جب عمران خان، ماجد خان اور ظہیر عباس نے کپتان جاوید میانداد کے خلاف ’بغاوت‘ کی

اردو نیوز  |  Dec 07, 2023

بائیس سال کی عمر میں کرکٹرز عموماً ڈیبیو کرتے ہیں مگر جاوید میانداد کو اس عمر میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا۔ یہ جرات مندانہ  فیصلہ اس وقت کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ ایئرمارشل نور خان کا تھا۔

دراصل آصف اقبال کی قیادت میں پاکستان کو 1979 کے دورہ انڈیا میں 6 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں دو صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

بڑے ناموں پر مشتمل پاکستانی ٹیم کی یہ شکست کرکٹ بورڈ اور فینز کو ناگوار گزری۔ کرکٹ بورڈ نے جاوید میانداد کو کپتان تو بنادیا مگر سینیئر کرکٹرز کے لیے یہ فیصلہ قبول کرنا آسان نہ تھا۔

عمران خان کتاب Imran: The Autobiography of Imran Khan with Patrick Murphy میں بتاتے ہیں: ’انڈیا کے دورے میں ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد وہ جاوید میانداد کی بطوری کپتان تقرری پر اتنا خوش نہیں تھے، ماجد خان واضح انتخاب نظر آتے تھے مگر انڈیا میں ان کی کارکردگی خراب رہی تھی۔ ‘

جاوید میانداد نے اپنی سوانح عمری  Cutting Edgeمیں اسی پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے، ’میری بطور کپتان تقرری کے فیصلے سے کچھ لوگوں کو تکلیف پہنچی تھی۔‘

جاوید میانداد کا اشارہ یقینی طور پر سینیئر کرکٹرز کی جانب تھا۔

جاوید میانداد کی قیادت میں پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز جیت لی مگر تقریباً دو سال بعد آسٹریلیا کا جوابی دورہ نوجوان کپتان کے لیے مایوس کن ثابت ہوا۔

1981  کا دورہ آسٹریلیا جاوید میانداد کے خلاف بغاوت کی بنیاد بناآسٹریلیا میں تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز نوجوان کپتان اور ٹیم دونوں کا امتحان تھی مگر یہ بات نمایاں تھی کہ کپتان، مینجمنٹ اور کھلاڑی ایک پیج پر نہیں تھے۔

جاوید میانداد کی قیادت میں پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز جیت لی۔ (فوٹو: اے ایف پی)لیفٹ آرم سپنر اقبال قاسم اپنی کتاب ’ؔاقبال قاسم اور کرکٹ‘ میں لکھتے ہیں، ’جاوید میانداد کو میں نے دیکھا کافی بجھا بجھا سا لگ رہا تھا شاید اس لیے کہ پہلی بار ملک سے باہر کپتان بنا کر بھیجا گیا تھا، یہ بات واضح کردوں کہ ٹیم کو اپنے ملک میں سنبھالنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن دوسرے ملک میں کپتان پر بہت زیادہ ذمے داری آجاتی ہے۔‘

اقبال قاسم ٹیم منیجر اعجاز بٹ اور جاوید میانداد کے درمیان تعلقات پر بھی بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’میں نے محسوس کیا کہ جاوید میانداد اکیلا اخباروں کو انٹرویو دے رہا ہے۔ اعجاز بٹ نے اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں کی، آسٹریلیا پہنچتے ہی یہ احساس ہوگیا کہ ٹیم میں وہ ولولہ اور جوش نظر نہیں آرہا جو ہونا چاہیے تھا۔‘

سیریز سے پہلے ہی ٹیم دھڑوں میں بٹ گئیآسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز سے قبل پریکٹس میچز کے دوران جاوید میانداد اور ظہیر عباس کے درمیان کھلاڑیوں کے سامنے تکرار ہوگئی۔

اقبال قاسم کے مطابق ’دوسرے فرسٹ کلاس میچ میں جو کوئنز لینڈ کے خلاف کھیلا گیا۔ تھامسن کی ایک گیند ظہیر عباس کے سینے پر لگ گئی۔ اس میچ میں ظہیر عباس نے عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا تھا لیکن انہوں نے نمبر تین پر بیٹنگ سے انکار کردیا۔ بقول ان کے انہوں نے ٹیم منتخب ہونے سے پہلے بورڈ کو اس بات کی اطلاع کردی تھی کہ وہ نمبر تین پر بیٹنگ نہیں کریں گے، اس بات کا علم جاوید میانداد کو نہیں تھا۔‘

ظہیر عباس کے فیصلے سے کھلاڑی خوش نہیں تھے۔ اقبال قاسم اپنی کتاب میں بتاتے ہیں، ’ظہیر عباس کا کہنا تھا کہ اوپننگ بیٹسمین بہت جلد اؤٹ ہوجاتے ہیں اور ان کو نئی گیند سے کھیلنا پڑتا ہے جبکہ باقی آنے والے بیٹسمین کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جاوید میانداد نے اس بات پر اصرار کیا کہ نمبر 3 پر ظہیر عباس کو جانا چاہیے ورنہ تو ہر کوئی یہ کہہ دے گا کہ مجھے اس نمبر پر نہیں جانا۔ میلبرن میں وکٹوریہ کے خلاف میچ میں ظہیر عباس کو ٹیم کا کپتان چنا گیا کیونکہ جاوید میانداد میچ نہیں کھیل رہے تھے۔ اس دوران ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا۔ ہوا یہ کہ ظہیر عباس جو کپتان تھے فیلڈ سے بغیر کسی کو بتائے ہوٹل چل دیے اور جاوید میانداد نے اس کا نوٹس لے لیا۔

جاوید میانداد سیریز میں پاکستان کے کامیاب ترین بلے باز رہے مگر سیریز دو ایک سے آسٹریلیا کے نام رہی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)ظہیر عباس کو ہوٹل سے بلالیا گیا اور سارے لڑکوں کے سامنے جاوید میانداد اور ظہیر عباس میں تکرار ہوگئی، اعجاز بٹ صاحب تماشا دیکھتے رہے۔ اس طرح سے سینیئر کھلاڑیوں کے درمیان تکرار سے نہ صرف نئے کھلاڑیوں کے ماحول کا اندازہ ہوا بلکہ لڑکے دھڑوں میں بٹنے لگے۔‘

پاکستان ٹیسٹ سیریز ہار گیاآسٹریلیا کو پاکستان میں شکست دینے والی پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے میدانوں میں ہار گئی۔ پاکستان کو پہلے دو ٹیسٹ میچز میں شکست ہوئی، میلبرن میں کھیلا گیا تیسرا ٹیسٹ میچ پاکستان نے میچ جیت لیا۔

جاوید میانداد سیریز میں پاکستان کے کامیاب ترین بلے باز رہے مگر سیریز دو ایک سے آسٹریلیا کے نام رہی۔

دورے کے اختتام پر کرکٹ بورڈ نے کھلاڑیوں پر عدم تعاون کا الزام عائد  کیا۔ بورڈ کے اس بیان پر کرکٹرز بگڑ گئے۔

عمران خان کے مطابق ’جب ہم دورہ آسٹریلیا سے وطن واپس پہنچے تو پوری ٹیم اس بات پر حیران تھی کہ جاوید کو کپتان برقرار رکھا گیا پھر بورڈ نے ایک بیان جاری کیا کہ ہم آسٹریلیا میں اس لیے ناکام ہوئے کہ سینیئر کھلاڑیوں نے کپتان سے تعاون نہیں کیا۔ ہم سب اس توہین آمیز بیان پر غصے میں تھے، ہم یہ پبلک سٹیٹمنٹ قبول نہیں کرسکتے تھے۔‘

 جاوید میانداد کو کرکٹرز کا پیغامسری لنکا کے خلاف پہلا ٹیسٹ قریب آیا تو لاہور میں کیمپ لگایا گیا۔ کھلاڑیوں کو اندازہ ہوگیا کہ کرکٹ بورڈ  جاوید میانداد کے ساتھ کھڑا ہے۔

جاوید میانداد کتاب Cutting Edge میں بتاتے ہیں کہ انہیں جلد معلوم ہوا کہ ان کی کپتانی کے خلاف ایک بیان تیار کیا گیا ہے۔ (فوٹو: فیس بک)جاوید میانداد کتاب Cutting Edge میں بتاتے ہیں کہ انہیں جلد معلوم ہوا کہ ان کی کپتانی کے خلاف ایک بیان تیار کیا گیا ہے جس کے لیے ظہیر عباس کے دستخط ضروری تھے۔

’ٹیم ہوٹل میں ہر طرف افواہوں کا زور تھا، ظہیر عباس کی کراچی سے لاہور آنے والی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوگئی اور اس ’پراسرار بیان‘ کے گرد ڈرامہ طویل ہوگیا، آخر کار ظہیر عباس ہوٹل پہنچے اور جلد تمام لوگ اِدہر اُدہر ہوگئے، میں نہیں جانتا تھا کہ اس صورتحال میں کیا  کروں، میں خود کو تنہا محسوس کررہا تھا۔‘

جاوید میانداد کا خیال تھا کہ ٹیم میں اب بھی ان کے کچھ ہمدرد موجود ہیں۔ جب رات اقبال قاسم ان سے ملاقات کے لیے پہنچے تو مشکل وقت میں اپنے پرانے دوست کو دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی، مگر جاوید میانداد کی خوشی اس وقت غارت ہوگئی جب پتہ چلا کہ اقبال قاسم باغی کھلاڑیوں کے ترجمان بن کر ان کے پاس آئے ہیں۔

اقبال قاسم نے جاوید میانداد کو بتایا کہ سب نے تمہاری کپتانی میں کھیلنے سے انکار کے بیان پر دستخط کردیے ہیں۔

’میں نے اقبال سے پوچھا تم کس کے ساتھ کھڑے ہو، انہوں نے جواب دیا کہ وہ بھی بغاوت کرنے والے گروپ کے ساتھ ہیں۔‘

جاوید میانداد کے مطابق اقبال قاسم نے انہیں باغی کرکٹرز کی طرف سے الٹی میٹم دیا کہ کپتانی چھوڑ دو، بصورت دیگر بغاوت کی خبر صبح کے اخبارات کی زینت ہوگی۔

اور بغاوت ہوگئیجب جاوید میانداد نے اقبال قاسم کو خالی ہاتھ لوٹا دیا تو کھلاڑیوں نے جاوید میانداد کے خلاف بغاوت کا فیصلہ کر لیا۔ عمران خان کتاب ’عمران‘ میں بتاتے ہیں کہ ’ہم دس کھلاڑیوں نے اپنا بیان جاری کیا، جس میں جاوید میانداد کی ٹیم کی قیادت کرنے کی صلاحیت پر سوال اٹھایا اور ان کی قیادت میں نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا، ماجد خان کو ترجمان مقرر کیا گیا۔ پریس نے لاہور اور کراچی کے کرکٹرز کے درمیان چپقلش کا پرانا ڈھول پیٹنا شروع کردیا۔ بورڈ نے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا۔‘

تیسرے ٹیسٹ میچ سے پہلے جاوید میانداد نے ٹیم کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے کپتانی سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ (فوٹو: بشکریہ ڈان)باغی کھلاڑیوں میں ماجد خان، ظہیرعباس، سرفراز نواز، وسیم باری، محسن حسن خان، مدثر نذر، عمران خان، وسیم راجا، سکندر بخت اور اقبال قاسم شامل تھے۔ اقبال قاسم اور وسیم راجا نے بعد میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کے دباؤ میں آکر بغاوت ختم کردی اور ٹیم کا حصہ بن گئے۔

درمیانی راستہ کس طرح نکالا گیا؟کرکٹ بورڈ کے سربراہ ایئر مارشل ریٹائرڈ نور خان نے کھلاڑیوں کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا اور تمام کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر رکھ کر نئی ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا۔

سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں چار کھلاڑیوں نے ڈیبیو کیا۔ پہلا ٹیسٹ پاکستان جیت گیا۔

جاوید میانداد کے مطابق دوسرے ٹیسٹ میچ سے قبل انہیں یہ اطلاعات ملیں کہ عمران خان میچ کھیلنے کے لیے بے چین تھے مگر بغاوت منظم کرنے والے ان پر ٹیم سے باہر رہنے کے لیے سخت دباؤ ڈال رہے ہیں۔ دوسرے میچ ڈرا ہوگیا۔

تیسرے ٹیسٹ میچ سے پہلے جاوید میانداد نے ٹیم کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے کپتانی سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا حالانکہ کرکٹ بورڈ پوری طرح ان کے ساتھ تھا۔

جاوید میانداد نے اپنے فیصلے سے نور خان کو آگاہ کر دیا۔ نور خاں نے جاوید میانداد کو سیریز کے اختتام تک کپتانی کرنے کی ہدایت کیں۔

یہ فیصلہ ہوتے ہی تمام باغی کھلاڑی دوبارہ ٹیم میں واپس آگئے، سری لنکا کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میں کپتان جاوید میانداد تھا اور باغی کھلاڑی ان کی زیر قیادت کھیل رہے تھے۔

29 سالہ عمران خان کو کپتان مقرر کرنے کا فیصلہ ظہیر عباس کے لیے مایوس کن تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)جاوید میانداد ’کٹنگ ایج‘ میں لکھتے ہیں، ’میں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی مرضی کے برعکس ازخود کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ پی سی بی پوری طرح میرے ساتھ کھڑا تھا اور مجھے کپتانی کے منصب پر برقرار رکھنا چاہتا تھا، ٹیم  میں اختلافات رونما ہوچکے تھے اور اگر میں کپتانی جاری رکھتا تو حتمی شکار پاکستان کرکٹ کو ہی بننا تھا جو میرے لیے ناقابل قبول تھا۔ میں  دوسرے لیڈر کو جگہ دینے کے لیے ایک طرف ہوگیا۔‘

نیا کپتان کون ہوگا؟کپتان کے اعلان سے پہلے ایئر مارشل ریٹائرڈ نور خان نے جاوید میانداد سے رائے طلب کی کہ آپ کا جانشین کسے ہونا چاہیے تو جاوید میانداد نے عمران خان کا نام تجویز کیا۔

یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ جاوید میانداد نے دھمکی دی تھی کہ اگر ظہیر عباس کو کپتان مقرر کیا گیا تو وہ نہیں کھیلیں گے۔

ایئر مارشل نور خان نے 29 سالہ عمران خان کو پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اقدام سینیئر کرکٹر ظہیر عباس کے لیے مایوس کن تھا۔ عمران خان اگلے دس سال تک پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے ، اس دوران جب وہ سنگین انجری کا شکار ہوئے تو ظہیر عباس کو بھی ٹیم کی قیادت سونپی گئی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More