آئرلینڈ کا پہلا سیٹلائٹ کامیابی کے ساتھ خلا میں بھیجے جانے کے بعد محققین کو اب دیگر نوجوان سائنس دانوں سے بھی امید بندھ چلی ہے کہ وہ اس کامیابی سے متاثر ہو کر اِس شعبے میں سامنے آئیں گے۔
یہ تجربہ یونیورسٹی کالج ڈبلن کے طلبہ نے یورپی خلائی ایجنسی کے تعاون سے کیا تھا جس میں ’ایرسیٹ ون‘ (EIRSAT-1) ایک دو یونٹ والے کیوب سیٹ پر مبنی ہے جس کے لیے تین تجربات کیے گئے۔
اس منصوبے کو آئرلینڈ کے تیزی سے ابھرتے ہوئے خلائی شعبے کے لیے ایک ’اہم سنگ میل‘ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
اس سٹیلائٹ کو جمعے کی شام امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے ویلنبرگ ایئربیس سے خلا میں بھیجا گیا۔
یونیورسٹی کالج ڈبلن کے طلبا کا یہ فلیگ شپ منصوبہ آئرش ریپبلک کا پہلا سیٹلائٹ تجربہ ہے۔ اس منصوبے میں مجموعی طور پر 50 سے زیادہ طلبا شامل تھے، جن میں نو پی ایچ ڈی امیدواروں نے بھی حصہ لیا۔
یہی نہیں بلکہ اس میں نہ صرف طبیعیات کے شعبے سے بلکہ ریاضی، مکینیکل اور کمپیوٹر سائنس کی ڈگری پروگرام کے طلبہ بھی شامل رہے۔
سیٹلائٹ کی روانگی کے کامیاب تجربے کے لیے مجموعی طور پر 20 ہزار گھنٹے صرف ہوئے جس میں مشکلات کے حل سے لے کر ٹیسٹنگ کا دورانیہ شامل ہے۔
چھوٹا مگر طاقتور
اس تجربے میں شامل ٹیسٹنگ اور آپریشنز کے ذمہ دار پی ایچ ڈی کے طالب علم کان ڈی برا کے مطابق سیٹلائٹ کا حجم تو دودھ کے ایک ڈبے سے زیادہ بڑا نہیں تاہم اس کی طاقت کا کوئی ثانی نہیں۔
کان ڈی بارا نے سیٹیلائیٹ کی لانچ سے پہلے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’یہ سیکھنے کا بہت بڑا موقع رہا۔ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ سیٹیلائٹ کیسے بنانا اورلانچ کرنا ہے۔‘
انھوں نے لانچ کو ایک بہت بڑا اور پیچیدہ منصوبے کے طور پر بیان کیا، جس نے ان لوگوں کو ایک ایسی منفرد مہارت سیکھنے کی صلاحیت سے ہمکنار کیا جو اب فیلڈ میں کریئر شروع کر نے والے دیگر نوجوانوں کو رہنمائی اور مہارت منتقل کر سکیں گے۔
ڈی برا کو یقین ہے کہ ایر سیٹ ون کی کامیابی نہ صرف نوجوانوں کو متاثر کرے گی بلکہ آئرلینڈ کی خلائی صنعت کو آگے لے جانے میں مددگار رہے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نئی نسل تک اس یقین کو پہچانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یونیورسٹی کالج آف ڈبلن میں نوجوان سائنسدانوں کے لیے تحقیق کے ان گنت مواقع موجود ہیں۔‘
ایر سیٹ ون دراصل یورپیئن سپیس ایجنسی کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس میں یونیورسٹی کے طلبہ کو جامع تربیت، رہنمائی، اور پیشہ ورانہ سیٹلائٹ پروجیکٹ کے مکمل لائف سائیکل کے لیے رہنمائی فراہم کی جاتی ہے، جس میں ڈیزائن اور تعمیر سے لے کر جانچ، آپریشن اور اڑان کے مراحل شامل ہیں۔
اس سیٹلائیٹ کی اڑان کے لیے بھی یورپیئن سپیس ایجنسی کا تعاون شامل رہا۔
ای ایس اے کے ڈی جی جوزف ایش باکر نے اس موقع پر ٹیم میں شامل تمام افراد کو مبارکباد پیش کی۔
انھوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’میں اس کامیاب لانچنگ اور مدار میں آئرلینڈ کی پہلی دلچسپ مہم جوئی کے آغاز پر ائیر سیٹ ون کی پوری ٹیم کو تہہ دل سے مبارکباد دیتا ہوں۔‘
جوزف باکر نے مزید کہا کہ ’میں یورپیئن سپیس ایجنسی کے ساتھ یونیورسٹی کالج ڈبلن کی شمولیت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنھوں نے ایک مشترکہ تعلیمی مقصد کے لیے مل کر کام کیا جس سے نوجوان نسل کی مہارتوں کو بڑھانے میں مدد ملی ہے۔‘
ان کے مطابق ’اپنی صلاحیت کو بڑھا کر ہی ہم آئرلینڈ اور یورپ کے لیے اپنے خلائی عزائم کو حقیقت میں ڈھال سکتے ہیں۔‘
سیٹیلائٹ کی اڑان کے بعد یونیورسٹی کالج ڈبلن کے خلائی تحقیق کے شعبے کے منیجر ڈاکٹر رونن وال نے بھی اس کامیاب تجربے کو آئرلینڈ کے لیے قابل فخر قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے ناقابل یقین حد تک اطمینان بخش اور جوش خوشی کا باعث ہے کہ اس تجربے کے بعد آخر کار ہم خلائی) تحقیق اور جستجو میں یورپ اور دنیا بھر میں دیگر اقوام کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔‘
اس حوالے سے ایک ترجمان نے بتایا کہ ’ایر سیٹ ون پروجیکٹ کے ابتدائی مراحل میں کوئینز یونیورسٹی بیلفاسٹ کی ایک متحرک ٹیم نے بھی یونیورسٹی کالج ڈبلن کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اہم کردار ادا کیا۔‘
ان کے مطابق کوئینز یونیورسٹی بیلفاسٹ کی اس تحقیق اور تجربے میں شمولیت کا مقصد بنیادی طور پر سیٹلائٹ کے مکینیکل اور تھرمل ڈیزائن کو سپورٹ کرنا تھا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ’یہ تعاون ایرسیٹ ون کی بنیاد ڈالنے میں اہم کردار کا حامل رہا جس نے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں آئرلینڈ کے پہلے منصوبے میں اہم شراکت کی۔‘
اہم سنگ میل
گذشتہ سال اس منصوبے کو سرکاری خلائی مشن کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے آئرش حکومت نے اسے ریاست کی بڑھتی ہوئی خلائی صنعت کے لیے ایک ’ایک اہم سنگ میل‘ قرار دیا تھا۔
انٹرپرائز ڈیپارٹمنٹ کے وزیر مملکت نیل رچمنڈ نے یونیورسٹی کالج ڈبلن کی انتظامیہ اور طلبہ کی ٹیم کو مبارک باد دیتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’آج یہاں ایک تاریخ رقم ہوئی ہے، جس نے بھی آئرلینڈ اور اس کے خلائی شعبے کے لیے اس سنگ میل میں کردار ادا کیا ان سب کو اس پر فخر ہونا چاہیے۔‘
یونیورسٹی کالج ڈبلن کی ڈائریکٹر پروفیسر لورین ہینلون نے اس کامیابی پر کہا کہ آئرلینڈ کی جانب سے سٹیلایئٹ کی اس اڑان سے خلا میں سنسنی خیز نتائج سامنے آئے، جس میں نوجوانوں کی ٹیم نے جہاں قابلِ ستائش تحقیق میں نمائندگی کی وہیں ں آئرلینڈ کی خلائی صنعت نے بھی بھرپور تعاون کیا۔
ان کے مطابق ’اس کے بعداب اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم اپنے نئے خلائی جہاز کو آپریٹ کرنے کے عادی ہوں اور اس سے متعلق زیادہ سے زیادہ تحقیق اور تربیت حاصل کریں۔‘
ان تجربات میں سے ایک ’جی ایم او ڈی‘ گاما رے برسٹ ڈیٹیکٹر ہے، جو کائنات کے کچھ انتہائی زوردار دھماکوں کی تحقیقات کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
محققین کا مشاہدہ کرنے والی شعائیں مختلف ذرائع سے پیدا ہو سکتی ہیں، جیسے ستاروں کا اپنی زندگی کے اختتام پر پھٹنے یا بلیک ہولز کا ضم ہونا۔
ایر سیٹ ون خلا میں سیٹلائٹ کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آن بورڈ نیویگیشن سسٹم کے ٹیسٹس بھی کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ طلبہ اب سیٹلائٹ سے ڈیٹا رپورٹس ملنے اور اپنی تحقیق جاری رکھنے کے لیے انتہائی پرجوش ہیں۔
ڈی برا کا کہنا تھا کہ ’ہم اس لانچ کے بارے میں انتہائی پرجوش ہیں، اور سیٹیلائٹ سے رابطہ قائم کرنے کے منتظر ہیں۔‘