Getty Images
یہ محض دکھ نہیں۔ یہ کرب سے بھی پرے کی کوئی شے ہے۔ گو شکست ہمیشہ تلخ ہی ہوتی ہے مگر اس شکست کی تلخی میں یہ الم بھی ہے کہ جب تک پاکستان کی اصل روح بیدار ہوئی، تب تک کہانی ختم ہو چکی تھی۔
جس بِنا پہ پاکستانی بولنگ کو دنیا کا بہترین اٹیک قرار دیا جاتا تھا، وہ بِنا تو بھرپور قوت سے زندہ ہوئی مگر تب تک مقابلہ بہت آگے بڑھ چکا تھا اور پاکستان وقت سے پیچھے لڑھک رہا تھا۔
ٹی ٹونٹی کرکٹ چونکہ بہت چھوٹے چھوٹے مارجنز کی گیم ہوتی ہے، سو وہاں بسا اوقات ابتدائی کوتاہیاں بھی بعد کی جرات آزمائی میں دب جایا کرتی ہیں اور ایک اچھی اننگز یا ایک ہی بہترین سپیل فیصلہ کرنے کو کافی ہو رہتا ہے مگر ون ڈے کرکٹ ٹی ٹونٹی سے کہیں زیادہ ٹیسٹ کرکٹ کے قریب ہے۔
یہاں لمحوں کی خطا بسا اوقات گھنٹوں کی محنت پر بھاری پڑ جایا کرتی ہے۔ جو غلطی پاکستان پہلے دن سے اس ٹورنامنٹ میں کرتا چلا آ رہا ہے، چنئی میں ایک بار پھر وہی غلطی دہرائی گئی اور اعتماد کی بجائے احتیاط سے آغاز کو ترجیح دی گئی۔
عبداللہ شفیق کا آغاز بہت ہی محتاط تھا۔ امام الحق کے قدم حرکت سے گریزاں تھے۔ جب بلے باز یوں اپنی بقا کی جنگ میں محو ہو تو یہ کسی بھی بولر کے لیے تقویت کی نوید ہوتی ہے۔ جو تکنیکی معذوریاں امام الحق کی بلے بازی کا خاصہ ہیں، وہ اب دنیا کے ہر بولر پر آشکار ہو چکی ہیں۔
Getty Images
یہ لکھتے لکھتے قلم تھک چکے کہ ان کنڈیشنز میں جب تک نئے گیند پر پہلے پاور پلے کا فائدہ نہیں اٹھایا جائے گا، تب تک عالمی سطح کی مسابقت ایک خام خیالی ہی رہے گی۔ جو کام بیٹنگ سائیڈ کو پہلے تیس اوورز میں کر گزرنا چاہیے، وہ کام ہمیشہ آخری بیس اوورز پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر خود بقا کی جنگ لڑ کر لوئر آرڈر سے ہمیشہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ کوئی معجزہ کر گزریں گے مگر پرانی گیند کے ساتھ سلو کٹرز اور ہلکی پھلکی ریورس سوئنگ اکثر ان سارے ارمانوں کو بہا لے جایا کرتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ یہاں کسی نابغے نے افتخار احمد کو سعود شکیل سے بھی پہلے بھیجنے کا فیصلہ کر لیا جب سپنرز سرگرم تھے۔
بلاشبہ بابر اعظم نے یہاں غالباً اپنے کرئیر کی بہترین کپتانی کر چھوڑی اور پاکستانی بولرز نے بھی اننگز کے دوسرے مرحلے میں کایا یوں پلٹی کہ جنوبی افریقی ڈریسنگ روم کی سانسیں دشوار ہو گئیں۔ مگر یہاں فرق نمایاں تھا تو پھر پہلے پاور پلے کا ہی، کہ وہیں سے جنوبی افریقی بیٹنگ نے جیت کی بنیاد ڈالی اور وہیں سے پاکستانی بیٹنگ نے بھی اپنی شکست کی راہ ہموار کی۔
Getty Images
یہ کرب ناک ہے کہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو مسلسل چار میچز میں شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ اگرچہ اس سے پہلے کی ناکامیوں میں بلے بازی، فیلڈنگ، بولنگ اور بابر اعظم کی قیادت برابر کے ذمہ دار تھے مگر یہاں بابر اعظم کی کپتانی کا اتنا دوش نہیں تھا۔
یہاں دوش تھا تو اوپنرز کی مدافعانہ بیٹنگ کا تھا، یہاں دوش تھا تو اس جینئس کا تھا جس نے افتخار احمد کو مڈل اوورز میں بیٹنگ پر بھیجنے کا فیصلہ کیا اور پاکستانی بیٹنگ پچاس اوورز بھی نہ گزار پائی۔
اور یہاں سب سے بڑا دوش تھا پی سی بی کی سیاست آلود راہداریوں کا کہ جہاں متمکن لوگ فقط اپنی من پسند تعیناتیوں اور مراعات کے حصول کی تگ و دو میں ہی رہتے ہیں اور فیصلے ہمیشہ میڈیا پر چلتی ہواؤں کے رخ دیکھ کر کرتے ہیں۔
یہ کسی پروفیشنل ادارے کا رویہ نہیں ہوتا کہ جیت کی صورت میں کریڈٹ لینے کو تو ہمیشہ پہل کرے اور ہار کی صورت میں ملبہ گرنے پر کپتان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے، خود ہاتھ جھاڑ کر بری الذمہ ہو جائے۔ دو روز پہلے جس پریس ریلیز سے چئیرمین نے خود کو اس ٹیم سلیکشن اور کارکردگی سے منہا کیا، وہ بے حد شرمناک تھی۔
مگر کیا کیجے کہ جب تک چئیرمین کا انتخاب کرکٹ کے علاقائی منتظمین کی بجائے کھیل سے یکسر نابلد وزرائے اعظم کرتے رہیں گے، تب تک یہی کرب پاکستان کا مقدر رہے گا۔