حاجرہ بی بی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کا خاندان ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ خود بھی تقسیم ہو گیا تھا۔ حاجرہ بی بی پاکستان چلی آئیں اور ان کی بہن انڈیا میں رہ گئیں۔
واضح رہے کہ جب انگریزوں نے سنہ 1947 میں ہندوستان چھوڑا تو انھوں نے اس علاقے کو دو آزاد ممالک انڈیا اور پاکستان میں تقسیم کردیا۔ یہ تقسیم ایک انتہائی تکلیف دہ واقعہ تھا جس کے نتجیے میں مذہبی تشدد کی ایسی لہر پیدا ہوئی جس میں تقریباً سوا کروڑ لوگ پناہ گزین بن گئے اور پانچ سے 10 لاکھ کے درمیان لوگ مارے گئے۔
سات دہائیوں سے ایسے ان گنت خاندانوں کی کہانیاں وقفے وقفے سے منظر عام پر آتی ہیں جو برسوں بعد ایک دوسرے سے مل پاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حاجرہ بی بی کے ساتھ بھی ہوا۔
لیکن یہ معاملہ باقی کہانیوں سے کچھ مختلف اس لیے ہے کہ یہ ملاقات ایک تیسرے ملک میں ہی ممکن ہوئی۔ تقسیم کے دوران اپنے اہلخانہ سے جدا ہو جانے والی حاجرہ بی بی نے سعودی عرب میں مکہ مکرمہ جا کر اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جمال پور میں رہنے والی حاجرہ بی بی کی بہن کا خاندان انڈیا میں مقیم تھا۔ حاجرہ بی بی کی اپنی بہن سے ملاقات کی خواہش تو پوری نہیں پائی کیوں کہ ان کا برسوں پہلے ہی انتقال ہو گیا تھا۔ لیکن وہ اپنی بہن کے اہلخانہ سے ملنے میں کامیاب ہوگئیں۔
20 نومبر کو خالہ اور بھانجی کی مکہ میں جذبات سے بھرپور ملاقات کا کریڈٹ پاکستان کے شہر فیصل آباد کے رہائشی ناصر ڈھلوں اور ان کے ایک دوست کو جاتا ہے۔ ناصر ایک یو ٹیوب چینل کے ذریعے پاکستان اور انڈیا میں رہنے والے ایسے خاندانوں کو ایک دوسرے سے ملانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
ناصر ڈھلوں ان کا کہنا ہے کہ ’پنجابی لہر‘ شروع کرنے کے پس پشت ان کے اپنے خاندان کے بٹوارے کا تجربہ کار فرما ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے دادا اور والد انڈین ریاست پنجاب کے امرتسر سے پاکستان آئے تھے۔
1986 میں لکھا جانے والا ایک خط
ناصر کے مطابق حاجرہ بی بی کے بہن بھائی انڈیا کے پنجاب میں رہائش پذیر تھے اور انھیں ایک سال قبل ہی ان کے بارے میں علم ہوا تھا۔
یہ کہانی ایک خط سے شروع ہوئی جو حاجرہ بی بی کی بہن ماجدہ نے 1986 میں لکھا اور پاکستان بھیجا۔ لیکن یہ خط وقت سے حاجرہ تک نہ پہنچ سکا۔
جب یہ خط حاجرہ کو موصول ہوا تو ان کے دل میں اپنی بہن سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ ایسے میں ان کا ناصر ڈھلوں سے رابطہ ہوا اور انھوں نے 2022 میں ماجدہ کے اہلخانہ کو تلاش کرنے کی کوشش کا آغاز کیا۔
ان کی کوششوں کی بدولت گیارہ جون 2022 کو حاجرہ بی بی کی انڈیا میں موجود اپنی بہن کی بیٹی حنیفاں سے بات ممکن ہوئی۔
تب حاجرہ بی بی کو معلوم ہوا کہ ان کی بہن اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔
دونوں خاندانوں کو اکٹھا کرنے کی جدوجہد
پاکستان کے ضلع نارووال میں کرتارپور راہداری کھل جانے کے بعد تقسیم کے دوران الگ ہونے والے کئی خاندانوں کا دوبارہ ملاپ ممکن ہوا۔ حاجرہ بی بی اور ان کی بھتیجی کے درمیان ملاقات کے لیے بھی یہ ایک اچھا راستہ تھا۔
لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ ناصر بتاتے ہیں کہ ’دونوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد، ان کو ایک دوسرے سے ملانے کی کوشش شروع ہوئی۔‘
’انڈیا سے حنیفاں نے کرتار پور صاحب آنے کے لیے دو بار درخواست دی، لیکن دونوں بار اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ پھر حنیفاں نے دلی میں پاکستانی سفارت خانے سے پاکستان کے ویزا کے لیے درخواست دی لیکن وہ بھی مسترد کر دی گئی۔‘
ناصر کا کہنا ہے کہ ’حکومتی اقدامات کی وجہ سے دونوں کی ملاقات ممکن نہیں ہو پا رہی تھی۔‘ لیکن حاجرہ بی بی اس دوران انھیں مسلسل فون کر کے یاد دلاتی رہیں کہ ’بیٹا ہمیں ملوا دو۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں بے بس تھا۔ کوئی ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔‘
ایسے میں ایک انہونی ہوئی۔ ناصر بتاتے ہیں کہ ’ایک دن مجھے امریکہ میں رہنے والے ایک عزیز دوست پال سنگھ گل کا فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ دونوں خاندانوں کی ملاقات کرانے میں جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے، وہ ہر ممکن مدد کریں گے۔‘
ایسے میں ناصر نے سوچا کہ کیوں نہ دونوں خاندانوں کی ملاقات عمرہ کی ادائیگی کے دوران مکہ میں کروائی جائے۔
ناصر بتاتے ہیں کہ حاجرہ بی بی نے پاکستان میں عمرے کے لیے درخواست دی اور اسی طرح حنیفاں نے انڈیا سے درخواست دی۔ ’سارے اخراجات میں سے آدھے سے زیادہ پال سنگھ گل نے برداشت کیا۔ اور باقی ہم نے اپنے کچھ دوستوں کی مدد سے کیا۔‘
حاجرہ بی بی کی عمر کی وجہ سے ان کی بہو کے لیے بھی ویزے کا بندوبست کیا گیا۔ ناصر بتاتے ہیں کہ ’حاجرہ بی بی کو ہمیشہ سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور آمنہ ہی ان کا خیال رکھتی ہیں۔‘
ان کے مطابق آمنہ نے دونوں خاندانوں کو اکٹھا کرنے کے اس منصوبے کے دوران بھی اہم کردار ادا کیا۔
آنسوؤں بھری ملاقات
آخرکار وہ دن آن پہنچا جب حاجرہ بی بی مکہ میں موجود تھیں اور ناصر ایک وہیل چیئر پر بٹھا کر انھیں ان کی بھانجی سے ملوانے لے کر گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب حاجرہ بی بی نے اپنی بھتیجی کو دیکھا تو وہ وہیل چیئر سے اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ حاجرہ بی بی نے کہا کہ میں نے اپنے خاندان سے ملنے کی بہت کوشش کی۔ بہت دعا کی کہ مل لوں۔‘
یہ ملاقات ایک بار پھر ملنے کے وعدے پر اختتام پذیر ہوئی۔
ناصر کو خود بھی اس ملاقات کو ممکن بنانے کے لیے کافی جدوجہد کرنا پڑی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ان دنوں میں کاروبار کے سلسلے میں دبئی میں تھا اور اس ملاقات کے لیے ہی سعودی عرب پہنچا۔‘
’ان دونوں خواتین کو مختلف اوقات میں ایئرپورٹ سے لیا اور خانہ کعبہ میں دونوں خاندانوں کی ملاقات کروائی۔ ہم نے اللہ کا شکر بھی ادا کیا کہ کسی کے کام آئے۔‘