کوہلی کی 49 سنچریوں کا ریکارڈ: جب سچن تندولکر نے خود کہا کہ ویراٹ ان کا ریکارڈ توڑیں گے

بی بی سی اردو  |  Nov 06, 2023

Getty Images

آپ نے انڈین کرکٹ ٹیم کے میچوں کے دوران سٹیڈیم میں موجود تقریباً ہر شخص کی جرسی پر ویراٹ کا نام دیکھا ہو گا۔ ورلڈ کپ 2023 کے میچز کے لیے سٹیڈیم میں موجود زیادہ تر شائقین کی نیلی جرسیوں پر نمبر 18 دیکھا جا سکتا ہے۔

انڈین کرکٹ کی دنیا میں ویراٹ کوہلی کی قدر کو سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے۔ ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا کہ اسے اتنا پیار ملے اور اس کے اتنی بڑی تعداد میں مداح ہوں۔ سچن تندولکر کے آتے ہی سٹیڈیم تالیوں سے گونج اٹھتا، لوگ تندولکر کے دیوانے تھے۔

اب ایسا لگتا ہے کہ ویراٹ نے سچن کی وراثت کو آگے بڑھایا ہے۔

کیونکہ گزشتہ روز ویراٹ کوہلی نے جنوبی افریقہ کے خلاف ورلڈ کپ کے میچ میں اپنی 49ویں سنچری مکمل کی ہے اور وہ سچن تندولکر کا ریکارڈ توڑنے والے پہلے بلے باز بن گئے ہیں۔

انھوں نے یہ ریکارڈ صرف 277 ون ڈے میچز میں برابر کیا جبکہ سچن نے یہ ریکارڈ 442 میچز میں بنایا تھا۔

آج سے تقریباً ایک دہائی قبل سچن تندولکر نے خود مارچ 2012 میں پیشگوئی کی تھی کہ ویراٹ اس روایت کو جاری رکھیں گے۔

یہ صنعتکار مکیش امبانی کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ میں سچن کی 100ویں سنچری کے اعزاز میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب تھی۔ مشہور اداکار سلمان خان نے سچن سے سوال کیا کہ آپ کی سنچری کا ریکارڈ کون توڑے گا؟

اس کے جواب میں سچن نے ویراٹ کوہلی اور روہت شرما کا نام لیا۔ اس وقت اس جواب نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔

تاہم پچھلی دہائی میں ویراٹ نے واقعی یہ کارنامہ انجام دیا اور وہ سچن کی سنچریوں کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑنے کے بہت قریب ہیں۔

ایک زمانے میں انھیں ان کے جارحانہ رویے کی وجہ سے ’بیڈ بوائے‘ کہا جاتا تھا لیکن ویراٹ نے اب نہ صرف انڈین شائقین بلکہ پوری دنیا کے کرکٹ شائقین کے دلوں میں اپنے لیے ایک منفرد مقام بنا لیا ہے۔

کرکٹ سفیر

ممبئی میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے اجلاس میں سنہ 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس میں کرکٹ کو شامل کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا ہے اور اس فیصلے کی حمایت کے لیے ویراٹ کی مثال دی گئی۔

سابق اولمپیئن اور 2028 کےپیرا اولمپک کھیلوں کے ڈائریکٹر نکولو کیمپریانی کا کرکٹ کی مقبولیت کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ ’آج ویراٹ کوہلی سوشل میڈیا پر تیسرے مقبول ترین ایتھلیٹ ہیں۔ ان کے تقریباً 340 ملین فالوورز ہیں۔‘

اس طرح ’برانڈ کوہلی‘ بھی کرکٹ کی دنیا کو فائدہ پہنچا رہے ہیں لیکن یہ کامیابی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ اس سفر میں انھیں بہت سی چیزوں کا سامنا کرنا پڑا۔

سخت محنت، زیادہ توقعات کا دباؤ، مسلسل کارکردگی دکھانے کا دباؤ اور یقیناً ذہنی سختی یہ سب ان کے سفر کا حصہ تھے۔

Getty Imagesجب ویراٹ اپنے والد کی موت کے بعد بھی کھیلے

ویراٹ کوہلی کتنے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اس کا علم سنہ 2006 میں ہوا تھا۔ ویراٹ کے والد پریم کوہلی کو دل کا دورہ پڑا۔ وہ اس وقت بستر مرگ پر تھے۔ ویراٹ کی عمر اس وقت صرف 17 سال تھی اور وہ اس وقت دہلی ٹیم کے لیے رنجی کرکٹ کھیل رہے تھے۔

فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم میں کرناٹک کے خلاف رنجی میچ میں ویراٹ دوسرے دن کے اختتام تک ناٹ آؤٹ رہے۔ رات گئے پریم کوہلی کو سانس لینے میں تکلیف ہوئی اور اچانک علی الصبح ان کی موت ہو گئی۔ ویراٹ نے اس دن اپنے والد کو کھو دیا۔

ویراٹ کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ تھا کیونکہ ان کے والد نے بھی ان کے کرکٹ سفر میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اچانک وہ دنیا سے چلے گئے اور اس وقت ویراٹ انھیں الوداع کہنے کے لیے بھی نہیں تھے لیکن ویراٹ اس وقت بھی مضبوط رہے۔

صبح انھوں نے دہلی کے کوچ چیتن شرما کو فون کیا، جو کچھ ہوا اس کی خبر دی اور اپنی اننگز مکمل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ والد کی موت کے بعد بھی سٹیڈیم گئے۔مگر جب وہ وہاں اپنے ساتھیوں سے ملے تو رو پڑے لیکن وہ پھر اپنے آنسو پونچھ کر میدان کی طرف چل پڑے۔ اس دن انھوں نے 90 رنز بنائے تھے۔

اس مشکل وقت کے دوران ویراٹ کی حیرت انگیز ہمت اور لگن نے ان کے حریفوں کو بھی حیران کر دیا تھا اور پھر اپنی اننگز پوری کرنے کے بعد وہ اپنے والد کی آخری رسومات میں شریک ہوئے تھے۔

ویراٹ کی والدہ سروج نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اس رات ویراٹ اچانک سمجھدار ہو گئے۔‘

انھیں گھر کی تمام ذمہ داریاں اپنے بڑے بھائی وکاس کے ساتھ نبھانی پڑیں۔ ویراٹ نے اس کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

Getty Imagesویراٹ کا نام ’چیکو‘ کیسے پڑا؟

ایک بار انڈیا اور انگلینڈ کے میچ کے دوران مہندر سنگھ دھونی نے وکٹ کیپنگ کے دوران ویراٹ کوہلی کو میدان میں پیار سے ’چیکو‘ کہہ کر پکارا تھا۔ اس کے بعد وہ دنیا کے لیے بھی ’چیکو‘ بن گئے۔

اس کے علاوہ جب ویراٹ نے بہت چھوٹی عمر میں دہلی کے لیے رنجی کرکٹ کھیلنا شروع کی تو انھیں اپنے بالوں کے ساتھ بہت محتاط رہنا پڑا۔

انھوں نے اپنے بال بہت چھوٹے رکھے تھے۔ اس وقت ان کے گال بھی بچوں کی طرح گول تھے جس کی وجہ سے وہ بالکل معصوم اور پیارے لگتے تھے۔

انھیں دیکھ کر دہلی ٹیم کے کوچز میں سے ایک نے انھیں بچوں کی مشہور مزاحیہ کتاب ’چمپک‘ کے چیکو نامی خرگوش کے کردار کی یاد دلائی۔

وہ خود ویراٹ کو چیکو کے نام سے پکارتے تھے۔

انڈر 19 ورلڈ کپ میں فتح اور ٹیم انڈیا میں انٹری

فروری 2008 میں، ویراٹ کوہلی کی قیادت میں انڈیا نے ملائیشیا کے کوالالمپور میں منعقدہ انڈر 19 ورلڈ کپ جیتا۔

یہاں تک کہ ایک انڈر 19 کرکٹر کے طور پر، ویراٹ نے کھیل سے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ اگلے چھ ماہ میں انھوں نے انڈیا کی قومی کرکٹ ٹیم میں اپنی جگہ بنا لی۔

سنہ 2008 میں سری لنکا کے دورے کے دوران سچن تندولکر اور وریندر سہواگ کے زخمی ہونے کی وجہ سے ویراٹ کو انڈین ٹیم میں جگہ ملی۔ انھوں نے ون ڈے انٹرنیشنل سیریز میں ڈیبیو کیا جہاں انھوں نے اپنی نصف سنچری بنائی۔

سنہ 2010 میں ویراٹ کو زمبابوے کے خلاف ہرارے میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی میچ کے لیے سکواڈ میں منتخب کیا گیا تھا۔

Getty Images

سنہ 2011 میں انھوں نے ویسٹ انڈیز کے دورے کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کرکٹ ٹیم میں اپنی جگہ حاصل کی۔ ویراٹ لیگ کے افتتاحی سیزن سے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں رائل چیلنجرز بنگلور ٹیم کا حصہ تھے۔

ویراٹ کی اپنے کھیل میں مستقل مزاجی اور رنز بنانے کے جذبے نے انھیں سچن تندولکر کے برابر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ویراٹ کو اکثر عالمی کرکٹ میں اگلے ’سچن‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ویراٹ نے خود سچن تندولکر سے رہنمائی حاصل کی۔

وہ ویراٹ ہی تھے جنھوں نے 2011 ورلڈ کپ کا فائنل جیتنے کے بعد سچن کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور سٹیڈیم کا چکر لگایا تھا۔

ویراٹ کی انتھک محنت، ہمت اور عزم نے انھیں کھیل کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

آسٹریلیا میں سنہ 2011-12 کی سیریز میں اگرچہ ٹیم انڈیا بری طرح سے ہار گئی تھی لیکن ویراٹ کے لیے یہ قابل ذکر تھی کیونکہ انھوں نے اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری اسی سیریز کے دوران سکور کی، جو ان کے کیریئر میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔

جب ان کے ساتھی بلے باز ایک ایک کر کے اپنی وکٹیں کھو رہے تھے، ویراٹ میدان میں ڈٹے رہے اور اپنے مخصوص شاٹس کی مدد سے سنچری مکمل کی۔

تندولکر، ڈریوڈ اور گوتم گمبھیر جیسے بڑے کھلاڑی بھی اس دن کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ اس سنچری کے ساتھ ہی انڈین کرکٹ میں ’ویراٹ دور‘ کے آغاز کا اعلان ہو گیا۔

Getty Imagesنئی نسل کے اٹیکنگ کھلاڑی

سنہ 2011-12 میں آسٹریلیا کے دورہ انڈیا کے دوران ویراٹ کوہلی کا جارحانہ انداز اور شوخ مزاجی موضوع بحث رہی۔

وہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کے جارحانہ انداز سے خائف نہیں ہوئے اور انھوں نے بھی آسٹریلوی کھلاڑیوں کی جانب جارحانہ انداز اپنایا۔ ویراٹ آسٹریلیا کے مشہور جارحانہ کھلاڑیوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی ثابت قدم رہے۔

نئی نسل کے نڈر انڈین کھلاڑی آسٹریلیا میں اگلی کرکٹ سیریز میں نظر آئے۔ سنہ 2014-15 کے دورے کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جہاں ویراٹ میدان میں مچل جانسن سے ٹکرا گئے، جس کے بعد امپائر کو مداخلت کرنا پڑی۔

بہت سے لوگوں کے لیے یہ انڈین کرکٹ کا نیا چہرہ تھا۔

درحقیقت، بین الاقوامی کرکٹ کی تبدیلی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) اور ٹوئنٹی 20 کرکٹ فارمیٹ کے متعارف ہونے کے ساتھ واضح ہو گئی، جو بین الاقوامی کرکٹ کے منظر میں ویراٹ کی انٹری کے ساتھ کارگر ثابت ہوئیں۔

ویرات نہ صرف انڈین کرکٹ کے نمائندے بنے بلکہ انھوں نے ملک کی نئی نسل کی بھی نمائندگی کی، جو اپنی خود اعتمادی کے ساتھ ان جیسے اونچے خواب دیکھ رہی تھیں۔

ان کی جارحانہ اور بعض اوقات سخت طبیعت نے انھیں کئی مواقع پر مشکل میں بھی ڈالا۔ اس وقت بہت سے لوگوں کو ان کی باتیں اور متکبرانہ رویہ پسند نہیں آیا۔

لیکن ’بہتر کھیل‘ کے ان کے مضبوط عزم کو نہ صرف نوجوان انڈین شائقین نے پسند کیا بلکہ انھیں دنیا بھر کے نوجوانوں نے بھی خطرہ محسوس کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ، اکثر ان کے ساتھی بشمول اس وقت کے کپتان ایم ایس دھونی نے ویراٹ کی محنت اور لگن کی تعریف کی۔

ویرات کوہلی کے کام کرنے کے انداز اور عاجزی کی اکثر ان کے ساتھی کھلاڑی مہندر سنگھ دھونی اور دیگر بھی تعریف کرتے ہیں۔

ان کی محنت کے لیے لگن اور ’جذبے سے کھیلنے‘ کے رویے نے آسٹریلوی کرکٹ شائقین کو متاثر کیا اور ساتھ ہی آسٹریلوی عوام میں ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔

ان کے مداحوں کی فہرست انڈیا سے باہر تک پھیلی ہوئی ہے، یہاں تک کہ کچھ پاکستانی شائقین بھی ویراٹ کے عزم اور کھیل کے انداز کی تعریف کرتے ہیں۔

شائقین کو دورہ ویسٹ انڈیز کی ایک ویڈیو ضرور یاد ہو گی جب جولائی 2023 میں، ٹیم انڈیا کے ٹرینیڈاڈ کے دورے کے دوران، ویسٹ انڈیز کے وکٹ کیپر جوشوا ڈی سلوا کی والدہ نے ویراٹ سے ملاقات کی تھی۔

Getty Images’چیز ماسٹر‘

ویراٹ کو کرکٹ کھیلتے دیکھنا، خاص طور پر جب وہ اپنے گراؤنڈ سٹروکس اور کور ڈرائیوز مارتے ہیں۔

یہاں تک کہ جب آؤٹ سوئنگ یا آف سٹمپ گیندوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اکثر گیپ تلاش کرتے ہیں۔ ویراٹ جب رنز کا تعاقب کرنے کے لیے میدان میں اترتے ہیں تو انھیں روک پانا مشکل ہو جاتا ہے۔

ویراٹ کو ون ڈے کرکٹ میں ’رن چیز‘ کرنے کے فن میں مہارت حاصل ہے۔

ایک روزہ میچوں میں کیریئر

ویراٹ دنیا میں جہاں بھی کھیلے انھوں نے شاندار بلے بازی کا مظاہرہ کیا۔

کون سا شاٹ کب کھیلنا ہے، سکور بورڈ پر شراکت داری قائم کرنا یا اٹیکنگ بولرزکا سامنا کرنا یہ سب ان کی حکمت عملیوں میں شامل ہے۔

ان کی حکمت عملی میں پچ اور حالات کا اندازہ لگانا اور ضرورت کے مطابق حکمت عملی تبدیل کرنا شامل ہے۔ یہ ویراٹ کے گیم پلے کی منفرد خصوصیات ہیں۔

وہ اپنی فٹنس کے بارے میں اتنے ہی محتاط ہیں۔ 2018 میں، صحت کے مسائل کی وجہ سے ویراٹ نے سبزی خور بننے کا فیصلہ کیا، جس کا مطلب ہے کہ انھوں نے اپنی خوراک سے گوشت کے ساتھ ساتھ دودھ سے بنی مصنوعات کو بھی ختم کر دیا۔ وہ اپنی خوراک اور ورزش کا بہت خیال رکھتے ہیں۔

ان کا اعتماد، کھیل کے لیے لگن، توجہ، نظم و ضبط، جذبہ اور ہم آہنگی ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ان خوبیوں نے ویراٹ کو انڈین کرکٹ میں ایک خاص مقام دلایا اور وہ دھونی کی ریٹائرمنٹ کے بعد کپتانی کی ذمہ داری بھی نبھا چکے ہیں مگر کرکٹ ٹیم کی کپتانی ان کے کیرئیر کے لیے کچھ مشکل ثابت ہوئی۔

Getty Imagesکپتانی: کانٹوں کا تاج

ویراٹ کوہلی کو 2014 میں آسٹریلیا کے دورے کے دوران غیر متوقع طور پر انڈین کرکٹ ٹیم کی کپتانی سونپی گئی تھی جب اس وقت کے کپتان مہندر سنگھ دھونی کی انگلی میں چوٹ آئی تھی، جو ایڈیلیڈ میں ہونے والے ٹیسٹ میچ سے قبل مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہو پائے تھے۔

اس طرح کوہلی کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کرنے کا پہلا موقع ملا، جو انھوں نے بخوبی ادا کی۔ بطور کپتان اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں کوہلی نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

انھوں نے 2022 تک 68 ٹیسٹ میچوں میں انڈین کرکٹ ٹیم کی قیادت کی۔ ان میں سے انڈیا نے 40 میچ جیتے جبکہ 17 میں شکست ہوئی۔ ٹیسٹ میں بطور کپتان ان کی جیت کی شرح 58.82 فیصد ہے۔

تاہم ان کی قیادت میں انڈیا نے ون ڈے کرکٹ میں 95 میچ کھیلے، جن میں سے 65 جیتے۔ ان میں سے 24 انڈیا میں اور 41 میچز بیرون ملک کھیلے گئے۔بطور کپتان کوہلی کی ون ڈے کرکٹ میں جیت کی مجموعی شرح 68.42 فیصد ہے۔

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کوہلی کی زیر کپتانی انڈیا نے 66 میں سے 50 میچ جیتے اور صرف 16 ہارے ہیں اور ان کی جیت کی شرح 64.58 ہے۔

اگرچہ ویراٹ بطور کپتان آئی سی سی ٹورنامنٹ کا کوئی ٹائیٹل نہیں جیت سکے لیکن ان کے اعدادوشمار ان کی شاندار کامیابیوں کو اجاگر کرتے ہیں اور یقیناً انھیں انڈین کرکٹ کے عظیم کپتانوں میں شمار کرتے ہیں۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ کپتانی کانٹوں کا تاج ہے اور ویراٹ کا تجربہ بھی اس سے مختلف نہیں۔

سنہ 2019 میں بطور بلے باز ان کی کارکردگی میں کمی آنا شروع ہو گئی۔ جس کے بعد انھوں نے ٹی ٹوئنٹی اور بعدازاں ایک روزہ بین الاقوامی اور ٹیسٹ کی کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور انڈین کرکٹ بورڈ نے ان کی جگہ روہت شرما کو کپتان بنا دیا۔

اس فیصلے نے انڈین فینز اور کرکٹ کی خبروں میں کافی بحث چھیڑ دی اور بہت سی ایسی باتیں ہونے لگیں کہ ایک میان میں دو تلواریں یا دو شیر کبھی ایک جنگل میں نہیں رہ سکتے وغیرہ وغیرہ۔

حالانکہ ویراٹ اور روہت دونوں نے واضح کر دیا تھا کہ ان کے درمیان کوئی دشمنی نہیں۔

ویراٹ کی دوسری اننگز

سال 2021-22 ویراٹ کوہلی کے لیے ایک مشکل دور لے کر آیا۔ ان کا بلا، جو آسانی سے رنز بنانے کے لیے جانا جاتا ہے، اپنا جادو کھوتا دکھائی دے رہا تھا۔ کرکٹ کھیلنے کی مسلسل محنت نے انھیں تھکا دیا تھا۔ ان کی جدوجہد ان کی بلے بازی کی کارکردگی سے عیاں تھی۔

سال 2022 میں، ویراٹ نے ایک ماہ کا وقفہ لیا، جو کسی ایسے شخص کے لیے ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو 2008 سے کھیل کے تمام فارمیٹس میں مسلسل کھیل رہا تھا۔

تاہم، ویراٹ نے ایشیا کپ میں شاندار واپسی کی جب انھوں نے افغانستان کے خلاف میچ میں سنچری بنائی۔ 2022 کے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انھوں نے پاکستان کے خلاف ایک شاندار اننگز کھیلی، 82 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے اور ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا۔

اس کے بعد سے ویراٹ نے اپنی فارم دوبارہ حاصل کر لی ہے اور نئے جوش کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اب وہ ٹیم میں ایک سینئر کھلاڑی کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو ایک نئے تناظر کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

لیکن یہ واپسی آسان نہیں تھی۔ 2022 میں سٹار سپورٹس کو انٹرویو دیتے ہوئے ویراٹ نے انکشاف کیا تھا کہ ’میں نے تقریباً ایک ماہ تک اپنا بیٹ نہیں اٹھایا۔ پچھلے دس سال میں پہلی بار ایسا ہو رہا تھا۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ یہ سب سطحی ہے۔ میں مسلسل اپنے آپ سے کہہ رہا تھا کہ میرے پاس صلاحیت ہے، مجھ میں صلاحیت ہے۔ میرا ذہن مجھے آگے بڑھنے کو کہہ رہا تھا، اسی وقت میرا جسم مشورہ دے رہا تھا کہ مجھے آرام کرنا چاہیے۔ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ مجھے وقفہ چاہیے۔‘

ویراٹ کی جانب سے ذہنی صحت پر کھل کر بات کرنے کو بہت سے لوگوں نے سراہا۔ ان کی کھلے پن اور بے تکلفی نے دکھایا کہ ان جیسا ذہنی طور پر مضبوط انسان بھی مشکل وقت سے گزر سکتا ہے۔ انھوں نے دوسروں کو اچھی ذہنی صحت کی اہمیت کو سمجھنے کی ترغیب دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ذہنی طور پر مضبوط ہوں لیکن ہر ایک کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ آپ کو ان حدود کو جاننے کی ضرورت ہے، ورنہ چیزیں گڑبڑ ہو جاتی ہیں۔‘

’میں ذہنی طور پر جدوجہد کر رہا تھا اور اب مجھے اس کا اعتراف کرنے میں کوئی پریشانی نہیں۔ اب مجھے ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ آپ مضبوط ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو کسی بھی جدوجہد کو چھپاتے ہوئے ہمیشہ اپنا مضبوط پہلو دکھانا ہو گا۔‘

Getty Imagesانوشکا کے ساتھ تعلقات

ویراٹ اور انوشکا کی پہلی ملاقات 2013 میں ایک شیمپو کمرشل کی شوٹنگ کے دوران ہوئی تھی۔ شروع میں ان کی دوستی تھی جو بعد میں رومانوی رشتے میں بدل گئی۔

جب ویراٹ نے 2014 میں انڈیا کے دورہ انگلینڈ کے دوران عوامی طور پر انوشکا کو اپنی گرل فرینڈ کے طور پر قبول کیا تو انھیں انوشکا کو ٹور پر لے جانے کی اجازت دی گئی جو ان کے تعلقات میں باضابطہ طور پر ایک سنگ میل تھا۔

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ایک کامیاب کرکٹر اور ایک سٹار اداکارہ کی جوڑی سے متعلق خبریں نہ بنتیں۔ ان کا رشتہ ان کے بندھن کی وجہ سے موضوع بحث رہا ہے۔

لیکن انھیں ابتدا میں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کیونکہ دورہ انگلینڈ کے دوران ویراٹ اپنی فارم میں نہیں آ سکے اور اس وقت انوشکا ان کے ساتھ تھیں۔ مداحوں نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ کسی بھی چیز کے بجائے کھیل پر توجہ دیں۔

ویراٹ اور انوشکا دونوں نے ان تبصروں کو نظر انداز کیا لیکن 2016 میں انھیں ایک بار پھر اسی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب ویراٹ کھل کر انوشکا کے ساتھ کھڑے ہوئے۔

تقریباً ایک سال بعد 2017 میں انھوں نے میڈیا اور عوام کی توجہ سے ہٹ کر اٹلی میں ایک نجی تقریب میں شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔

جب جوڑے کی بیٹی وامیکا کی پیدائش ہوئی تو ویراٹ نے پیٹرنٹی چھٹی بھی لی۔ اپنی شہرت اور مشکل کیریئر کے باوجود، اس مشہور جوڑے نے دکھایا کہ کس طرح اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More