فرانسیسی شہری جو سکھ مذہب اپنانے کے بعد دو دہائیوں سے انڈین پنجاب میں آباد ہے

بی بی سی اردو  |  Dec 10, 2023

BBC

یوں تو انڈین پنجاب کے نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک جانے کی کوشش میں لگے ہیں اور یہاں زراعت کے پیشے کو خسارے کا کاروبار کہا جا رہا ہے لیکن ایک فرانسیسی شہری دو دہائیوں سے نور پور بیدی کے علاقے میں آرگینِک فارمنگ کر کے نوجوانوں اور کسانوں کے لیے تحریک کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

’میرے بارے میں لوگ ایک بات کہتے ہیں کہ یہ ’الٹی گنگا بہنے کی طرح‘ ہے۔ لوگ یہاں کام نہیں کرتے اور باہر کے ممالک بھاگ جاتے ہیں اور میں بیرون ملک سے آ کر یہاں بس گیا ہوں۔ میں نے بہت سے ممالک دیکھے ہیں۔ یہ لوگ آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ جا کر دوسروں کے گھر کام کرتے ہیں لیکن اپنے پنجاب میں نہیں کرنا چاہتے۔

یہ الفاظ فرانسیسی نژاد انڈین شہری درشن سنگھ روڈل کے ہیں۔

درشن سنگھ روڈل فرانس میں پیدا ہوئے اور انڈیا کے دورے کے دوران سکھ مذہب اختیار کیا۔ وہ اب گذشتہ دو دہائیوں سے انڈین پنجاب میں آباد ہیں۔

درشن سنگھ روپ نگر ضلع کے نورپور بیدی علاقے کے ایک چھوٹے سے گاؤں کنگر میں رہتے ہیں اور کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ ان کی اہلیہ ملویندر کور پنجابی ہیں اور ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔

درشن سنگھ کا پہلا نام مشیل مائیکل جین لوئس روڈل ہے۔ وہ جنوبی فرانس میں پانچ اکتوبر 1957 کو ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے۔

سکھ مذہب اختیار کرنے والے درشن سنگھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے 15 سال کی عمر میں گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ مذہب تبدیل کرتے وقت انھیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ ان کے والد کا ماننا تھا کہ خدا ایک ہے اور انھوں نے درشن سنگھ کے فیصلے کو قبول کیا۔

وہ ہنستے ہوئے کہتا ہے کہ ’میری بیوی کہتی ہے کہ میرا انڈیا سے کوئی پرانا رشتہ تھا جو مجھے یہاں کھینچ لایا۔‘

انڈیا آ کر اور سکھ مذہب اختیار کر کے انھوں نے بابا گرو نانک کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے محنت پر یقین کیا اور آرگینک کاشتکاری شروع کی۔

درشن سنگھ (مائیکل) کے مطابق ان سکول کے زمانے سے ہی پڑھائی کے ساتھ ساتھ زراعت کا شوق تھا کیونکہ ان کے والد ایک کسان تھے۔

درشن سنگھ نے بتایا کہ 1976 میں وہ سائیکل پر جنوبی افریقہ، سوئٹزرلینڈ، ترکی، ایران اور افغانستان کا سفر کر چکے ہیں۔

اسی دوران وہ انڈیا آئے اور کشمیر سے کنیا کماری تک پورے ملک کو دیکھا۔ اسی موقع پر وہ دربار صاحب امرتسر گئے اور پنجاب میں آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔

’پنجاب دوسری جائے پیدائش ہے‘

سنہ 1991 میں درشن سنگھ نے آنند پور صاحب سے سکھ مذہب اختیار کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے امرت لیا تو میں نے اپنی فرانسیسی شہریت چھوڑ دی۔ تاہم میری حکومت نے میرا نام تبدیل کرنے سے انکار کر دیا لیکن میں نے اپنا نام بدلنا بہتر سمجھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آنند پور صاحب سے امرت لینے کے بعد میں نے سوچا کہ اب مجھے یہیں رہنا پڑے گا کیونکہ یہ میری دوسری جائے پیدائش ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر دیگروں شہروں کے مقابلے میں آلودگی کم ہے اور مجھے یہ زمین بھی زرخیز لگتی ہے۔

درشن سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ 10 سال ساؤتھ ہال برطانیہ میں مقیم رہے اور وہیں انھوں نے گرومکھی پڑھنا سیکھی۔

فرانس جانے کے بارے میں درشن سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ مختلف مرتبہ فرانس بھی گئے ہیں لیکن ’میں پچھلے پانچ سالوں سے نہیں گیا کیونکہ مجھے یہاں بہت مزہ آتا ہے۔‘

مقامی لوگ ان کے کھیتوں کو انگلش فارم یا گورے کا فارم کہتے ہیں۔

درشن سنگھ موبائل استعمال نہیں کرتےBBC

درشن سنگھ کا چندی گڑھ میں ایک گھر بھی ہے جہاں ان کی بیوی رہتی ہیں۔ سال 1998 میں انھوں نے گاؤں کنگر میں زمین خریدی اور کھیتی باڑی شروع کی۔

درشن سنگھ کے پاس موبائل فون نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں موبائل فون غلامی ہے۔

وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جورو کی غلامی شادی کے بعد شروع ہوتی ہے، موبائل فون سے دوہری غلامی ہو جائے گی۔‘

کیمیکلز کے استعمال سے گریز

درشن سنگھ کا کہنا ہے کہ پنجاب کے کسانوں نے زہریلی اور کیمیائی کھادوں کا استعمال کر کے پنجاب کی مقدس سرزمین کو کینسر دے دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پنجاب کا کسان تھوڑی سے لالچ کی وجہ سے آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہاں کی ہر چیز زہر آلود ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں نے فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے کیمیائی کھادوں کے اندھا دھند استعمال کا سہارا لیا ہے، جو کہ تشویشناک بات ہے۔‘

درشن سنگھ کہتے ہیں کہ ’پرانے زمانے میں پنجاب کے کسان باہر سے صرف نمک منگواتے تھے۔ باقی سب کچھ خالص پیدا کرتے تھے۔ اس وقت پیداوار کم تھی لیکن وہ فصل زہریلی نہیں تھی۔‘

درشن سنگھ نے کہا کہ اگر پنجاب کے کسان اپنے پرانے ورثے کو محفوظ رکھیں تو کسی ہائبرڈ بیج کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ’پہلے کسان اپنا بیج خود تیار کرتا تھا۔ اب پنجاب کا کسان اپنے ہاتھ سے کام نہیں کرتا اور دوسروں کے ہاتھ دیکھتا رہتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جو کھانا پنجابی کھا رہے ہیں وہ زہریلا ہو گیا ہے۔ پنجاب کا اصل کھانا مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ ہے، جو پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔‘

فطرت سے محبتBBC

درشن سنگھ جو پنجاب کی سرزمین سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ فطرت سے بہت پیار کرتے ہیں۔

بقول اُن کے ’اگر ہم نے فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا کیونکہ پنجاب کی سرزمین میں کھادوں کے استعمال سے گنڈوا کی نایاب نسل تباہ ہو رہی ہے۔‘

’زمین کی پیداواری صلاحیت بڑھانے میں پودے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی زندگی میں ہر پودے کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بہت سی جڑی بوٹیاں بہت سی خوفناک بیماریوں کا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جن کا جدید دور میں کوئی علاج نہیں ہے۔‘

درشن سنگھ اپنی زمین پر گنا، آلو، گندم، دھان، آم، آڑو، ہلدی، میٹھی مرچ وغیرہ لگاتے ہیں۔

درشن سنگھ نے بتایا کہ یہاں کی زمین ریتلی ہے، اس لیے انھوں نے اسے قابل کاشت بنانے کے لیے بہت محنت کی ہے۔

کھیتوں کے لیے یہاں زمین تیار کرنے کا پہلا مرحلہ پہاڑ سے مٹی لا کر ان کھیتوں میں منظم طریقے سے پھیلانا تھا۔ بعد میں گندیوں کی تیار کردہ کھاد ڈالی گئی۔ اس کے علاوہ وہ گائے کے پیشاب اور نیم کے پتوں جیسے قدرتی مواد سے بنی کھاد کا استعمال بھی کرتے ہیں۔

درشن سنگھ کہتے ہیں کہ کسانوں کو گندم اور دھان کے روایتی فصلی چکر سے باہر نکلنا چاہیے۔ ’کاشتکاروں کو وقتاً فوقتاً دالیں اور دیگر فصلیں اگانی چاہیے جو قدرتی طور پر مٹی میں نائٹروجن اور دیگر غذائی اجزا کا اضافہ کرتی ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More