Getty Images
نریندر مودی سٹیڈیم میں سوا لاکھ سے زیادہ لوگ موجود تھے مگر سکوت کا وہ عالم تھا کہ بقول ن م راشد، گویا کسی شہرِ مدفون پہ وقت گزر رہا ہو۔ پیٹ کمنز کا عزم حقیقت میں ڈھل رہا تھا اور احمد آباد کے تماشائی اپنے دلوں کے ارماں آنکھوں کی نمی میں لپیٹ رہے تھے۔
حالانکہ کوئی صورت نہیں تھی کہ روہت شرما کی یہ ٹیم ہوم گراؤنڈ پہ، ہوم کراؤڈ کے سامنے، اپنی مرضی کی پچ پہ، یہ معرکہ ہار جاتی۔ یہ ٹیم اس ایونٹ میں پہلے دن سے ناقابلِ شکست چلی آ رہی تھی اور بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ سبھی شعبوں میں ناقابلِ تسخیر تھی۔
اور پھر جب ٹورنامنٹ میں پہلی بار ٹاس ہارنے کا جھٹکا لگا تو بھی کمنز نے روہت کے دل کی مراد پوری کرتے ہوئے پہلے بیٹنگ کی پیشکش کر ڈالی۔ انڈیا خود بھی پہلے بیٹنگ ہی کرنا چاہتا تھا۔ تو پھر پیچھے بچا کیا تھا جو اس ٹیم کو ٹرافی اٹھانے سے روک پاتا؟
روہت شرما نے پاور پلے کا آغاز بھی اسی معمول کی جارحیت سے کیا جو وہ اس ورلڈ کپ میں کرتے چلے آئے ہیں۔ ان سست پچز پہ رنز بٹورنے کا بہترین وقت وہی ہوتا ہے جب گیند نئی ہو اور فیلڈرز دائرے کے اندر محدود ہوں۔ روہت کی بے غرض اننگز کے بعد جیت کا رستہ لگ بھگ ہموار ہو چلا تھا۔
Getty Images
مگر یہاں مقابلہ فارم اور تکنیک کا نہیں، تحمل کا تھا۔ یہ جنگ اعصاب کی تھی اور آسٹریلوی بولنگ یونٹ کے اعصاب قوی تر ثابت ہوئے۔ بطور بولر پیٹ کمنز کے لیے یہ ٹورنامنٹ قطعی خوش کن نہیں رہا مگر اس اہم ترین موقعے پہ ان کا عزم جواں نکلا۔
بطور کپتان بھی کمنز کے لیے یہ فارمیٹ نیا تھا اور اس سے پیشتر کئی اہم مواقع پہ ان کی قائدانہ صلاحیتیں اوسط ثابت ہو چکی تھیں۔
مگر انھوں نے بھی اپنا بہترین اسی دن کے لیے بچا کر رکھا تھا اور استعمال شدہ پچ کی خشکی کا فائدہ تب اپنے جز وقتی بولرز سے اٹھایا جب وراٹ کوہلی اور کے ایل راہول کسی ایک بولر کو ہدف بنانے کی سوچ رہے تھے۔
حالانکہ اگر انڈیا پاکستان کے خلاف اسی پچ پہ اپنے میچ سے ہی کوئی سبق سیکھ پاتا تو یقیناً مار دھاڑ کے لیے آخری پندرہ اوورز کا منتظر نہ رہتا اور جو آغاز روہت شرما نے فراہم کیا تھا، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیچ کے اوورز میں مثبت کرکٹ کھیلتا۔ کیونکہ یہ واضح تھا کہ جونہی گیند پرانا ہوا، ہلکی سی ریورس سوئنگ آئی، باؤنڈریز بٹورنا کارِ دشوار ہو رہے گا۔
لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر انڈیا یہاں 30، 40 رنز اور جوڑ بھی پاتا تو کیا اس مدافعانہ قیادت اور بولنگ کے ساتھ اس کا دفاع کر پاتا؟
اس بولنگ اٹیک کی بہترین قوت محمد شامی رہے ہیں جو عموماً پہلے پاور پلے کے بعد قدرے استعمال شدہ گیند اور دائرے سے باہر اضافی فیلڈرز کے ہمراہ نہایت موثر ثابت ہوتے آئے ہیں۔ بہرحال نئی گیند پہ گرفت برقرار رکھنا ایک الگ ہنر ہے اور اس کے لیے بہت ریاضت درکار ہوا کرتی ہے۔
مگر یہاں اہم ترین معرکے میں قلیل ترین ہدف کے دفاع کو نئی گیند محمد شامی کے حوالے کر دی گئی۔ شماریاتی اعتبار سے روہت شرما کا یہ فیصلہ قابلِ توجیہہ ہو سکتا ہے کہ دو بائیں ہاتھ کے اوپنرز کے خلاف شامی کا حالیہ ریکارڈ مفید ثابت ہو سکتا تھا، مگر نئی گیند شامی کے ہاتھ میں تھمانا بہرحال ایک داؤ تھا جو آغاز میں ہی انڈیا کو مہنگا پڑ گیا۔
Getty Images
اور پھر جب تین وکٹیں مل گئیں اور احمد آباد کے تماشائیوں کی سانسیں بھی بحال ہو رہیں، تب ایک بے وجہ سی تسکین انڈین کیمپ پہ غالب ہوئی اور روہت شرما نے فیلڈنگ کچھ ایسے ترتیب دی جیسے ہدف 350 سے بھی زیادہ ہو۔
مارنس لبوشین اور ٹریوس ہیڈ کے اعصاب پہ کوئی تناؤ پیدا کرنے کو ضروری تھا کہ آسان سنگلز کا رستہ روکا جاتا اور دھیرے دھیرے سکور بورڈ پہ وہ گھٹن طاری کی جاتی کہ جہاں سے نکلنے کو کوئی نہ کوئی غلطی ناگزیر ہو رہتی۔ مگر روہت شرما کی مدافعانہ حکمت عملی آسٹریلوی بیٹنگ کی قوت بنتی چلی گئی۔
بلا شبہ دوسری اننگز میں حالات بیٹنگ کے لیے قدرے سازگار تھے مگر جو بولنگ وسائل یہاں روہت شرما کو میسر تھے، اگر مثبت اپروچ سے برتے جاتے تو یہ یقینی تھا کہ اوس گرنے سے پہلے ہی بات آسٹریلوی لوئر مڈل آرڈر تک جا پہنچتی اور یہی بیٹنگ مدافعانہ خول میں جاتی نظر آتی۔
ٹریوس ہیڈ نے جس ارتکاز کے ساتھ روہت شرما کا وہ کیچ پکڑا تھا، وہی ارتکاز ان کی بیٹنگ میں بھی نمایاں رہا۔ انھوں نے سوا لاکھ کے ہجوم کا شور و غوغا اپنے دماغ میں جذب کیا اور اس دباؤ کا مقابلہ اپنے بلے سے کیا۔ نہ تو کہیں کھیل کو خود پہ حاوی ہونے دیا اور نہ ہی انھوں نے خود کھیل سے آگے بڑھنے کی کوئی کوشش کی۔
اگلے ون ڈے ورلڈ کپ تک اس انڈین الیون کے کئی اہم کھلاڑی ریٹائر ہو چکے ہوں گے اور مستقبل قریب میں انڈیا کو ہوم کنڈیشنز کا اضافی فائدہ بھی میسر نہیں ہو گا۔
ایک دہائی سے عالمی ٹرافی کی کھوج میں لڑکھڑاتی انڈین ٹیم نے گھر آئی ٹرافی کو گنوا دیا اور ستم ظریفی یہ کہ اس میں دوش قسمت کا بھی نہیں تھا۔