ورلڈ کپ کے بیچ سکواڈ سے متعلق متنازع بیان اور میڈیا مینیجر کی پاکستان واپسی: ’ٹیم سے بھی بُری پرفارمنس بورڈ کی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Oct 27, 2023

Getty Images

’کپتان بابر اعظم اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کو ان کی مرضی کی ٹیم کا انتخاب کرنے کے لیے حمایت اور آزادی دی گئی تھی۔۔۔ بورڈ پاکستان کرکٹ کے بہتر مفاد میں ورلڈ کپ میں ٹیم کی پرفارمنس کی بنیاد پر ٹورنامنٹ کے بعد فیصلے کرے گا۔‘

یہپاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان اور جنوبی افریقہ کے میچ سے قبل شائع کی جانے والی پریس ریلیز سے لیا گیا اقتباس ہے۔ اس میں جہاں پاکستان کرکٹ فینز کو ٹیم کی حمایت جاری رکھنے کا کہا گیا ہے وہیں بظاہر ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا بوجھ کپتان بابر اعظم اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کے سر ڈال کر بورڈ نے بظاہر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی ہے۔

پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ یہ بیان ایک ایسے موقع پر جاری کیا گیا ہے جب پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ میں لگاتار تین میچ ہار چکی ہے اور افغانستان سے تازہ ترین شکست کے بعد اس کے سیمی فائنل تک رسائی بہت مشکل دکھائی دے رہی ہے اور مجموعی طور پر ٹیم دباؤ میں بھی ہے۔

گذشتہ روز سوشل میڈیا پر پی سی بی کے اس بیان کے حوالے سے خاصی تنقید کی جا رہی تھی اور ورلڈ کپ کے وسط میں دباؤ کا شکارپاکستان ٹیم کے کپتان کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال انتہائی غیر مناسب تھا۔

ابھی یہ تنقید چل ہی رہی تھی کہ پی سی بی کی جانب سے انڈیا میں موجود میڈیا مینیجر احسن افتخار ناگی کو پاکستان واپس بلانے کی خبر سامنے آ گئی۔

پی سی بی کی ترجمان عالیہ رشید سے اس حوالے سے بات کرنے کے لیے بارہا رابطہ کیا گیا تاہم انھوں نے اس تحریر کی اشاعت تک کوئی جواب نہیں دیا۔ اس بارے میں پی سی بی چیئرمین ذکا اشرف سے بھی بات رابطہ کیا گیا تاہم انھوں نے فون نہیں اٹھایا۔

گذشتہ روز پاکستان کرکٹ ٹیم کوئی میچ تو نہیں کھیل رہی تھی تاہم اس دن لیے گئے فیصلے پاکستان میں کرکٹ کو درپیش مسائل کے عکاس ضرور تھے۔ اس پریس ریلیز سے بورڈ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے اور بورڈ نے بیچ ٹورنامنٹ اپنے میڈیا مینیجر کو انڈیا سے واپس کیوں بلوایا ہے؟

Getty Images’یہ پریس ریلیز ابھی نہیں جاری ہونی چاہیے تھی‘

پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد وسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ٹیم کی سلیکشن کبھی چیئرمین پی سی بی نہیں کرتا بلکہ یہ ٹیم کے کپتان اور چیف سلیکٹر کی مرضی سے چنی جاتی ہے۔‘

محمد وسیم خود بھی بطور چیف سلیکٹر پی سی بی کے لیے ذمہ داری نبھا چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس وقت پی سی بی کو یہ حقیقت بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس پر تو ورلڈ کپ کے بعد بھی بات ہو سکتی تھی۔‘

محمد وسیم کے مطابق اس پیغام کو غلط ہی سمجھا جائے گا اور اس کے ٹیم پر بھی اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

کرکٹ کمنٹیٹر اور تجزیہ کار آصف احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ پریس ریلیز ٹورنامنٹ کے عین بیچ میں جاری نہیں ہونی چاہیے تھی اور نہ ہی میڈیا مینیجر کو یوں نکالنا چاہیے تھا۔ ان کے مطابق اس وقت پے در پے میچ ہارنے کے بعد ٹیم کے حوصلے بڑھانے کی ضرورت تھی جبکہ ایسے اقدامات تو ’مورال‘ پست کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

آصف کے مطابق پریس ریلیز بتا رہی ہے کہ بورڈ میں سب اچھا نہیں چل رہا۔ ٹیم کی سلیکشن کے وقت یہ باتیں دیکھنی چاہیے تھیں کہ ٹیم میں کون کون ہونا چاہیے اور بابر کے لیے کون سی چیزیں مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔‘

ان کے مطابق اب پی سی بی نے جو نیا محاذ کھول دیا ہے اس سے کھلاڑیوں کی کارکردگی اور ان کے انتخاب پر مزید غیر ضروری بحث شروع ہو جائے گی۔

میڈیا مینیجر کو ٹورنامنٹ کے درمیان واپس کیوں بلایا گیا؟

پاکستان اور آسٹریلیا کے میچ کے روز یعنی 20 اکتوبر کو کھیلوں کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی عبدالماجد بھٹی نے ایک ٹویٹ کیا جس میں چیئرمین ذکا اشرف اور سی او او سلمان نصیر کو مخاطب کر کے کہا گیا تھا کہ ’پروفیشنل ازم کے اس دور میں چیئرمین ذکا اشرف اور سی او او سلمان نصیر پاکستان ٹیم کے میڈیا منیجر احسن ناگی سے میڈیا کی جان چھڑوا دیں تو پی سی بی کا سافٹ امیج بہتر ہو گا۔

’جھوٹ اور فائیو سٹار لگژری کے مزے میں انسان اوقات بھول جاتا ہے۔‘ اس ٹویٹ کے علاوہ انڈیا میں موجود چند دیگر صحافیوں نے بھی میڈیا مینیجر پر الزامات عائد کیے تھے۔

تاہم صحافی عبدالماجد بھٹی سے جب ایک انٹرویو کے دوران صحافی وحید خان نے میڈیا مینیجر سے متعلق ان کے خدشات کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے میڈیا مینیجر پر کچھ ذاتی الزامات بھی عائد کیے۔ انھوں نے مرکزی مسئلہ یہ بیان کیا کہ انھیں انٹرویو کے لیے کھلاڑی نہیں دیے جا رہے اور اس حوالے سے مساوی سلوک نہیں برتا جا رہا ہے۔

پی سی بی سے ان الزامات کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ماجد بھٹی نے بی بی سی سے بھی اس حوالے سے تفصیل سے بات کی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان سمیت کچھ صحافیوں نے صرف اس بات پر احتجاج کیا تھا کہ جو اطلاعات جاری کی جاتی ہیں وہ سب صحافیوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر شیئر کی جائیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ احسن ناگی کو ہٹائے جانے سے میڈیا کے تحفظات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ پی سی بی کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم مینیجر کو واپس بھیجنے کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد انھوں نے ٹویٹ کیا کہ ’غرور اور تکبر اللہ تعالی کو پسند نہیں، بے آبرو ہو کر پرسوں لاہور روانہ ہو گا۔۔۔ شکریہ ذکا صاحب۔‘

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ انڈیا کون سا میڈیا مینیجر جائے گا، اس حوالے سے تنازع ورلڈکپ سے پہلے شروع ہو چکا تھا۔ صحافیوں کی جانب سے میڈیا مینیجر پر تنقید کے بعد ان کی پاکستان واپسی نے کئی سوال بھی جنم دیے ہیں۔

https://twitter.com/bhattimajid/status/1717540974308786237?t=QxK2dvSbEz3qut0V98VFbA&s=08

اس کے علاوہ میڈیا مینیجر کے خلاف چند صحافیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ذاتی نوعیت کی مہم بھی چلائی گئی تھی جس کے بعد دباؤ بڑھنے پر یہ انتہائی قدم اٹھایا گیا۔

خیال رہے کہ ماضی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کو صحافیوں اور قومی کھلاڑیوں کے درمیان ایک پُل کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور بورڈ کی جانب سے بیرونِ ملک دوروں پر بورڈ کے خرچے پر صحافیوں کو بھیجنے کے لیے انتظامات کیے جاتے تھے۔

تاہم احسان مانی اور وسیم خان کے دور میں بورڈ کی اس پالیسی میں بھی تبدیلی آئی تھی اور پی سی بی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سوشل میڈیا پر مواد بھی بنایا جانے لگا جس میں کھلاڑیوں کے انٹرویوز بھی شامل ہوتے تھے۔

یوں پی سی بی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ اور صحافیوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا اور میڈیا ڈپارٹمنٹ کا کردار متنازع ہو گیا۔

اس بارے میں وسیم خان کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کے بعد دیا گیا بیان بھی اس وقت سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’میڈیا میں کلچر موجود تھا جو گذشتہ ادوار میں پروان چڑھا۔ میری سوچ اس سے مختلف تھی، میں یہ سمجھتا تھا کہ بورڈ کے میڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات ضرور ہونے چاہییں لیکن اگر وہ یہ سمجھتے تھے کہ میں انھیں روزانہ کی بنیاد پر اندر کی خبریں دوں گا تو ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ ’میڈیا کو بورڈ کی جانب سے مراعات دی جا رہی تھیں، مختلف جگہوں کے دورے وغیرہ اور ایسا ادارے کے تحفظ کے لیے کیا جا رہا تھا۔‘

https://twitter.com/DrNaumanNiaz/status/1717630023409054115?t=HGkM-k8B8Okz_yzC3LPQIw&s=08

’پاکستان کرکٹ بورڈ کی اہم ترین میچ سے قبل پریس ریلیز کا مقصد کیا تھا؟‘

سپورٹس جرنلسٹ عبدالغفار نے سوال اٹھایا کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کی اہم ترین میچ سے قبل پریس ریلیز کا مقصد کیا تھا؟‘

سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی کو ٹوئٹر پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کی پریس ریلیز کا مطلب صاف ہے کہ اگر ٹیم سیمی فائنل میں نہ گئی تو (چیف سلیکٹر) انضمام الحق کی چھٹی ہو جائے گی، جس پر سابق کرکٹر اظہر علی نے کہا کہ کپتان اور سلیکٹر کو جب مکمل اختیار دیا گیا تھا تو احتساب بھی ان ہی کا ہونا چاہیے۔‘

https://twitter.com/manoj_dimri/status/1717597958286582051?t=8arx7ZI_1w9TXjvZdrfquw&s=08

کرکٹ تجزیہ کار ڈاکٹر نعمان نیاز نے اس حوالے سے تبصرہ کرتا ہوئے کہا کہ پی سی بی کی پریس ریلیز میں تضادات ہیں۔ ایک طرف انھوں نے مداحوں سے ٹیم کو سپورٹ کرنے کا کہا ہے اور دوسری طرف انھوں ے بابر اعظم کا بطور کپتان مستقبل غیر یقینی بنا دیا اور بلاواسطہ طور پر ان پر اور انضمام الحق پر سلیکشن کی ذمہ داری عائد کر دی ہے اور اپنے آپ کو بری الذمہ ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اب فرض کیا کہ اگر پاکستان ورلڈ کپ جیت جاتا ہے تو پھر بورڈ کا مؤقف کیا ہو گا۔ ان کے مطابق میڈیا مینیجر کو یوں عین ٹورنامنٹ کے درمیان گھر نہیں بھیجنا چاہیے تھے۔‘

ان کی رائے میں ’مسلسل تین میچز میں شکست کے بعد اس طرح کے اقدامات اچھے اثرات کے حامل نہیں ہوں گے۔ یہ سب گڑ بڑ کی علامتیں ہیں۔‘

منوج دمری نامی صارف نے پی سی بی کے میڈیا مینیجر کی چھٹی پر بورڈ او نام نہاد سینیئر صحافیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کی رائے میں ’سینیئر کا درجہ حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹ سے ہٹ کر اپنی بات منواتے ہیں یہی ہے برصغیر کا کلچر۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم سے بھی بری پرفارمنس پی سی بی کی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More