتفا کر کے آیا تو یہ تیاری نامکمل سے بھی کہیں پیچھے ہو گی۔
نئے ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ جہاں ان حالات سے شاکی ہیں، وہیں مُصر بھی ہیں کہ پاکستان یہاں صرف مقابلہ کرنے نہیں، بلکہ جیتنے کو آیا ہے۔
Getty Images
محمد حفیظ کی مثبت پسندی فی الوقت حدوں سے تجاوز کرتی نظر آتی ہے مگر ایک مثبت پہلو پاکستان کے لیے یہ ہے کہ نئے کپتان شان مسعود نے پریکٹس میچ میں بھرپور رنز بٹورے اور آسٹریلین کنڈیشنز میں ان کے سابقہ ریکارڈ کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہاں پاکستانی بیٹنگ کی قوت ثابت ہو سکتے ہیں۔
دشواری ان کنڈیشنز میں زیادہ تر پاکستانی بولنگ کو ہی درپیش آتی رہی ہے کہ پیسرز اس خطے کی لینتھ سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے اور سپنرز بھی ایشین وکٹوں پر پلی عادات سے بڑھ کر سوچ نہیں پاتے۔ سو اگر محمد حفیظ ان دہائیوں پرانے عقدوں کا کوئی حل نکال پائے تو شاید ان کی مثبت پسندی کوئی عملی روپ دھار پائے۔
عثمان خواجہ نے بھی کہا ہے کہ پاکستانی بولنگ اگر اپنے بہترین پر امڈ آئے تو کسی بھی حریف کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ خواجہ کا یہ اعتراف اگرچہ حقیقت سے ماورا نہیں ہے مگر دقت یہ ہے کہ ان آسٹریلوی کنڈیشنز میں پاکستانی بولنگ کو اپنا بہترین دکھائے لگ بھگ تین دہائیاں گزر چکی ہیں۔
اور ہزیمت آمیز پہلو یہ ہے کہ اس کے بعد کے سبھی دوروں پر پاکستان کو ہر بار نہ صرف کلین سویپ کی خفت اٹھانا پڑی بلکہ آسٹریلوی فتوحات کا مارجن بھی ہتک آمیز رہا ہے۔ گو، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے مگر شکست میں بھی جو ذرا سا بھرم بچ رہنا ضروری ہوتا ہے، پچھلے دوروں پر پاکستان اس سے بھی قاصر رہا ہے۔
سو، اب کی بار پاکستانی ٹیم کا مقابلہ آسٹریلیا سے نہیں بلکہ خود سے ہے کہ نتائج سے قطع نظر، کیا وہ کچھ بھرم تو بچا پائے گی؟ شکست بھلے ہی مقدر ہو مگر کیا یہ ٹیم شکست میں بھی اپنا وقار یکسر مجروح ہونے سے محفوظ رکھ پائے گی؟