راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے احسن جمیل کی عمر تو صرف 29 سال ہے لیکن ایک ایسی بیماری ان کے گُردوں کو متاثر کر چکی تھی جس کا حل صرف ٹرانسپلانٹ کی صورت میں ممکن تھا۔
وہ تعلیم مکمل کر کے عملی زندگی میں داخل ہو رہے تھے کہ ان کے سر پر یہ افتاد آن پڑی تھی۔ ان کے والدین نے انھیں گردے عطیہ کرنے کی کوشش کی لیکن طبی بنیادوں پر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس وقت گھر میں میری شادی کی باتیں ہو رہی تھیں جب ڈاکٹر نے بتایا کہ میرے والدین کے گردے بھی مجھے نہیں لگ سکتے۔‘
احسن کا ہفتے میں تین دن ڈائلسز ہونے لگا، جو اب ایک سال سے انھیں زندہ رکھنے کے لیے ضرورت بن چکا تھا۔ پاکستان کے قوانین کو دیکھتے ہوئے اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔
’میری ماں رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اللہ کوئی معجزہ ہی کر دے۔۔۔‘
ایک طرف احسن اور ان کا خاندان تکلیف میں تھا تو دوسری جانب راولپنڈی ہی میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور سے تعلق رکھنے والی رفعت زرتاج کو برین ہیمرج کے باعث اچانک ہسپتال لایا گیا۔
کئی دن تک ایک نجی ہسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد ڈاکٹروں نے اعلان کیا کہ رفعت کا دماغ مردہ ہو چکا ہے، یعنی وہ برین ڈیڈ ہیں اور اب وہ صرف وینٹی لیڑ کے سہارے زندہ رہ سکتی ہیں جبکہ ان کے جسم کے باقی اعضا بھی کچھ دیر میں کام کرنا چھوڑ دیں گے۔
ہسپتال میں ان کے دو بھائی ڈاکٹر زاہد فاروق اور ڈاکٹر فہد اپنے بھانجے، تین بھانجیوں اور خاندان کے دیگر لوگوں کے ہمراہ موجود تھے۔
اس موقع پر ڈاکٹر زاہد فاروق کو معلوم تھا کہ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ رفعت کی جانب سے دس برس قبل کی گئی وصیت کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
یہ یقیناً ایک مشکل اور نازک لمحہ تھا، لیکن یہاں فوری ردِ عمل دینے کے باعث ہی احسن جمیل سمیت تین افراد کی زندگیاں بچنے والی تھیں۔
دس برس قبل رفعت نے یہ وصیت کی تھی کہ جب ان کی وفات ہو تو ان کے تمام اعضا عطیہ کر دیے جائیں۔ دس برس بعد ان کے اس ارادے کے باعث ان کے گردے 29 سالہ احسن جمیل اور 53 سالہ میجر رخسانہ کو عطیہ کیے گئے جبکہ ان کا جگر 39 سالہ عمر خیام کو پیوند کیا گیا۔
احسن اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مجھے سفاری ہسپتال بحریہ سے فون آیا کہ میں فوراً ہسپتال پہنچوں، جب ہسپتال پہنچا تو معلوم ہوا کہ کوئی مرتے ہوئے مجھے نئی زندگی دے گیا ہے۔‘
رفعت زرتاج کے اعضا جن افراد کو عطیہ کیے گئے وہ تینوں ہی اس وقت تیزی سے صحت یابی کی جانب گامزن ہیں۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن تھا۔
رفعت زرتاج کی اپنے اعضا عطیہ کرنے کی کہانی دس سال قبل شروع ہوتی ہے اور اس پر عملدرآمد بالکل بھی آسان کام نہیں تھا۔
’رفعت کی وصیت پر عملدرآمد کے لیے وقت کم تھا‘
رفعت کے بھائی ڈاکٹر فہد ایبٹ آباد ایوب میڈیکل کمپلیکس میں اینستھیزیا سپیشلسٹ ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تقریباً دس سال قبل میجر جنرل (ر) ڈاکٹر ارشد محمود، ان کے بھائی بریگیڈر ڈاکٹر زاہد فاروق اور کچھ اور ڈاکٹروں نے مل کر دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے انسانی اعضا عطیہ کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔
’اس مہم کے دوران مجھ سمیت تمام افراد نے اپنی زندگی میں اعضا عطیہ کرنے کی وصیت کی۔‘
اسی دوران رفعت زرتاج نے کچھ سوچنے کے بعد کہا کہ وہ بھی اعضا عطیہ کرنے کے حوالے سے وصیت کرنا چاہتی ہیں۔ رفعت نے یہ بات اپنے بچوں کے سامنے بھی کہی تاکہ وصیت پر عمل کروانے میں کوئی مسائل نہ ہو۔
دس برس بعد جب اسلام آباد میں اس روز رفعت زرتاج کے تمام ٹیسٹ مکمل ہو گئے اور ڈاکٹروں نے بتا دیا کہ ان کا دماغ مردہ ہو گیا ہے تو ’ہم سب کو علم تھا کہ اب ہمارے پاس وصیت پر عمل کروانے کے لیے وقت کم ہے کیونکہ اب جسم کے باقی اعضا آہستہ آہستہ مردہ ہو جائیں گے۔‘
رفعت زرتاج کی بڑی بیٹی ڈاکٹر درثمین نے بی بی سی کو بتایا کہ ہسپتال میں اس موقع پر ’ہم چاروں بہن بھائی ایک ساتھ بیٹھ گئے اور بات کی۔ چاروں نے کہا کہ ہمیں اپنی ماں کی وصیت یاد ہے، ہم نے فیصلہ کیا کہ وصیت پر عمل در آمد کروائیں گے۔۔۔ ہم تین بہنیں تو ڈاکٹر ہیں مگر ہمارے انجینیئر بھائی کو یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا سب کیسے ممکن ہوگا‘
بچوں سے اجازت ملنے کے بعد اعضا عطیہ کرنے کے لیے تیاریوں کا آغاز کر دیا گیا۔
جنرل (ر) ارشد محمود سفاری ہسپتال بحریہ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں اور وہ ماہر ٹرانسپلانٹ سمجھے جاتے ہیں۔ اس موقع پر بھی تمام ذمہ داریاں ان کے پاس تھیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سب سے اہم مسئلہ وقت کی کمی کا تھا۔
’سب سے پہلے جن کو پیوند کاری کرنا تھی ان کو تلاش کرنا تھا اور ان کے ٹیسٹ کر کے دیکھنا تھا کہ جن کے ساتھ یہ پیوند کاری کی جائے گئی ان کے جسم ان اعضا کو قبول کریں گے یا نہیں۔‘
ڈاکٹر میجر جنرل (ر) ارشد محمود کہتے ہیں کہ ’ہمیں جن کو گردوں کی پیوند کاری کرنا تھی وہ ہمیں راولپنڈی میں مل گے اور الشفا ہسپتال نے ہماری درخواست پر تمام ٹیسٹ بھی جلدی جلدی کر کے دے دیے۔‘
تاہم جگر حاصل کرنا اور پھر پیوند کاری کرنا ڈاکٹر فیصل سعود کی ذمہ داری تھی۔ انھوں نے لاہور سے اپنی ٹیم کے ہمراہ راولپنڈی-اسلام آباد کا سفر کرنا تھا۔ آپریشن والے دن طے ہوا تھا کہ ڈاکٹر فیصل سعود اپنی ٹیم کے ہمراہ ڈیڑھ دو بجے پہنچ جائیں گے اور جگر کا عطیہ لے کر واپس لاہور چلے جائیں گے۔
ڈاکٹر میجر جنرل (ر) ارشد محمود کا کہنا تھا کہ ’تمام انتظامات مکمل ہو گئے اور ڈاکٹر فہد ملٹری ہسپتال کے آئی سی یو ماہرین کے ہمراہ ہسپتال پہنچ گئے تھے، ڈاکٹر فیصل سعود نے انتہائی مہارت سے اپنے طے شدہ وقت کے اندر پینتالیس منٹ میں جگر کا عطیہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد میرا اور میری ٹیم کا نمبر تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دونوں گردے کوئی تیس منٹ میں حاصل کر لیے تھے۔ جس کے بعد ان کو متعلقہ لوگوں میں ان کی پیوندکاری بھی کر دی جبکہ ڈاکٹر فیصل سعود کو لاہور پہنچ کر اس کی پیوند کاری کرنا تھی۔
’تینوں افراد جن کو پیوند کاری ہوئی ہے، اس وقت رو بصحت ہیں اور وہ باقی ماندہ زندگی صحت مند گزار سکتے ہیں۔‘
اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن
ڈاکٹر ارشد محمود کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن تھا ’جس میں ہم نے ایک ہی عطیہ کرنے والے سے مختلف اعضا حاصل کیے تھے۔‘
ان کے مطابق اس سے قبل پاکستان میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا۔ ’اب اس کے جو نتائج آ رہے ہیں وہ انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ تینوں صحت مند زندگی گزاریں گے۔‘
ڈاکٹر ارشد محمود کا کہنا تھا کہ جب وہ آپریشن تھیڑ میں تھے تو وہاں پر سب ایک جذبے سے کام کر رہے تھے۔ ’شاید ہی وہاں پر موجود کوئی بندہ ایسا ہو گا جس کے دل میں مرحومہ کے لیے تشکر کے جذبات نہیں ہوں گے کیونکہ وہ پاکستان میں ایسی مثال قائم کرنے جا رہی تھیں جو اس سے پہلے موجود نہیں تھی۔‘
رفعت زرتاج کی بیٹی ڈاکٹر نور الہدی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے اپنی ماں کی زندگی میں نہیں پتا تھا کہ وہ اپنے دل کے اندر خدمت کا کتنا جذبہ رکھتی ہیں۔
’جب ہم ایبٹ آباد میں ان کی تدفین کے لیے موجود تھے تو لوگ ہمارے پاس تعزیت کے لیے آتے اور مجھے بتاتے کہ میری ماں اپنی زندگی میں ان کی کس طرح مدد کرتی تھیں۔‘
’اب رفعت کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘
ڈاکٹر فہد بتاتے ہیں کہ رفعت زرتاج ان سے تقریباً چودہ سال بڑی ہیں۔ ان کے والد فوج کے ریٹائرڈ کپتان ہیں جبکہ والدہ گھرداری کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ ضلع ہری پور کے گاؤں کاگ میں رہائش پذیر تھے۔ میری والدہ رفعت زرتاج کو تعلیم دلانا چاہتی تھیں اور رفعت خود بھی پڑھنا چاہتی تھیں۔ مگر ہمارے علاقے میں ایسا قابل قبول نہیں تھا۔‘
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’رفعت نے غالباً میٹرک پاس کیا تو خاندان کے سارے لوگ میرے والد کے پاس گئے اور کہا کہ اب اور نہیں پڑھانا۔ اگر پڑھایا تو ہمارا تعلق ختم ہو جائے گا، جس پر میرے والد نے کہا کہ تعلیم تو دلواؤں گا چاہے کچھ ہو جائے۔‘
رفعت زرتاج کی والدہ الطاف سلطانہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اپنی بیٹی کے جانے کا بہت دکھ ہے۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ اپنی لاڈلی بیٹی کے کالج کے لیے خاندان گاؤں سے شہر منتقل ہوا تھا۔
’اس کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا (جس کے لیے ہم) ساری برداری سے لڑ پڑے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے، میں ہر وقت یاد کرتی ہوں مگر جو کام اس نے کیا ہے، اس پر مجھے فخر ہے۔
’مجھے لگتا ہے کہ اس کو تعلیم دلوانے کے لیے جو ہم پوری قوم برداری کے ساتھ لڑ گئے تھے، اس کا پھل اس نے ہمیں اس طرح دیا ہے کہ اس کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔‘
اعضا کا عطیہ کون اور کس کو کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر ارشد محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انسانی اعضا کا عطیہ، پیوند کاری کے قوانین 2009/10 میں نافذ العمل ہوئے جن کے تحت آرگن ٹرانسپلائنٹ اتھارٹی قائم ہوئی۔
یہ قوانین بتاتے ہیں کہ اعضا کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی ہے اور کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا ہے اور ایسا کرنے والوں کے لیے مختلف سزائیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قوانین بتاتے ہیں کہ جن کی بھی پیوند کاری مقصود ہے، ان کو عطیہ کرنے والے لازمی طور پر اس کے بہن، بھائی یا ماں باپ ہونے چاہییں۔
’یعنی انتہائی قریبی رشتہ دار بھی عطیہ کرتے وقت قانون کے مطابق اپنی رضا مندی ظاہر کریں گے۔‘
ڈاکٹر ارشد محمود کا کہنا تھا کہ ’قریبی رشتہ دار یعنی کزن، چچا، ماموں وغیرہ سے مخصوص حالات کے اندر انسانی اعضا عطیہ لینے کی اجازت ہے۔
’اس میں بڑا واضح بتانا پڑے گا کہ کیوں انتہائی قریبی رشتہ ماں باپ، بہن بھائی نہیں دے رہے یا نہیں دے سکتے اور قریبی رشتہ دار کزن، چچا ماموں وغیرہ کیوں دے رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چالیس سال سے کم عمر کے لیے یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ کسی سے بھی عطیہ لے سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے بھی عطیہ دینے والے کی قانون کے مطابق رضا مندی لی جاتی ہے۔
’دیکھا جاتا ہے کہ ایسا کسی مجبوری، دباؤ، پیسے کے لالچ میں تو نہیں ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ معالج کا سرٹیفکیٹ بھی لازم ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ کوئی اپنی زندگی میں قانون کے مطابق وصیت کر دے جیسے رفعت نے کی تھی تو ایسے میں یہ ہوتا ہے کہ اس وقت دیکھا جاتا ہے کہ کوئی عطیہ لینے والا موجود ہے کہ جس کے ساتھ اعضا کی پیوند کاری ممکن ہو سکتی ہے کہ نہیں۔‘
ڈاکٹرارشد محمود کا کہنا تھا کہ ’یورپ میں اس حوالے سے قوانین بہت واضح ہیں۔ وہاں پر کچھ ممالک میں یہ قوانین بھی موجود ہیں کہ اگر کوئی ایسا موقع ہو جس میں اعضا عطیہ کیے جا سکتے ہوں تو لواحقیقن کی خواہش پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کچھ اور قوانین بھی موجود ہیں۔‘
ڈاکٹر ارشد محمود کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی زندگی میں کئی ٹرانسپلائنٹ کیے ہیں جس میں بہت زیادہ کامیاب ہیں مگر تجربے میں ہے کہ جو غیر قانونی ٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں ان سے اکثر فائدہ نہیں ہوتا ہے۔
’غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ مکمل سہولتیں ہوں۔ جس سے نہ صرف یہ کہ عطیہ دینے والے بلکہ لینے والے دونوں مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اکثر اوقات ایسے ٹرانسپلائنٹ کے بعد عطیہ دینے اور لینے والے ہمارے پاس مختلف مسائل لے کر آتے ہیں جبکہ دوسری جو ٹرانسپلائنٹ قانونی طور پر ہوتے ہیں ان میں بہت ہی کم مسائل دیکھنے میں آئے ہیں اور اکثریتی تعداد میں دونوں پرسکون اور بہترین زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں انسانی اعضا عطیہ نہ کرنے کا زیادہ شعور نہ ہونے کی بنا پر اس کے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
’اس وقت ہزاروں لوگ ڈائیلسز پر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہفتے میں ایک، دو یا تین مرتبہ ڈائیلسز ہوتا ہے تو یہ لوگ اپنی عملی زندگی میں کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔
’ان میں بڑی تعداد جوانوں کی ہوتی ہے۔ ان کو اگر عطیہ مل جائے تو معاشرے کے کارآمد فرد بن سکتے ہیں، نئی زندگی مل سکتے ہے۔‘
ڈاکٹر ارشد محمود کا کہنا تھا کہ ’اس کے لیے ہم لوگ برسوں سے مہم چلا رہے ہیں اور اب رفعت کی جانب سے کیا گیا عطیہ کی وجہ سے امید کر سکتے ہیں پاکستان میں بھی لوگ آگے بڑھیں گے اور دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے عطیات کریں گے۔‘