Getty Images
پاکستانی آل راؤنڈر عماد وسیم کی جانب سے گذشتہ روز تمام فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد سے کرکٹ پر بحث تقسیم کا شکار ہے۔
عماد وسیم اس وقت 34 برس کے ہیں اور انھوں نے بطور لیفٹ آرم آف سپنر اور بائیں ہاتھ کے بلے باز 55 ون ڈے اور 66 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔
اس دوران ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں وہ زیادہ کامیاب بولر ثابت ہوئے اور انھوں نے اس فارمیٹ میں 21 کی اوسط سے 65 وکٹیں حاصل کیں۔ عماد کی بلے بازی میں بھی وقت کے ساتھ بہتری دیکھنے کو مل رہی تھی اور ان کا دنیا بھر کی لیگز کھیلنے کا تجربہ بھی بہت زیادہ رہا ہے۔
اپنے الوداعی پیغام میں عماد وسیم کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ تمام 121 میچ ہی ’خواب کی تعبیر تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں گذشتہ کئی روز سے اپنے بین الاقوامی کیریئر کے بارے میں سوچ بچار کر رہا تھا اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہی ریٹائر ہونے کا صحیح موقع ہے۔‘
خیال رہے کہ عماد وسیم نے اپنا آخری ون ڈے میچ نومبر، 2020 میں کھیلا تھا۔ جبکہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں وہ پاکستان کی ٹیم سے سنہ 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد سے باہر ہو گئے تھے اور انھیں رواں برس کے آغاز میں پی ایس ایل میں بہترین کارکردگی کے بعد نیوزی لینڈ اور افغانستان کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔
https://twitter.com/simadwasim/status/1728062157043220633?t=NuW3D3PyvRxilzAj7YODCA&s=08
Getty Imagesسنہ 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں عماد وسیم کی 49 ناٹ آؤٹ کی اننگز کی بدولت پاکستان کو فتح حاصل ہوئی تھی۔
اس عرصے کے دوران لیفٹ آرم آف سپنر محمد نواز پاکستان کی ٹیم کا مستقل حصہ بن گئے تھے اور یوں عماد وسیم کو طویل عرصے کے لیے ٹیم سے باہر کر دیا گیا۔
عماد وسیم نے اس دوران بین الاقوامی سطح پر ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹس کھیلنا شروع کیے اور وہ پی ایس ایل میں کراچی کنگز کی کپتانی کے ساتھ ساتھ کیریبیئن پریمیئر لیگ، لنکا پریمیئر لیگ اور بنگلہ دیش پریمیئر لیگ سمیت دیگر لیگز کا بھی حصہ رہے۔
عماد نے رواں ماہ اختتام پذیر ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ سے قبل بھی اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ ون ڈے فارمیٹ میں کھیلنے کے لیے تیار ہیں اور وہ ورلڈ کپ کے لیے دستیاب ہوں گے۔
تاہم ورلڈ کپ کے لیے ایک بار پھر محمد نواز ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ عماد وسیم ورلڈکپ کے دوران نجی ٹی وی چینل جیو نیوز پر بطور تجزیہ کار تبصرے کرتے رہے۔
اس دوران جب ڈومیسٹک ون ڈے کپ کا آغاز ہوا، اے سپورٹس کے پروگرام دی پویلین پر بات کرتے ہوئے، سابق کپتان وسیم اکرم نے سوال کیا کہ کچھ کھلاڑی اس ٹورنامنٹ میں کھیلنے کی بجائے ٹی وی پر بیٹھ کر تجزیے کیوں کر رہے ہیں۔
اس پر عماد وسیم نے بعد میں جواب دیا کہ ’جب میں پاکستان کے لیے کھیل رہا تھا تو میں آل راؤنڈرز کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر تھا اور پھر مجھے کسی بھی وجہ کے بغیر ڈراپ کر دیا گیا۔
’مجھے بتائیں کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اب اگر میں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلوں تو مجھے ٹیم میں شامل کر لیا جائے گا۔ جس نے بھی یہ بات کی ہے، اگر مجھے کبھی مشورہ چاہیے ہو گا تو میں آپ کو خود کال کر لوں گا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دو برس قبل مجھے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کا کہا گیا تھا، آپ میری کارکردگی دیکھ سکتے ہیں۔ پھر بھی مجھے سیلیکٹ نہیں کیا گیا، تو اس لیے اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔‘
Getty Imagesعماد وسیم سنہ 2017 کی پاکستانی چیمپیئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔
عماد وسیم کی جانب سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ سیلیکٹر وہاب ریاض کی جانب سے پاکستان کی آسٹریلیا سیریز کے لیے ٹیم کے اعلان کے چار روز بعد سامنے آیا ہے۔ اس پریس کانفرنس کے دوران وہاب ریاض نے حارث رؤف کو آڑے ہاتھوں لیا تھا کیونکہ ان کے مطابق حارث حامی بھرنے کے بعد پیچھے ہٹ گئے تھے۔
حارث رؤف کی جانب سے باضابطہ طورپر اس حوالے سے ردِ عمل نہیں دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ حارث آسٹریلیا میں بگ بیش لیگ کے لیے بھی میلبرن سٹارز کی ٹیم کا حصہ ہیں۔
اس پریس کانفرنس کے دوران چیف سیلیکٹر وہاب ریاض کا یہ بیان بھی معنی خیز تھا کہ ’جو لڑکے پاکستان کو ترجیح دیں گے، ہماری فہرست میں پہلے ان کو ترجیح دی جائے گی۔
’یہ فرق نہیں پڑتا کہ کون کتنا بڑا کھلاڑی ہے لیکن اگر پاکستان کے لیے کھیلنے کو ترجیح نہیں دیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہ آئندہ ہمارے پلانز میں بھی آپ کو نظر نہ آئے۔‘
تاحال بگ بیش کھیلنے والے تین پاکستانی بولرز حارث رؤف، اسامہ میر اور زمان خان کو پی سی بی کی جانب سے این او سی نہیں دیا گیا ہے۔ اس لیگ کا آغاز 13 دسمبر سے ہونے جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر اکثر افراد کا خیال ہے کہ عماد وسیم کیونکہ پی سی بی کے کانٹریکٹڈ کھلاڑیوں کی بی کیٹیگری میں شامل ہیں اور پی سی بی کی جانب سے کھلاڑیوں پر ایک سال میں دو سے زیادہ لیگز نہ کھیلنے کی پابندی عائد ہے اس لیے انھوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم سابق کپتان راشد لطیف سمیت اکثر افراد یہ سمجھتے ہیں کہ عماد اس وقت ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان کے بہترین بولر اور انھیں ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ کی جانب سے منانے کی ضرورت اور وہ پاکستان کے لیے آئندہ برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
https://twitter.com/iRashidLatif68/status/1728328919357772254?t=C1HxWhDTEcZY9Vocdx50rQ&s=19
راشد لطیف کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’عماد وسیم کو ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لینی چاہیے۔ پاکستان ٹیم کا سب سے اچھا سپن باولر عماد ہی ہے اور بیٹنگ میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
’ورلڈ کپ میں اگر ٹیم کا سب سے کارآمد کھلاڑی نہیں ہو گا تو اس میں عماد کا نقصان نہیں اس میں پاکستان کا نقصان ہے۔ محمد حفیظ کو چاہیے کے وہ عماد کو واپس لے کر آئیں۔ اگر لیگز کھیلنی ہیں تو سینٹرل کانٹریکٹ سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن پاکستان ٹیم کے لیے اپنے آپ کو دستیاب رکھیں۔‘
اس پر کچھ صارفین نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ اس طرح تو کھلاڑی لیگز کو فوقیت دیتے ہوئے یہ معمول بھی بنا سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ پی سی بی کی جانب سے اس سال کھلاڑیوں کے کانٹریکٹس میں تبدیلی لائی گئی تھی جس کے تحت اب کھلاڑیوں کو زیادہ رقم دی جا رہی ہے۔
محمد حفیظ کی جانب سے ایک ٹویٹ میں عماد وسیم کا شکریہ ادا کیا گیا ہے اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا ہے۔
https://twitter.com/iMShami_/status/1728064805716869408?t=ZScgYllZN_cHnQOsavx3Rg&s=08
تاہم اب بھی یہ تنخواہ باقی ممالک کے کھلاڑیوں سے بہت کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ کھلاڑی دیگر ٹی ٹوئنٹی لیگز کو ترجیح دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
اکثر صارفین عماد وسیم کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور ان کی جانب سے کھیلی گئی میچ وننگ اننگز کا تذکرہ کر رہے ہیں جن میں سے ایک ورلڈ کپ 2019 میں افغانستان کے خلاف 49 ناٹ آؤٹ کی اننگز بھی ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’عماد وسیم کو اپنی ٹرن کا انتظار کرنا چاہیے تھا اور سنہ 2024 کے ٹی ٹؤنٹی ورلڈ کپ میں ہونا ضروری تھا۔‘ اس کے علاوہ ان کی نپی تلی لیفٹ آرم آف سپن بولنگ کا بھی ذکر کر رہے ہیں۔
کچھ صارفین بابر اعظم پر ان کو نہ سلیکٹ کرنے کے حوالے سے بھی تنقید کر رہے ہیں جب کچھ صارفین عماد وسیم کو پاکستان کرکٹ پر دیگر لیگز کو فوقیت دینے کی بات کر رہے ہیں۔
تاہم یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ جب وفاق میں فروری کے انتخابات کے بعد نئی حکومت آئے گی تو چیئرمین پی سی بی بدلنے کی صورت میں عماد کو یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایسا ہو گا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن فی الحال آئندہ برس کے آغاز میں نیوزی لینڈ کے ساتھ پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کم از کم عماد وسیم موجود نہیں ہوں گے۔