پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار: کیا تحریک انصاف عام انتخابات میں ’بلا‘ چلا پائے گی؟

بی بی سی اردو  |  Nov 23, 2023

Getty Images

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق فیصلے کے بعد عام انتخابات سے کچھ ہی عرصہ قبل پہلے سے ہی مشکلات کا سامنا کرتی ملک کی اہم سیاسی جماعت کو ایک اور مشکل کا سامنا ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف بیس دن میں جماعتی انتخابات ازسرنو کروانے میں ناکام رہی تو اس صورت میں اسے اپنے انتخابی نشان یعنی بلے سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔

تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد فوری ردعمل میں عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ عدالتی راستہ اختیار کرتے ہوئے اسے چیلنج کرے گی جبکہ دوسری جانب پارٹی کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ وہ انٹرا پارٹی انتخابات کا بروقت انعقاد کروانے اور عام انتخابات میں بلے کو چلانے میں کامیاب رہے گی۔

تاہم دوسری جانب تجزیہ کاروں کی جانب سے سوال کیا جا رہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں جب پارٹی کے اہم رہنما جیل میں یا روپوش ہیں، انٹرا پارٹی انتخابات کروانا کس حد تک ممکن ہو سکے گا؟

اس سوال کا جواب جاننے سے قبل یہ جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کیا ہے؟

تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کی رپورٹ ’شکوک و شبہات سے بھرپور‘ قرار

الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی 20 روز میں انتخابات نہیں کرواتی تو وہ اپنے انتخابی نشان یعنی بلے سے محروم ہو جائے گی اور ان کے امیدوار عام انتخابات میں اس نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکیں گے۔

یہ تحریری فیصلہ الیکشن کمیشن کے رکن جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ خان نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا کہ جون 2022 میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق جو رپورٹ کمیشن میں جمع کروائی گئی تھی وہ تنازعات اور شکوک و شہبات سے بھرپور تھی۔

اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے پارٹی آئین سنہ 2017 کے مطابق تمام پارٹی عہدیداران چار سال کے لیے منتخب ہوئے جن کی مدت 13 جون 2021 کو ختم ہو گئی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 24 مئی 2021 کو انٹرا پارٹی انتخابات کی یاد دہانی کے لیے نوٹس بھیجا تھا تاہم پاکستان تحریک انصاف صاف و شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کسی صورت قبول نہیں کیے جا سکتے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف مقررہ وقت میں ایک سال کی توسیع کے باوجود شفاف انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔

واضح رہے کہ 13 جون سنہ 2021 سے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشنالتوا کا شکار تھے۔

آٹھ جون 2022 کو پی ٹی آئی نے پارٹی آئین 2019 میں ترمیم کی اور 10 جون 2022 کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرونے کے بعد منتخب ممبران کی لسٹ (سرٹیفیکیٹ) الیکشن کمیشن میں جمع کروائی۔

Getty Imagesانٹرا پارٹی الیکشن کا تنازع کیوں پیدا ہوا؟

انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کے بعد 2022 میں ہی پی ٹی آئی کے پارٹی آئین میں ایک بار پھر ترمیم کی گئی اور پی ٹی آئی کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جمال انصاری نے الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ ہم نے آئین میں تبدیلی کی ہے۔

تاہم بعد میں پارٹی کے وکیل بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن میں موقف اپنایا کہ پارٹی آئین میں ترامیم واپس لی جا چکی ہیں اور ایک نیا سرٹیفیکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروایا گیا۔

الیکشن کمیشن کے چار ارکان پر مشتمل بینچ نے اس سرٹیفیکیٹ سے اتفاق نہیں کیا اور پی ٹی آئی کے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے علاوہ 16 دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی شوکاز نوٹس جاری کیے تھے جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ شوکاز کا جواب نہ ملنے کی صورت میں الیکشن کمیشن انتخابی نشانات الاٹ نہیں کرے گا۔

الیکشن کمیشن نےسیاسی پارٹیوں کو انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے اور الیکشن ایکٹ کی دفعات 209 اور 210 کی خلاف ورزی پر زیر دفعہ 215(4) کے تحت شو کاز نوٹس جاری کیے تھے۔

Getty Imagesفائل فوٹوفیصلے میں تاخیر ’سوچی سمجھی سازش ہے‘

تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلہ سامنے آنے کے بعد اپنے ردعمل میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ ادارے کے مسلسل متعصبانہ رویے کے تناظر میں توقعات کےعین مطابق ثابت ہوا۔‘

تحریک انصاف کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’الیکشن کمیشن نے بارہا درخواستوں کے باوجود انٹرا پارٹی انتخاب کے معاملے کو ایک مخصوص مقصد کے تحت بلاجواز التوا کا شکار کیے رکھا۔‘

ترجمان تحریک انصاف کے مطابق الیکشن کمیشن کے فیصلے نے ’پی ٹی آئی اور بالخصوص چئیرمین عمران خان کو انتخابات سے باہر رکھنے کی ریاستی سازش ایک بار پھر بے نقاب کر دی۔‘

تاہم پارٹی کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا؟

ترجمان کے مطابق ’الیکشن کمیشن کے فیصلے کا جائزہ لینے کے بعد آئینی قانونی اور سیاسی راستوں سے اس کے خلاف بھرپور چارہ جوئی کی جائے گی اور انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے چئیرمین عمران خان کی ہدایات کی روشنی میں کور کمیٹی آئندہ لائحہ عمل طے کرے گی۔‘

پی ٹی آئی کے مطابق ’الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں بلا تحریک انصاف کا انتخابی نشان تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔‘

اسی طرح ترجمان تحریک انصاف کے مطابق ’عمران خان چئیرمین پی ٹی آئی تھے ، چئیرمین پی ٹی آئی ہیں اورتاحیات چئیرمین پی ٹی آئی رہیں گے۔‘

اس مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے وکیل بیرسٹر گوہر کے مطابق ’الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ پارٹی کی کور کمیٹی میں پیش کیا جائے گا جس کے بعد الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ ہو گا۔‘

’پی ٹی آئی رہنماؤں کو مدعو کرتے ہیں تو انکار کر دیتے ہیں‘

تحریک انصاف کا موقف اپنی جگہ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ موجودہ صورت حال میں اگر قانونی راستے سے ریلیف نہ ملا تو بلے کا نشان برقرار رکھنے کے لیے کیا انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد ممکن ہو گا؟

وہ بھی ایسی صورت حال میں جس میں سیاسی جماعتوں اور انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق جب ان کا ادارہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں منعقد ’کسی سیمینار میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں یا عہدیداروں کو مدعو کرتا ہے تو وہ سمینار میں شرکت سے انکار کر دیتے ہیں۔‘

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’اگر موجودہ حالات کو مدنظر رکھیں تو جو بھی انٹرا پارٹی انتحابات میں حصہ لے گا اس کو یہ اقدام بڑا سوچ سمجھ کر اٹھانا ہو گا کیونکہ لوگوں کو معلوم ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں سے کیسا سلوک ہو رہا ہے اور انھیں خدشہ ہے کہ کسی بھی عہدے کا امیدوار ہونے پر ان کے خلاف ممکنہ طور پر کوئی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔‘

تاہم ان کا ماننا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے انٹرا پارٹی الیکشن پر عمل درآمد کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

’پی ٹی آئی کے آئین میں ترمیم کے بعد اگر عہدیداروں کا انتخاب نیشنل کونسل نے کرنا ہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ کونسل کے ارکان کی تعداد دو سو سے تین سو کے درمیان ہے۔‘

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر کسی عہدے کے لیے کسی ایک امیدوار کے خلاف کوئی دوسرا امیدوار نہ ہو تو اس کو کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے جس کے بعد اس کے بھی امکانات ہوتے ہیں کہ عدالت الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کر دے۔‘

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’اگر اعلٰی عدلیہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھے تو اس جماعت کے امیدواروں کو یہ نقصان ہو گا کہ وہ پارٹی کا انتخابی نشان نہیں لے سکیں گے اور اس جماعت کے امیدواروں کو عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سےالگ الگ نشان آلاٹ کیے جائیں گے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More