Getty Images
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں متحرک بلوچ عسکریت پسند تنظیموں میں انضمام کے لیے مذاکرات جاری ہیں ان میں سے دو بڑی تنظیموں بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبریشن آرمی میں اتفاق ہو چکا ہے جبکہ قیادت اور تنظیم کے نام کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
قلات ریاست کے پاکستان سے الحاق کے بعد آزادی کی یہ چوتھی عسکری تحریک ہے جو ایک طویل عرصے سے جاری ہے جبکہ ماضی میں یہ تحریکیں دو تین سال سے زیادہ مستحکم نہیں رہ سکی تھیں۔
حالیہ بلوچ عسکری تحریک کی بنیاد گوادر بندرگاہ کی تعمیر سے شروع ہوئی اور اس میں شدت اس وقت آئی جب سوئی کے علاقے میں ایک لیڈی ڈاکٹر سے مبینہ طور پر ریپ کا معاملہ سامنے آیا اور بزرگ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی نے ڈاکٹر سے انصاف کے لیے آواز بلند کی۔
جس کے بعد اس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف کی حکومت کے ساتھ ان کا ٹکراؤ ہوا اور سنہ 2006 میں ایک فوجی آپریشن میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت ہوئی۔
اس کے بعد ریاست مخالف جذبات میں اضافہ دیکھا گیا اور رد عمل میں بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ تیز ہو گیا۔
چین اور پاکستان میں جب اقتصادی راہدری کا معاہدہ ہوا اور چین نے گوادر بندرگاہ کے معاملات سنبھالنے کے ساتھ گودار میں صنعت کاری کا منصوبہ بنایا تو چین بھی بلوچ عسکریت تحریک کے نشانے پر آگیا۔
Getty Imagesانضمام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
بلوچستان میں اس وقت عسکریت پسندی تنظیموں میں بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن گارڈ ، بلوچ لبریشن ٹائیگرز، بلوچ نیشنلسٹ آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی نامی تنظیمیں فعال ہیں جبکہ بلوچ ریپبلکن آرمی غیر فعال ہوچکی ہے۔
ان تنظیموں میں سے بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر جی ’براس‘ کے نام سے ایک اتحاد کی صورت میں بھی موجود ہیں۔
عسکری تنظیموں کو انضمام کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ اس بارے میں عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر بشیر زیب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قابض قوتوں سے نجات اور قومی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ بلوچ سیاسی و عسکری قوتوں کو مضبوط کر کے انھیں دشمن کے خلاف مزید مشترکہ و موثر جدوجہد کی جانب موڑ دیا جائے۔‘
بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر کا کہنا ہے کہ انضمام یا اتحاد کی کوششیں شروع سے رہی ہیں اور اس میں کامیابی اور پیشرفت بھی ہوئی ہے۔
’سب جماعتیں اور تنظیمیں ایک ہی مقصد کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، آزادی سب کا بنیادی مقصد اور منزل ہے تو پھر ہماری طاقت کیوں نہ ایک ہو۔‘
’انضمام کا مقصد مشترکہ حملوں کو بڑھانا ہے‘
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے سربراہ اور عسکریت پسند تنظیموں پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار عامر رانا کہتے ہیں کہ اس انضمام کی شاید ضرورت اس وجہ سے بھی ہے تاکہ مشترکہ حملے کیے جائیں اور ان کو بڑھایا جا سکے اس کے علاوہ ان کی جو قوت ہے اور تنظیمی ڈھانچہ ہے وہ ایک جگہ پر اکٹھا ہوجائے۔
’اس وقت یہ نظر آتا ہے کہ جو لوگ ان تنظیموں میں شمولیت کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے علاقے کی مناسبت سے دیکھتے ہیں اور کچھ قبائلی نوعیت کی تنظیموں کی طرف بھی چلے جاتے ہیں۔‘
واشنگٹن میں موجود تجزیہ نگار ملک سراج اکبر کہتے ہیں کہ اگر بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی کارروائیوں کو ماضی کے مقابلے میں دیکھا جائے تو حکمت عملی اور سکیل میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔
’ان تنظیموں کی توجہ اب ایسی کارروائیوں پر مرکوز ہے جس میں ریاست کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانا مقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں ان تنظیموں کی کارروائیوں کی کثرت میں تو کمی آئی ہے لیکن جب بھی وہ کوئی کارروائی کرتی ہیں تو لگتا ہے کہ اس کی پلاننگ میں زیادہ وقت لگایا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’حکمت عملی اور آپریشنز میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ان تنظیموں کے ایک دوسرے کے مزید قریب ہونا ہے، ماضی کے مقابلے میں ان تنظیموں میں اب زیادہ ایک دوسرے کو برداشت اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے کیونکہ اب ایک دوسرے کے ساتھ ان تنظیموں کے لیے محض ایک آپشن نہیں بلکہ ان کی بقا کا ایک لازمی جز ہے۔‘
تجزیہ کار حالیہ حکمت عملی کو بلوچ نیشنل آرمی کے سربراہ گلزار امام کی مبینہ گرفتاری سے بھی جوڑتے ہیں۔
گلزار امام عرف شنبے کو پاکستان کے ریاستی اداروں نے حراست میں لینے کا دعویٰ کیا تھا تاہم ان کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ انھیں ٹریپ کیا گیا ہے۔ گلزام امام کی گرفتاری کے بعد ان کی تنظیم دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔
تجزیہ نگار عامر رانا کہتے ہیں کہ گلزار امام جیسے واقعات کے تدارک کے لیے بھی یہ تنظیمیں سمجھتی ہیں کہ اپنی قوت کو ایک جگہ یکجا کیا جائے۔
ملک سراج اکبر بھی اس موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلزار امام کی گرفتاری ان تنظیموں کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا کیونکہ گلزار امام محض ایک جنگجو نہیں بلکہ ایک کمانڈر تھا۔
’اس کے پاس ان تنظیموں کے بارے میں معلومات کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے۔ اب یہ تنظیمیں گلزار کی گرفتاری کے بعد ڈیمیج کنٹرول میں لگی ہوئی ہیں کہ کس طرح خود کو از سر نو منظم کیا جائے تاکہ ان کے بارے میں جو معلومات حکومت تک پہنچی ہے وہ ان کے خلاف استعمال نہ ہو۔‘
Getty Imagesناراض اور تنظیمی قیادت
بلوچستان کی عسکریت پسند تنظیموں کی قیادت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے کہ ایک ڈاکٹر اللہ نذر اور بشیر زیب سمیت دیگر جو میدان عمل میں موجود ہیں جبکہ دوسری قیادت بیرون ملک مقیم ہے۔
حکومت پاکستان کے مطابق نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی، نواب خیر بخش مری کے بیٹے حربیار مری اور ان کے چھوٹے بھائی مہران مری بھی بلوچستان میں شورش میں شریک ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر کہتے ہیں کہ انھوں نے دوستوں کے ذریعے انھیں بھی تنظیم میں شمولیت کی دعوت دی ہے کیونکہ ان کی کوشش ہے کہ سب ایک ہوں اور اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔
بشیر زیب کا کہنا ہے کہ ’جدوجہد آزادی میں فکر و عمل سب سے بڑھ کر ہے جسے نوجوان اپنے شعوری کردار اور قربانیوں سے واضح کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ یہ بات کسی بھی ذی شعور بلوچ سے ڈھکی چھپی نہیں بس اگر ضرورت ہے تو وہ یہ کہ ہر ایک شخص، ادارہ، گروہ نیک نیتی اور ایمانداری سے خود فیصلہ کر کے آگے بڑھے، تاکہ ایک لفاظی و کاغذی اور صرف دعویداری سے ہٹ کر عملاً نظم و ضبط اور شعوری بنیادوں پر قومی قوت کی تشکیل ممکن ہوسکے۔‘
اس مشترکہ تنظیم کی قیادت کس کے پاس ہو گی؟Getty Images
اس مشترکہ تنظیم کی قیادت کس کے پاس ہو گی ابھی اس بارے میں فریقین میں مذاکرات جاری ہیں، بلوچ لبریشن فرنٹ کے کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر کہتے ہیں کہ ’ہماری قیادت ہمیشہ تنظیم ہی نے کی ہے، آئندہ بھی قیادت تنظیم اور اس کے ادارے کریں گے۔‘
بشیر زیب کا کہنا ہے کہ بلوچ قومی تحریک میں ہمیشہ ہی مشترکہ لیڈرشپ نے تحریک کی باگ دوڑ سنبھالی ہے، جس کی روشنی میں ان کے لیے یہ فیصلہ کوئی بڑا اور پیچیدہ معاملہ نہیں ہو گا کہ کس طرح لیڈرشپ کا تعین کیا جاسکے۔
’یقیناً باہمی تعاون اور مشورہ سے یہ نقطہ حل ہو گا۔‘
ممکنہ مشترکہ تنظیم کے نام کے بارے میں ڈاکٹر اللہ نذر کہتے ہیں کہ براس سمیت کوئی بھی نام ہو سکتا ہے جسے دوستوں اور تنظیمی اداروں کی مشاورت کے بعد طے کیا جا سکتا ہے۔
بشیر زیب کا کہنا ہے کہ بلوچ قومی تحریک برائے آزادی کی جدوجہد کو عملی جامعہ پہنانے اور ایک آزاد اور خوشحال بلوچستان کی خاطر مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے والی تنظیم یا جماعت کا نام جو بھی ہو وہ بلوچ قوم قبول کرے گی۔
فدائی حملے اور ایک سکے کے دو رخGetty Images
بلوچستان لبریشن آرمی کی مجید برگیڈ نے فدائی حملے بھی کیے جس میں گذشتہ سال کراچی یونیورسٹی میں کنفیوشیئس سینٹر کے اساتذہ پر حملہ بھی شامل ہیں جس میں خاتون خودکش بمبار نے حصہ لیا تھا اور جس کی شناخت شاری بلوچ کے نام سے کی گئی تھی۔
بلوچ لبریشن آرمی ان فدائی حملوں کی مخالف رہی ہے انضمام کی صورت میں کیا اس حکمت عملی میں تبدیلی آئے گی؟
بی ایل ایف کے کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر کہتے ہیں کہ ہر تنظیم میں مختلف آرا کے لوگ ہوتے ہیں، ان کی تنظیم میں ہر ایک کو رائے دینے کا حق حاصل ہے آمرانہ سوچ یا قیادت نہیں ہے۔ پارٹی ڈسپلن، اداروں کی ترقی اور اہمیت کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ایک لمبی لڑائی جاری ہے۔
بی ایل اے کے کمانڈر بشیر زیب کہتے ہیں کہ فدائین بلوچ قوم کے عظیم قومی ہیرو اور قومی سرمایہ ہیں، بلوچ قوم انھیں اپنا نجات دہندہ اور امید سمجھتی ہے، اسی لیے آج ایک بڑی تعداد میں بلوچ مرد اور خواتین عملاً مجید بریگیڈ کا حصہ بن چُکے ہیں۔
’فدائین حملے بلوچستان کی مکمل آزادی تک مزید جدت و شدت سے جاری رہیں گے۔‘
’عسکریت پسندی تنظیموں کا انضمام بڑی پیش رفت ہو گی‘
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر بی ایل ایف اور بی ایل اے سمیت براس میں شامل جماعتوں کا بھی انضمام ہوتا ہے تو یہ بڑی پیش رفت ہو گی۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے سربراہ عامر رانا کہتے ہیں کہ بی ایل اے اس وقت برانڈ نیم بن گیا اگر دیکھا جائے تو سب سے نمائندہ جماعت بی ایل ایف ہے جبکہ بی آر اے اور بلوچ ریپلکن گارڈ کا جو پس منظر ہے وہ قبائلی ہے۔
’بی ایل اے اور بی ایل ایف کی جتنی بھی تربیت اور لٹریچر ہے ان کا پس منظر بی ایس او آزاد اور تعلیم یافتہ کلاس ہے۔ اگر یہ اکٹھے ہوتے ہیں تو اس کا اثر بھی پڑے گا۔ اس وقت تو بی ایل اے اور بی ایل ایف ایک سکے کے دو رخ ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انھیں ’قیادت کس کے پاس رہنے‘ کے چلینج کا سامنا ہو گا اور یہ ماضی میں بھی بلوچ تنظیموں کو رہا ہے۔
’اس میں تنظیمی اختلافات اور سرداری نظام کا اثر رسوخ رہتا ہے اگر وہ اس کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ایک بڑی قوت بنے گی۔‘
تجزیہ نگار ملک سراج اکبر کہتے ہیں کہ افرادی قوت کے اعتبار سے اب بی ایل اے اور بی ایل ایف تقریباً مکمل طور پر غیر قبائلی قیادت کے ہاتھوں میں ہیں، ماضی میں بی ایل اے کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ اسے نواب خیر بخش مری کے بیٹے اور قبیلے کے لوگ چلا رہے ہیں لیکن اب بی ایل اے کا انحصار مری قبیلے پر بالکل بھی نہیں ہے اور اس کی قیادت اور جنگجو اب غیر قبائلی، پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کے لوگ ہیں۔
’بی ایل اے اور بی ایل ایف میں بنیادی فرق یہ تھا کہ وہ مختلف جغرافیائی خطوں( کوئٹہ بمقابلہ مکران) میں کارروائیاں کرتی تھیں لیکن چونکہ اب سورش کا مرکز مری بگٹی علاقے سے نکل کر آواران اور مکران بن گئے ہیں لہٰذا بی ایل اے اور بی ایل ایف کا مرکز بھی یہی خطہ بن گیا ہے جہاں گوادر کی بندرگاہ پہ کام چل رہا ہے۔‘
Getty Imagesطالبان ماڈل سے موازانہ
چند مبصرین بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے انضمام کا موازنہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے کرتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کی باقاعدہ تشکیل دسمبر 2007 میں ہوئی تھی جبکہ اس سے قبل خیبر پختونخوا کے علاقوں قبل سوات، جنوبی وزیرستان، مہمند، باجوڑ، اورکزئی، درہ آدم خیل اور دیگر علاقوں میں متعدد طالبان گروہ آزادانہ طور پر فعال تھے مگر بعد میں القاعدہ کے مقامی رہنماؤں کی کوششوں کی بدولت یہ سارے گروہ تحریک طالبان پاکستان نامی ایک گروہ بنانے اور ایک نظّم تلے کام کرنے پر متفق ہوئے۔
ٹی ٹی پی بننے کے بعد ملک بھر میں بڑی سطح کے حملے، بشمول خودکش حملے دیکھنے میں آئے۔
عامر رانا کہتے ہیں کہ عسکریت پسند جب اپنی قوت کو اکٹھے کر رہے ہوتے ہیں تو ان کی آپریشن کی صلاحیت بڑھ جاتی ہیں جو وسائل تنظیمی اور آپریشنل امور پر ضائع ہو رہے ہوتے ہیں اس کا سلسلہ رک جاتا ہے۔
’جیسے ٹی ٹی پی کے کمانڈر جب تک چھوٹے چھوٹے گروہوں میں الگ الگ علاقوں میں لڑتے رہے تو ان کی کوئی موثر قوت نہیں تھی تحریک طالبان پاکستان بنی تو اس کا اثر بڑھتے ہوئے دیکھا گیا اور انھوں نے ریاست کو جس طرح چیلنج کیا اس سے ریاست کو جوابی کارروائی میں تبدیلی لانی پڑی۔‘
بقول ان کے اگر بلوچ تنظیمیں انضمام میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو اس بات کا امکان زیادہ ہیں کہ ان کی عسکری حملوں کی صلاحیت بڑھ سکتی ہے۔
یونائٹیڈ سٹیس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے سینئر تجزیہ کار اسفندیار میر کہتے ہیں کہ تحریک طالبان کی خود کو متحد کرنے کی حالیہ کامیاب کوشش اور ان سے پہلے افغان طالبان کا اتحاد اور امریکہ کے خلاف کامیابی اب خطے اور اس سے باہر کی تحریکوں کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے۔
’پچھلے دو سالوں میں بلوچ تحریک کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی بھی ٹی ٹی پی کی طرح طالبان کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔اس طرح ایک زیادہ متحد تحریک پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو سکتی ہے۔‘
Getty Images’ریاست کے لیے چیلنج‘
بلوچ عسکریت پسند کراچی میں سٹاک ایکسیینج، چینی سفارتخانے، کراچی یونیورسٹی، گودار پی سی ہوٹل، پنجگور اور نوشکی کی چھاؤنیوں سمیت اوڑماڑا اور پسنی میں سکیورٹی فورسز پر بڑے حملوں میں ملوث ہیں۔
عامر رانا کہتے ہیں کہ بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیمیں اس وقت بھی بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہیں۔
’حالیہ جو بڑے حملے ہوئے ہیں وہ بی ایل ایف اور بی ایل اے نے کیے ہیں۔ ان میں تعاون تو کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے بس اب وہ اس کو ایک ڈھانچے میں ڈال رہے ہیں، یہ ریاست کے لیے چیلنج ہو گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جب یہ سارے گروہ یکجا ہو جائیں گے ان کے لیے ردعمل دینا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ جب مختلف لوگ ایک ہی خیالات کے ہوں تو پھر ریاست کی کوشش ہوتی ہے سیاسی طریقے سے بھی اور تیکنکی اعتبار سےاس کو دیکھے اور اختلافات سے فائدہ اٹھائیں۔‘
ملک سراج اکبر کہتے ہیں کہ عسکریت پسند تنظیموں کے اتحاد براس کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک کامیاب اتحاد رہا ہے جس کے تحت مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے جنگجؤں نے اپنی اپنی مہارت پیش کی ہیں۔
ماضی میں تنظیمیں اکیلے کارروائیاں کرتی تھیں جو اتنی موئژ نہیں تھیں لیکن براس کے قیام کے بعد ان کی کارروائیوں میں زیادہ کوآرڈینیشن نظر آتی ہے۔ اس اتحاد کا مقصد بنیادی طور پر وسائل کا اشتراک کرنا تھا، سیاسی طور پر ہم آہنگی نہیں، جس نے اس کے اثرات کو محدود کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کو متحد کرنے کی جاری کوششوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔
یونائٹیڈ سٹیس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے سینئر تجزیہ کار اسفندیار میر کہتے ہیں کہ ’اگر بلوچ علیحدگی پسند تحریک اپنی تقسیم پر قابو پانے اور مزید متحد ہونے میں کامیاب ہو جاتی ہے جیسا کہ بی ایل ایف کے رہنما اللہ نذر کوشش کر رہے ہیں، تو یہ اس کی سیاسی اور عسکری طاقت میں نمایاں اضافہ کرے گا اور پاکستان پر مزید دباؤ کا سبب بنے گا۔‘