Getty Images
آپ چاہے خود نوجوان ہوں یا نوجوان بچوں کے دادا دادی یا نانا نانی، خوش اور چلبلے کارٹون کریکٹر ’مکی ماؤس‘ سے بخوبی واقف بھی ہوں گے۔
مکی ماؤس کو پہلی بار شارٹ اینی میٹڈ فلم ’سٹیم بوٹ ویلی‘ میں پیش کیا گیا۔ یہ شارٹ فلم 18 نومبر 1928 کو ریلیز ہوئی تھی۔
تاہم اگلے سال اس شارٹ فلم کا ایک حصہ عوامی ڈومین میں داخل ہو جائے گا یعنی اس کے کاپی رائٹس عام کر دیے جائیں گے. ڈزنی 1928 سے لے کر اب تک اپنی سب سے مشہور مختصر دورانیے کی اینی میٹڈ فلم ’سٹیم بوٹ ویلی‘ کے جملہ حقوق سے محروم ہونے جا رہا ہے اور اس میںڈزنی کے سب سے مشہور کردار مکی ماؤس کا اصل ورژن شامل ہے۔
بی بی سی آرکائیو کے ریکارڈ کے مطابق ’اس فلم کے آنے سے پہلے والٹ ڈزنی تباہی کے دہانے کے قریب سمجھا جا رہا تھا تاہملیکن اس وقت جو سوچ دماغ میں آئی اس نے زندگی کو بدل ڈالا۔‘
اینیمیٹڈ شارٹ فلم نے نہ صرف عالمی سطح پر ایک نیا رجحان متعارف کروایا بلکہ اس نے والٹ کے لیے نئی راہوں کا تعین کیا۔ ان کا یہ اقدام سینما کی ترقی کا وہ اہم لمحہ تھا، جس نے متحرک کارٹونوں کے ساتھ ان کی پہچان بن جانے والی آوازوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔
مکی ماؤس کی ریلیز کے وقت والٹ ڈزنی کو تباہی کا سامنا تھا۔ کمپنی نے اس وقت حال ہی میں اپنی مقبول تخلیق ’اوسوالڈ دی لکی ریبٹ‘ کے حقوق کھو دیے تھے اور ان کا زیادہ تر عملہ کارپوریٹ تنازعے کا شکار ہو گیا تھا۔
اس عرصے کے دوران فائنانس نہ ہونے کے سبب ڈزنی پر مایوسی غالب تھی۔ اس وقت ڈزنی نے اپنے اینی میٹرز، لیس کلارک اور اُب آئی ورکس، کو اپنے دماغ میں چلنے والے ایک آئیڈیا پر کام کرنے کے لیے تیار کیا جس میں ایک ہمدرد چوہا غلط مہم جوئی کے ایک سلسلے میں مزاحیہ انداز میں اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔
ابتدائی طور پر اس ماؤس کا نام ’مورٹیمر‘ رکھا گیا جس میں خودنمائی اور تکبر کا عنصر نمایاں تھا تاہم والٹ ڈزنی کی بیوی نے انھیں اس کریکٹر کا نام نسبتا دھیما اور نرم مزاج سمجھے جانے والے ’مکی ‘ میں تبدیل کرنے پر آمادہ کیا۔
ڈزنی کو طویل عرصے سے جانوروں کی فلم بنانے میں دلچسپی تو تھی ہی، اب مکی ماؤس کے لیے انھوں نے 1942 میں ’بامبی‘ بنانے سے پہلے اپنے فنکاروں کو جانوروں کی اناٹومی کلاس میں بھیجنے کی ٹھانی جس کی وضاحت انھوں نے 1959 کے بی بی سی کے اس خصوصی کلپ میں کی ہے۔
’میں نے ایک خصوصی کورس شروع کیا، اس کے لیے میں جانوروں کو سٹوڈیو میں اپنی آرٹ کی کلاسوں میں لایا۔ لائیو ماڈلز کے بجائے ہمارے پاس جانوروں کے ماڈل تھے۔‘
ڈزنی ایک ڈسٹری بیوٹر کو اپنے بنائے ہوئے پہلے دو مکی ماؤس کارٹون ریلیز کرنے پر آمادہ نہیں کر سکا جو بغیر آواز کے تھے۔
تاہم پھر ان کے دماغ سنکرونائزڈ ڈائیلاگ (آوازیں ریکارڈ کر کے ان کو کرداروں پر فٹ کرنے) والی فلم دی جاز سنگر سے متاثر ہو کر نئی سوچ نے جنم لیا۔ واضح رہے کہ سنکرونائزڈ ڈائیلاگ والی دی جاز سنگر نے 1927 میں امریکہ میں طوفان برپا کر دیا تھا۔
والٹ ڈزنی نے ایک ایسا کارٹون بنانے کا فیصلہ کیا جس میں سکرین پر دکھائے جانے والے ایکشن کو ایک پیچیدہ طریقے سے موسیقی اور صوتی اثرات کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔
سٹیم بوٹ ویلی کا نیویارک میں پریمیئر ہوا اور آوازوں کے ساتھ اس ایکشن کارٹون نے ہر جگہ کھلبلی مچا دی۔ جلد ہی پریس میں اس پر تبصریوں اور تجزیوں نے سہہ سرخیوں میں جگہ بنائی اور یوں لوگ اسے دیکھنے کے لیے جمع ہوگئے۔
ان جدید خطوط پر بنی اینیمیٹڈ سٹوری نے دیکھنے والوں کو خوب پرجوش کیا اور وہ اس کو بار بار دیکھنے کے لیے سینما کا رخ کرتے دکھائی دیے۔
ڈزنی نے کردار کی تیزی سے مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید تجربات کرنے کا فیصلہ کیا اور خود والٹ نےاپنےکردار مکی کی آواز فراہم کی۔
’قید میں موجود جانور وہ نہیں جیسے ان کی فطرت ہے‘Getty Images
سٹیم بوٹ ویلی کی کامیابی نے کارٹونوں کے ایک نئے دور کا آغاز کیا اور اس سے والٹ ڈزنی کا پوری انڈسٹری پر راج ہو گیا اور اسی دوران ڈزنی نے 1937 میں آسکر ایوارڈ یافتہ سنو وائٹ اور سیون ڈورفز(Snow White and the Seven Dwarfs) بنا کر اپنے نام کا جھنڈا گاڑ دیا۔
اس کے پانچ سال بعد جب بامبی بنانے کی بات آئی تو اس میں وہ زندہ جانوروں کو سٹوڈیو میں لانے کے ساتھ ساتھ جنگلی جانوروں کو بھی دیکھنا چاہتے تھے۔
انھوں نے 1959 میں بی بی سی کو انٹرویو میں کہا ’میں نے محسوس کیا کہ قید میں موجود جانور وہ نہیں جیسے ان کی فطرت ہے۔ آپ چڑیا گھر میں کسی جانور کو جو دیکھتے ہیں وہ حقیقت میں وہ نہیں ہوتا جیسے وہ اپنے قدرتی ماحول میں ہوتا ہے۔‘
’لہٰذا، میں نے کیمروں سے لیس اپنے عملے کو جنگلوں میں بھیجا تاکہ اس بات کو فلمایا جا سکے کہ ایک جانور دراصل اپنے طرز زندگی میں کیا کرتا ہے اور فنکاروں کے مطالعہ کے لیے بنائی گئی اس فلم میں میں نے محسوس کیا کہ وہاں ایک بہت اچھی کہانی تھی جو کبھی سامنے ہی نہیں لائی گئی۔‘
اس تجربے سے متاثر ہو کر انھوں نے دستاویزی فلموں کا ایک سلسلہ ’ٹرو لائف ایڈوینچر‘(True-Life Adventures) شروع کیا جس میں جنگل میں جانوروں کی زندگیوں کی ایک دلکش جھلک پیش کی گئی۔
اس میں ڈزنی کی فلم سازوں کی ٹیم نے ٹیکنالوجی اور اختراع کی حدود کو آگے بڑھایا۔ سٹوڈیو نے طویل فاصلے کے لینز اور پانی کے اندر کیمروں کے استعمال کا آغاز کیا، جس سے ناظرین کو جنگلی حیات کے رویے اور ماحولیاتی نظام کے پیچیدہ نظام کی بے مثال تفصیل سے متعلق جاننے کا موقع ملا۔
والٹ ڈزنی کی اس سیریز نے کئی اکیڈمی ایوارڈز جیتے جن میں 1954 میں دی لیونگ ڈیزرٹ کے لیے پہلی بار بہترین دستاویزی فلم کا آسکر ایوارڈ بھی شامل ہے۔
اس سیریز میں کہانیوں کے زریعے لوگوں کو آگاہی دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔
ڈزنی نے انڈسٹری میں اپنی تباہی سے راج کرنے تک کے سفر پر بات کرتے ہوئے کہا۔
’پچھلے چند سالوں میں، ہم نے بہت سے مختلف شعبوں میں قدم رکھا ہے۔ میں صرف امید کرتا ہوں کہ ہم کبھی بھی ایک چیز کو نظر انداز نہیں کریں گےکہ بلندیوں کا تمام سفر ایک چوہے سے شروع ہوا ہے۔‘