جلاوطنی میں کرکٹ سیکھ کر چیمپیئن ٹیموں کو ہرانے والی افغان ٹیم طالبان حکومت میں کیسے چل رہی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Nov 09, 2023

AFP

اس کرکٹ ورلڈکپ میں افغانستان نے سابق چیمپیئنز انگلینڈ، پاکستان اور سری لنکا کو شکست دی لیکن منگل کو آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست نے اس کی سیمی فائنلز تک پہنچنے کی امید مدھم کر دی ہے۔

اس سب کے باوجود اس ورلڈکپ میں ایک ایسے جنگ زدہ ملک جس کی حکومت کو کوئی تسلیم نہیں کرتا نے دنیا کی توجہ حاصل کر لی اور اس ٹیم نے شائقین کو زبردست تفریح فراہم کی۔

منگل کو ممبئی کے وانکھیڈے سٹیڈیم میں افغانستان کی کرکٹ ٹیم ایک اور کرشمہ دکھانے کے لیے تیار تھی۔

اس ٹیم کے 15 میں سے 11 کھلاڑیوں کی عمر 25 سال سے کم ہے اور یہ ٹیم اپنا تیسرا ون ڈے ورلڈکپ کھیل رہے ہے اور اس میں انھوں نے آسٹریلیا کی ٹیم کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔

پانچ مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کو افغانستان نے 292 رنز کا ہدف دیا اور پھر اس ہدف کے تعاقب میں ایک موقع پر آسٹریلیا کی 91 رنز پر سات وکٹیں گر گئیں تھیں لیکن پھر آسٹریلین آلراؤنڈر گلین میکسویل ڈٹ گئے اور چھکے اور چوکوں کی بوچھاڑ کر کے ڈبل سنچری بھی بنائی اور آسٹریلیا کو باآسانی فتح دلوانے میں کامیاب ہو گئے۔

افغانستان کے کپتان حشمت اللہ شاہدی نے میچ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں بے حد مایوسی ہوئی۔ کرکٹ ایک مضحکہ خیز کھیل ہے، یہ سب انتہائی ناقابل یقین تھا۔‘

تاہم ون ڈے انٹرنیشنل میں افغانستان کا عروج ٹیم اور اس کے مداحوں دونوں کے لیے زیادہ ناقابل یقین ہے۔

سنہ 2023 سے پہلے دو ورلڈکپ ٹورنامنٹس یعنی سنہ 2015 اور سنہ 2019 میں افغان ٹیم صرف ایک فتح حاصل کر سکی تھی۔

انھوں نےاس ورلڈ کپ میں اب تک چار میچ جیتے ہیں جن میں سے دو سابق ورلڈ چیمپیئنز انگلینڈ اور پاکستان کے خلاف جیتے۔ یہ وہ ملک ہیں جہاں اس ٹیم کے کھلاڑیوں نے بحیثیت پناہ گزین پہلی دفعہ کرکٹ دیکھی اور سیکھی تھی۔

کرکٹ پر خبروں اور تجزیوں کی ویب سائٹ کرک انفو کے سینیئر صحافی سدھارتھ مونگا نے بی بی سی کو بتایا کہ افغانستان کی اس ٹورنامنٹ میں کارکردگی سنسنی خیز رہی ہے۔ افغانستان کا کوالیفائنگ لیگز سے تقریباً سیمی فائنل تک پہنچنے کا سفر حیران کن ہے اور انھوں نے 25 سالوں میں جو کیا وہ کرنے کے لیے دوسری ٹیموں کو 60-70 سال لگتے ہیں۔

Getty Images

یہ ٹیم انتہائی غیر معمولی حالات میں کھیل رہی ہے۔ جس پرچم کے ساتھ وہ کھیل رہے ہیں اور جو قومی ترانہ وہ ہر میچ سے قبل پڑھتے ہیں وہ دراصل اس سابق افغان حکومت کی نمائندگی کرتا ہے جو سنہ 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد ختم ہو گئی تھی۔

لیکن اقتدار میں بیٹھی طالبان حکومت اس ٹیم کو تسلیم بھی کرتی ہے اور افغانستان کرکٹ بورڈ بھی ان کی تائید کرتا ہے۔

بورڈ کے سی ای او نسیب خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’طالبان نے ہمیں کام کرنے کی کھلی اجازت دی۔ گذشتہ سال جب ہم مالی مشکلات کا سامنا کر رہے تھے تو انھوں نے ہمیں 12 لاکھ ڈالر دیے۔‘

مشکلات کے باوجود افغانستان نے ورلڈ کپ میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جیسے منگل کے روز جب 21 سالہ ابراہیم زدران انڈین لیجنڈ سچن ٹنڈولکر کی جانب سے حوصلہ بڑھانے کے لیے کی گئی تقریر کے چند گھنٹے بعد ورلڈ کپ میں سنچری بنانے والے پہلے افغان بن گئے یا جب افغان ٹیم نے ٹورنامنٹ کے شروع میں انگلینڈ کو شکست دے کر ایک بڑا اپ سیٹ کیا۔

افغان ٹیم کے سابق کپتان اور موجودہ اسسٹنٹ کوچ رئیس احمدزئی کا کہنا ہے کہ ٹیم کی کارکردگی ثابت کرتی ہے کہ ان کی بس قسمت اچھی نہیں ہے اور وہ اپنے دن پر کسی بھی ٹیم کو شکست دے سکتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان عوام میں کرکٹ کے لیے بے مثال محبت ہے اور یہ محبت ان کی رہنمائی کرتی ہے۔

سدھارتھ مونگا کا کہنا ہے کہ سنہ 2001 میں جب سے ٹیم بنی ہے تب سے افغانستان کے پاس ایک متاثرکن بولنگ لائن اپ ہے جو مخالف ٹیم کو مختلف مراحل میں محدود کر سکتی ہے لیکن سب سے زیادہ بہتری ان کی بیٹنگ میں آئی ہے۔

افغانستان کے بلے بازوں نے حوصلہ اور پختگی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے اہداف کا تعاقب کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اور پُرسکون انداز میں اپنی اننگز بنائی۔

Getty Images

پاکستان کے خلاف ان کا میچ دیکھ لیں۔ افغان ٹیم 282 رنز کے ہدف کا تعقب کر رہے تھے۔ جارحانہ شروعات کے بعد حشمت اللہ شاہدی اننگز کے وسط تک پرسکون انداز میں کھیلتے رہے اور اس بات کو ممکن بنایا کہ بغیر کوئی خطرہ مول لیے رن ریٹ برقرار رکھا جائے۔ افغانستان یہ میچ آٹھ وکٹوں سے جیت گیا۔

سدھارتھ مونگا کہتے ہیں کہ ’اس وقت خوبصورتی یہ ہے کہ آپ اس ٹیم میں تین یا چار بڑے سٹارز چن نہیں سکتے۔ یہ ایک ایسی ٹیم ہے جہاں ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے اور ان کی جیت کو کوئی اپ سیٹ نہیں کہہ سکتا۔ انھوں نے آسانی سے ہدف کا تعاقب کیا ہے۔‘

بہتری کئی دہائیوں کی محنت سے آئی ہے، اس میں ڈومیسٹک کرکٹ کے بہتر ہوتے ڈھانچے اور بین الاقوامی لیگز میں کھیلنے کے باعث کھلاڑی بہتر پرفارم کر پائے ہیں۔

افغانستان کے 34 صوبوں میں ہزاروں کرکٹ کلب موجود ہیں جو سکول سے لے کر ٹی ٹوئنٹی لیگز تک مختلف سطحوں پر ٹیلنٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔ ڈومیسٹک میچ کابل، جلال آباد اور خوست کے پانچ سٹیڈیمز اور تقریباً 15 چھوٹے کرکٹ گراؤنڈز میں کھیلے جاتے ہیں۔

سب سے مشہور ڈومیسٹک لیگ شپریزہ کرکٹ لیگ ہے جو آٹھ ٹیموں کی گیم ہے جو کابل میں کھیلی جاتا ہے جس میں بہت زیادہ شائقین میچ دیکھنے آتے ہیں۔

نصف درجن افغان کرکٹرز پاکستان، بنگلہ دیش اور کیریبین میں چھوٹے بین الاقوامی ٹورنامنٹس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی لیگز میں بھی کھیلتے ہیں۔

افغانستان کرکٹ بورڈ کے نصیب خان کا کہنا ہے کہ ٹیم کو اپنے ملک میں کرکٹ کی اچھی سہولیات سے بڑے پیمانے پر فائدہ ہوا ہے۔ پہلے کے برعکس جب کرکٹرز زیادہ تر انڈیا اور دبئی میں رہتے اور تربیت حاصل کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ اب وہ اپنے ملک میں رہتے ہیں اور ’اعلیٰ معیار‘ کی سہولیات سے تربیت حاصل کرتے ہیں۔ ’ہر بین الاقوامی کھلاڑی جس کی بین الاقوامی ذمہ داری نہیں ہوتی اسے ہمارے ڈومیسٹک ایونٹس میں شرکت کرنا ہوتی ہے۔‘

Getty Images

احمد زئی کا مزید کہنا ہے کہ کلب کرکٹ کے نیٹ ورک کے ذریعے تازہ اور نوجوان ٹیلنٹ سامنے آتا ہے۔

اس طرح 18 سال کی عمر میں ورلڈ کپ میں سب سے کم عمر کھلاڑی نور احمد 38 سالہ سٹار محمد نبی کے ساتھ کھیلتے ہیں۔

رئیس احمدزئی کہتے ہیں کہ ’ٹیم کی اونچی اڑان اس بات کی گواہی ہے کہ افغانستان کرکٹ سے محبت کرنے والے ملک کے طور پر کہاں پہنچ گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے جلاوطنی میں کرکٹ سیکھی، جس میں ہماری طرف امید کی چمک کے سوا کچھ نہیں تھا۔ لیکن یہ نسل افغانستان کی پیداوار ہے۔ ہم نے انہیں وہاں تربیت دی۔‘

انڈیا اور پاکستان کے برعکس افغانستان میں کرکٹ کی مقبولیت میں حال ہی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ابتدائی کھلاڑیوں نے 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد پاکستان میں پناہ گزینوں کے طور پر یہ کھیل سیکھا۔

جب وہ اپنے وطن واپس آئے تو وہ اپنے ساتھ یہ کھیل لے کر آئے لیکن یہ آسان نہیں تھا۔ اس ٹیم کو کھیلتے ہوئے برسوں کی جنگ، بم دھماکوں اور پیاروں کے اغوا کا سامنا رہا۔

ریئس احمدزئی کہتے ہیں کہ ’خوف نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ زندگی کی طرح کھیل کا مستقبل بھی واضح نہیں تھا۔‘

سدھارتھ مونگا کا کہنا ہے کہ 1990 کی دہائی میں بھی جب طالبان پہلی بار اقتدار میں آئے تھے تو انھوں نے مردوں کو کرکٹ کھیلنے سے نہیں روکا تھا۔ ان کی نظر میں کرکٹرز دوسرے کھیلوں کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ مناسب کپڑے پہنتے تھے۔

اس وقت افغان کھلاڑی اپنے ملک میں مشہور شخصیات بن گئی ہیں ان کے پوسٹرز اور ان کی صلاحیتیں نوجوان افعانوں کے ذہن میں بس چکی ہیں۔ رئیس احمدزئی کا بیٹا بھی ان میں سے ہے جو ایک دن لگ سپنر راشد خان کی طرح ایک دن بولنگ کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔

AFP

یہ احساس انڈیا میں رہنے والے ان ہزاروں افغانوں کے لیے بھی بہت خاص ہے جن کے لیے اس ٹیم کی کارکردگی خوشی کا ایک نادر ذریعہ ہے۔

تین سال پہلے انڈیا چلے جانے والے فرشید محمد کہتے ہیں کہ ’ہمارے جیسے کمزور ملک کے لیے بھی کرکٹ امید کی کرن بن کر ابھرتی ہے۔‘

بچپن میں فرشید محمد کو کرکٹ کے بارے میں معلوم نہیں تھا اس کے برعکس ان کے 16 سال کے بیٹے کو پہلے سے اس کھیل کے متعلق سب معلوم ہے۔

فرشید محمد کہتے ہیں ’میرے بچوں کو افغانستان سے متعلق صرف تباہی اور مایوسی کے بارے میں معلومات ہیں۔ لیکن ورلڈ کپ ہمارے لیے امید کی کرن ہے۔‘

ٹیم کے لیے آگے کیا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ مثالی طور پر، وہ مزید دو طرفہ ٹورنامنٹ کھیلنا چاہتے ہیں لیکن سدھارتھ مونگا کا کہنا ہے کہ شاید بہت سے بورڈز افغانستان کے ساتھ میچ نہیں کھیلنا چاہتے کیونکہ ان کے پاس خواتین کی ٹیم یا ایسا ڈھانچہ نہیں ہے جو خواتین میں اس کھیل کو فروغ دے سکے۔

طالبان کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق کو دنیا میں سب سے زیادہ دبایا گیا ہے۔ افغانستان کی خواتین کرکٹ ٹیم اپنی جان کی حفاظت کے لیے آسٹریلیا میں پناہ لے لی۔

سدھارتھ مونگا کا کہنا ہے کہ ’لیکن ایک بات یقینی ہے، افغانستان میں کرکٹ میں صحیح اجزاء موجود ہیں۔ وہاں ایک نوجوان آبادی ہے جو کرکٹ کا جنون رکھتی ہے‘

منگل کے میچ کے بعد آٹھ پوائنٹس کے ساتھ افغانستان چھٹی پوزیشن پر ہے اور ان کا اگلا میچ جمعے کو ساؤتھ افریقہ کے ساتھ ہے۔

کپتان شاہدی نے کہا کہ ’مجھے ٹیم پر فخر ہے۔۔۔ ہم جنوبی افریقہ کے خلاف مزید مضبوط ہونے کی پوری کوشش کریں گے۔‘

واضح طور پر افغانستان ایک اور کرشمے کی امید کر رہا ہے۔ لیکن جنوبی افریقہ جانتا ہے کہ انھیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان نے اب تک ثابت کر دیا ہے کہ ان کے لیے تقریباً کچھ بھی ممکن ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More