پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور فلم ہدایت کار78 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔پیر کے روز لاہور کے شیخ زید ہسپتال کی انتظامیہ نے ان کی موت کی خبر کی تصدیق کی جہاں وہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کے باعث زیرِ علاج تھے۔آغا حسن عسکری کا شمار پاکستان کی فلم انڈسٹری کے ان ہدایت کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے 70 اور 80 کی دہائیوں میں اس شعبے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔آغا حسن عسکری کی پہلی فلم ’خون پسینہ‘ تھی جو انہوں نے 1972 میں بنائی۔ اس فلم کی کاسٹ میں مرکزی کردار لالہ سدھیر اور فردوس کا تھا جبکہ سلطان راہی بھی اس فلم کا حصہ تھے۔کہا جاتا ہے کہ سلطان راہی کو سلطان راہی بنانے والے آغا حسن عسکری تھے۔پاکستان کے شوبز کو پچھلی چار دہائیوں سے رپورٹ کرنے والے سینیئر صحافی طاہر سرور میر کہتے ہیں کہ ’میرا آغا صاحب سے 35 سالہ پرانا تعلق تھا۔ ان کے ہاتھوں میں جادو تھا۔ کسی کردار کو اٹھاتے تھے تو آسمان پر پہنچا دیتے تھے۔ سلطان راہی، مصطفیٰ قریشی، انجمن اور بابرہ شریف پاکستان کی فلم انڈسٹری کے وہ نام ہیں جن کا جنم آغا حسن عسکری کے ہاتھوں ہوا۔‘فلمی شعبے سے وابستہ ناقدین اس بات متفق ہیں کہ جب پنجابی فلموں میں مار دھاڑ کے کلچر کا آغاز ہوا تو اس کے بانی بھی آغا حسن عسکری ہی تھے۔طاہر سرور میر بتاتے ہیں کہ ’ان کی پہلی فلم ’وحشی جٹ‘ تھی جس نے پنجابی سنیما میں ہلچل پیدا کی۔ لیکن اس میں کئی چیزیں رہ گئی تھی۔ بعد میں جب ناصر ادیب اپنی کہانی لے کر سٹوڈیوز کے چکر لگا رہے تھے تو اس کہانی کو پذیرائی آغا صاحب نے بخشی اور پھر ’مولاجٹ‘ کا ظہور ہوا۔‘ناصرادیب کی کہانی کو مولا جٹ کا روپ عطا کرنے والے حسن عسکری تھے (فائل فوٹو: پوسٹر، مولاجٹ)’گو کہ وہ فلم آغا یونس کی ہدایت کاری میں بنی لیکن ناصرادیب کی کہانی کو مولا جٹ کا روپ عطا کرنے والے حسن عسکری تھے۔ انہوں نے جو کچھ ’وحشی جٹ‘ سے سیکھا تھا اسے ’مولاجٹ‘ کا حصہ بنا دیا۔‘خیال رہے کہ آغا حسن عسکری نے پنجاب، اردو اور پشتو میں 60 سے زائد فلمیں بنائیں۔ دس فلموں کے پروڈیوسر بھی خود تھے۔ ان کی اردو زبان کی مشہور زمانہ فلم ’سلاخیں‘ تھی جو انہوں نے 1977 میں بنائی اور اس کے بعد وہ پاکستان کی فلمی صنعت کے لیے کامیابی کی ضمانت بن گئے۔طاہر سرور میر ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’90 کی دہائی پاکستان کی فلم انڈسٹری کے عروج کی آخری دہائی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک نہ ختم ہونے والے زوال کا آغاز ہوا۔ سنہ2000 کے بعد یہ انڈسٹری تقریبا بانجھ ہو گئی۔ حسن عسکری نے کوشش کر کے ایک دو فلمیں دیں لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس زوال نے اس شعبے سے وابستہ بڑے بڑے جادوگروں کو کھا لیا۔‘انہوں نے بتایا کہ ’میری ان سے جب آخری ملاقات ہوئی تو وہ کسمپرسی میں تھے۔ اگر یہ کوئی اور ملک ہوتا اور یہ انڈسٹری تباہ نہ ہوتی تو وہ کئی دہائیاں اور زندہ رہتے۔‘