پلائیوسار: سمندر کا سب سے خونخوار شکاری جو ’قریب سے گزرتے کسی بھی جانور کو دبوچ سکتا تھا‘

بی بی سی اردو  |  Dec 11, 2023

برطانیہ کی ڈورسٹ کاؤنٹی کے ساحلی علاقے جراسک کوسٹ میں ایک عجیب الخلقت سمندری جانور کی کھوپڑی دریافت کی گئی ہے۔

یہ کھوپڑی خونخوار رینگنے والے جانور پلائیوسار کی ہے جو قریب 15 کروڑ سال قبل سمندروں میں دہشت پھیلاتا تھا۔

اس کا دو میٹر لمبا فوسل اس نوعیت کی سب سے مکمل باقیات ہیں جن سے اس قدیم شکاری کے بارے میں نئی معلومات مل رہی ہیں۔

اس کھوپڑی کو نئے سال کے روز بی بی سی ون پر ڈیوڈ ایٹنبرا کے خصوصی پروگرام میں دکھایا جائے گا۔

جیسے جیسے اس کھوپڑی سے پہلی بار پردہ ہٹ رہا ہے، ویسے ویسے ہماری سانسیں تیز ہو رہی ہیں۔ یہ فوراً واضح ہو جاتا ہے کہ پلائیوسار کی بڑی کھوپڑی بہت خوبصورتی سے محفوظ رکھی گئی۔

مقامی پیلیونٹالوجسٹ سٹیو ایچز کہتے ہیں کہ ایسا کوئی نمونہ نہیں جو اس کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے۔

’میں نے جن فوسلز پر کام کیا یہ ان میں سے سب سے زبردست ہے۔ اس کا یوں مکمل ہونا ہی اسے نایاب بناتا ہے۔‘

’نچلے جبڑے اور اوپر کی کھوپڑی دونوں ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جیسے کہ اس کی زندگی میں ہو گا۔ ایسا نمونہ ڈھونڈنا بہت مشکل ہے جس میں اتنی تفصیل ہو۔ اگر ایسا مل بھی جائے تو بیچ میں کئی چیزیں موجود نہیں ہوتیں۔ اگرچہ اس میں کچھ کمیاں ہیں مگر تمام ہڈیاں اپنی جگہوں پر موجود ہیں۔‘

کھوپڑی اکثر انسانوں سے لمبی ہے جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ مخلوق کتنی بڑی ہو گی۔ آپ چاہ کر بھی اس کے 130 دانتوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے، خاص کر سامنے کے دانت۔

یہ لمبے اور نوکیلے دانت کسی کو ایک وار میں مار دیں۔ اگر ہمت پڑے تو آپ کچھ مزید قریب سے دیکھیں۔ ہر دانت کی پشت پر ڈھلوان ہے تاکہ یہ درندہ گوشت چبا سکے۔ کسی چاقو کی طرح سامنے کے دانت دوسرے وار کے لیے فوری طور پر تیار رہتے ہوں گے۔

10 سے 12 میٹر طویل پلائیوسار ایک ’کلنگ مشین‘ ہو گا۔ مچھلیوں کے ’فلیپر‘ کی طرح اس کے پاس تیرنے کے لیے چار ٹانگیں تھیں جو اسے رفتار دیتی تھیں۔ یہ بلاشبہ سمندر کا بہترین شکاری ہوگا۔

برسٹل یونیورسٹی کے ڈاکٹر اندرے رو نے کہا کہ ’یہ جانور اس قدر بڑا ہو گا کہ یہ قریب سے گزرتے کسی بھی بدقسمت جانور کو دبوچ سکتا تھا۔‘

’مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ زیرِ آب ٹی ریکس ہوگا۔‘

اس کے کھانوں میں دوسرے رینگنے والے جانور بھی ہوتے ہوں گے، جیسے اس کا لمبی گردن والا کزن پلیسیوسار اور ڈولفن جیسا اکتھیوسار۔ باقیات کے شواہد سے واضح ہے کہ یہ قریب سے گزرنے والے اپنے جیسے دیگر پلائیوسار کا بھی شکار کر لیتا ہوگا۔

جس طرح اس فاسل کھوپڑی کی دریافت کی گئی وہ بھی غیر معمولی ہے۔

جنوبی انگلینڈ کے معروف ثقافتی مقام جراسک کوسٹ کے ایک ساحل پر چہل قدمی سے اس کا آغاز ہوا۔

سٹیل ایچز اپنے ساتھی فل جیکبز کے ساتھ تھے، جب انھوں نے کنکریوں کے ڈھیر میں اس کی ایک جھلک دیکھی۔ یہ کھوپڑی اتنی بھاری تھی کہ انھیں اسے ہٹانے اور محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لیے عارضی سٹریچر بنانا پڑا۔

مگر باقی کا جانور کہاں ہے؟ پہاڑ اور ساحلی پٹی کے ڈرون سروے سے ایک ممکنہ مقام کی نشاندہی ہوئی مگر مسئلہ یہ تھا کہ اسے کوہ پیماؤں کی مدد سے ہی نیچے لایا جاسکتا تھا۔

BBC

فوسل کو کسی چٹان میں سے نکالنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے مگر اس بار ساحل سے 15 میٹر اوپر رسیوں سے لٹک کر ایسا کرنا تھا، یعنی ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جن میں یہ تمام صلاحیتیں ہوں۔

کئی مہینوں تک کھوپڑی کی صفائی کا کام بڑی ہمت کے ساتھ جاری رہا۔ اس کی کامیابی کے بعد لگتا ہے کہ محنت رائیگاں نہیں گئی۔ دنیا بھر سے سائنسدان اس فوسل کو دیکھنے کے لیے آ رہے ہیں تاکہ یہ جائزہ لے سکیں کہ ماحول میں کیسے ان رینگنے والے جانوروں کا غلبہ تھا۔

پیلیو بائیلوجسٹ پروفیسر ایملی ریفیلڈ نے کہا کہ انھوں نے سر کی پشت پر بڑے گول گڑھوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس سے ان پٹھوں کا اندازہ ہوتا ہے جو اس پلائیوسار کے جبڑے چلاتے تھے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شکار کو کاٹنے کے لیے اس کی منھ میں کتنی جان تھی۔

جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ یہ طاقت 33 ہزار نیوٹنز تھی۔ آپ کے لیے یہ سمجھنا کافی ہوگا کہ نمکین پانیوں میں پائے جانے والے مگرمچھوں کی کاٹنے کی صلاحیت 16 ہزار نیوٹنز ہوتی ہے۔

برسٹول کی محقق نے بتایا کہ ’اگر آپ طاقتور انداز میں کاٹ سکیں تو آپ اپنے شکار کو بے بس بنا دیتے ہیں کیونکہ وہ نکل کر کہیں نہیں جا پاتا۔ اس سے آپ شکار کے ٹشو اور ہڈیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔‘

’مگر مچھ اپنے شکار کو کاٹتے ہیں پھر گھماتے ہیں تاکہ ان کی ٹانگیں توڑ سکیں۔ یہ ان جانوروں کی صلاحیت ہے جن کے سر پیچھے سے بڑے ہوتے ہیں۔ ایسا ہمیں پلائیو سار میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔‘

دریافت کی گئی باقیات سے پتا چلتا ہے کہ اس جانور میں بڑی کارگر حواس تھیں۔ ان کی ناک پر چھوٹے گڑھے اور نقطے ہیں جس سے وہ شکار کی آمد پر پانی کا دباؤ بھانپ لیتا ہوگا۔ اس کے سر پر ایک سوراخ ہے جس پر تیسری آنکھ ہے۔

چھپکلی، مینڈک اور کچھ مچھلیوں میں تیسری آنکھ ہوتی ہے۔ اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اس میں روشنی داخل ہوسکتی ہے اور دوسرے جانوروں کو ڈھونڈنے میں مدد کرتی ہے۔ پلائیوسار کو اس کا تب زیادہ فائدہ ہوتا ہوگا جب وہ کیچڑ والے پانی میں تیرتا ہوگا۔

سٹیو ایچز اس کھوپڑی کو جلد کیمر رج کے میوزیم میں اگلے سال رکھیں۔

اس کے سر کی کچھ ہڈیاں باہر کی طرف نکلی ہوئی ہیں۔ بعض شواہد ہیں کہ اس پہاڑ پر مزید فوسل ہوسکتے ہیں۔ سٹیو چاہتے ہیں کہ اس چیز کا اختتام کریں جس کا انھوں نے آغاز کیا تھا۔ ’میں اپنی زندگی کی بازی کھیلنے کو تیار ہوں کیونکہ باقی جانور وہیں ہے۔‘

’اسے باہر آجانا چاہیے کیونکہ ماحول تیزی سے بگڑ رہا ہے۔ پہاڑ کا یہ حصہ ہر سال پیچھے جا رہا ہے۔ یہ زیادہ دور نہیں جب پلائیوسار گِر کر غائب ہوجائے گا۔ یہ ایک بار زندگی میں ملنے والا موقع ہے۔‘

ریبیکا مور اور ٹونی جولیف کی اضافی رپورٹنگ

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More