’بے نظم، بے ضبط، بے ربط‘: سمیع چوہدری کا کالم

بی بی سی اردو  |  Nov 11, 2023

Getty Images

بابر اعظم کے قدم بوجھل تھے گویا گراؤنڈ سے واپس جانے پہ آمادہ نہ ہوں۔ وہ خود سے خوش نہیں تھے کہ گس ایٹکنسن کی جس گیند کو وہ مڈوکٹ فیلڈر کے اوپر سے باؤنڈری پار پہنچانا چاہتے تھے، وہ عادل رشید کے ہاتھوں میں محفوظ ہو چکی تھی۔

بابر کا جانا ٹھہر چکا تھا۔ ورلڈ کپ میں ان کی یہ آخری اننگز ان کے پورے ٹورنامنٹ کا خلاصہ تھی کہ احتیاط اور جارحیت کے بیچ کا جو خلجان یہاں دکھائی دیا، وہ اس سارے ایونٹ میں پاکستانی کاوشوں کا عکاس تھا۔

اس سے پہلے، ٹاس کے وقت، جب بابر اعظم جاس بٹلر کے ہمراہ کھڑے تھے اور میچ ریفری نے بٹلر کی جیت کا اعلان کیا تو بابر اعظم کے چہرے کا رنگ یوں بدل کر رہ گیا جیسے وہ ٹاس نہیں، میچ ہی ہار بیٹھے ہوں۔

گو دونوں کپتانوں کے لئے اس میچ میں کچھ زیادہ معنویت بچی نہیں تھی مگر بابر کے برعکس جاس بٹلر کی ٹیم کا رویہ بے حد مثبت تھا، جن کی ٹیم ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے سیمی فائنل ہی نہیں، فائنل تک کے لئے فیورٹ قرار دی جا رہی تھی۔

مگر اس کے بعد بیشتر نتائج اس پیشگوئی کے برعکس رہے۔ یہاں یہ اس انگلش ٹیم کا آخری میچ تھا جس میں شامل کئی کھلاڑی چار سال پہلے کی چیمپئین ٹیم کا حصہ تھے اور اب یہ اس گولڈن جنریشن کا آخری ورلڈ کپ میچ تھا۔

یہاں سے انگلش کرکٹ آگے جس سمت بھی جائے، یہ طے ہے کہ بین سٹوکس، جو روٹ، عادل رشید، معین علی، جونی بئیر سٹو، ڈیوڈ ولی اور کرس ووکس اگلے ون ڈے ورلڈ کپ کا حصہ نہیں ہوں گے۔ سو، کھیلنے کو اور کوئی وجہ نہ بھی ہوتی، بھرم بہرحال ایک بنیادی وجہ تھی۔

اور انگلش ٹیم نے اس میچ میں وہ بھرم پوری طرح سے نبھایا کہ بیٹنگ میں بھی نہایت مثبت اپروچ برتی گئی اور بولنگ میں بھی اتنا ہی مثبت رویہ رکھا گیا کہ جیسے یہ میچ ٹورنامنٹ کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہو۔

ڈیوڈ وِلی اپنا آخری ون ڈے میچ کھیل رہے تھے اور انہوں نے پہلے ہی اوور میں جس لینتھ کا چناؤ کیا، وہاں سے خفیف سی سوئنگ ملنا یقینی تھا۔ عبداللہ شفیق کی کوتاہ بینی پہ چوٹ کرنے کے بعد جلد ہی انہوں نے فخر زمان کے لئے بھی وہ دام بچھایا کہ پاکستان کی امیدوں کا محل وہیں مسمار ہو رہا۔

Getty Images

پاکستان نے ٹاس ہارتے وقت جو رویہ اپنایا تھا، پورے میچ میں وہی باڈی لینگوئج پہ حاوی نظر آیا۔

پورا ٹورنامنٹ گزر گیا مگر بابر اعظم اس حقیقت کا ادراک نہ کر پائے کہ حارث رؤف کی تباہ کن پیس پاور پلے میں ان کی اپنی ٹیم سے زیادہ مخالف بیٹنگ کا موثر ہتھیار بن جایا کرتی ہے۔

شاہین آفریدی اپنے کنارے سے عمدہ بولنگ کر رہے تھے اور جو ہلکی سی بھی سوئنگ میسر تھی، اس سے انگلش اوپنرز کو مخمصے میں ڈالے ہوئے تھے مگر حارث رؤف نے جس نوعیت کی وائیڈ سے اپنے دن کا آغاز کیا، وہ ہدف سے اس قدر ہی پرے تھی جتنا بالآخر پاکستان اس میچ میں رہ گیا۔

افتخار احمد بھی نو میچز گزر جانے کے باوجود کپتان کا اس قدر اعتماد حاصل نہ کر پائے کہ دوسرے کنارے سے انہیں اٹیک کرنے کا موقع دیا جاتا۔ جب حارث رؤف کے پہلے تین اوورز کی قیمت سوچ سے بھی تجاوز کرنے لگی، تب کہیں بابر نے گیند افتخار کو تھمایا مگر تب تک انگلش اوپنرز قدم پوری طرح جما چکے تھے۔

اور پھر بیٹنگ میں پاکستان نے شاید سب کچھ ہی فخر زمان پہ چھوڑ رکھا تھا کہ ان کے رخصت ہوتے ہی تعاقب کی ساری امیدیں لپیٹ ڈالی گئیں۔ بابر اعظم کے بعد کچھ دیر رضوان رکے مگر رکے رکے سے ہی رہے۔ اس کے بعد سلمان آغا کے سوا جو بھی آیا، زیادہ رک نہ پایا۔

ایونٹ ضائع ہو چکنے کے بعد بھی پاکستان یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ اس طرح کی سست وکٹ پہ لمبے مجموعے کے لئے نئی گیند پہ پاور پلے کا فائدہ اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ نہ تو پاکستانی بولنگ پہلے پاور پلے میں حریف بیٹنگ کے قدم روک پائی اور نہ ہی پاکستانی بیٹنگ اس مرحلے میں اپنے قدم بڑھا پائی۔

شاید یہ میچ بھی قابلِ تسخیر ہو رہتا اگر پاکستان نیٹ رن ریٹ کے ناممکنہ بھوت کو سر پہ سوار نہ کرتا اور محض ایک آخری جیت کے لئے مثبت سوچ کے ساتھ نارمل کرکٹ کھیلنے کو میدان میں پاؤں دھرتا۔

مگر ٹاس پہ ہی بابر اعظم کا چہرہ جیسے زرد ہوا، اس کے بعد سب کچھ بے نظم، بے ضبط اور بے ربط سا ہو کر رہ گیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More