اس تحریر میں موجود تفصیلات بعض صارفین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔
’ہمیں پہلے بھی تشدد کی شکایات آتی تھیں لیکن ہم نے توجہ نہیں دی۔ ہم کہتے تھے کہ جو اپنے ساتھ وعدے کر کے لے گیا ہے، خیال بھی وہی رکھے۔ نو سال کے بعد ہمیں بہن کی لاش ملی، اس عرصے میں ہم نے کبھی رابطہ نہیں کیا۔‘ یہ کہنا ہے شعیب شیخ کا جن کی بہن فردوس کی لاش اس کے گھر کے صحن سے برآمد ہوئی ہے۔
شمالی سندھ کے ضلع سکھر کی تحصیل روہڑی کے گاؤں ابیجانو میں پولیس نے فردوس شیخ کے قتل پر سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے کے بعد ان کے شوہر منور بھابھو کو گرفتار کر لیا ہے۔
فردوس اس خاندان میں سب سے چھوٹی بہن تھیں۔ شعیب کے مطابق قریب نو سال قبل فردوس کا منور سے رابطہ ہوا اور دونوں نے والدین کی رضامندی کے بغیر عدالت میں لو میرج کر لی تھی جس پر خاندان نے فردوس سے لاتعلقی اختیار کر رکھی تھی۔
منور اور فردوس کے تین بچے بھی ہیں جبکہ منور مال مویشی کی فروخت کا کام کرتے تھے۔ شعیب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس شوہر کی جانب سے بہن پر تشدد کی شکایات آتی تھیں لیکن انھوں نے خود کو اس معاملے سے لاتعلق رکھا کہ ’اب وہ خود بھگتے۔‘
رلی میں لپٹی تشدد زدہ لاش
کندھرا پولیس کے مطابق اسے فردوس کی تشدد زدہ لاش ایک گھر کے صحن سے رِلی میں لپٹی ہوئی ملی جس پر سرکار کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا۔
شعیب نے بتایا کہ دو روز قبل انھیں پڑوسیوں سے معلوم ہوا کہ ان کی بہن کا قتل ہوا ہے اور انھیں گھر میں ہی دفن کیا گیا ہے جس پر وہ پولیس کو اطلاع دینے کندھرا تھانے گئے۔
پولیس ان کے ہمراہ گھر پہنچی اور ان کے بقول صحن سے لاش برآمد ہوئی جس پر تشدد کے نشانات تھے۔
اس مقدمے کے متن میں اے ایس آئی عبدالجبار نے بتایا ہے کہ ملزم منور بھابھو نے ’دو نامعلوم افراد کے ذریعے 24 اکتوبر کو اپنی 29 سال بیوی فردوس شیخ کو قتل کیا اور لاش گھر میں چھپا دی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جہاں گھر میں تازہ مٹی نکلی ہوئی تھی، اس جگہ سے مٹی کو ہٹایا تو فردوس کی لاش برآمد ہوئی، جس نے سبز رنگ کی قمیض جس پر پھول بنے ہوئے تھے اور زرد رنگ کی شلوار پہن رکھی تھی۔ ناک کے قریب ایک گولی لگی ہوئی تھی جو پار ہو گئی۔ سر، گردن، پیشانی پر گہرے زخم تھے۔‘
شعیب شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنی بہن کے قتل کی ایف آئی آر خود درج کروانا چاہتے تھے لیکن حکام نے کہا کہ ’آپ اس وقت صدمے میں ہیں۔ لاش لے جائیں، پھر مقدمہ دائر کریں گے۔‘
شعیب نے مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست بھی دائر کی تھی مگر ایس ایس پی فرفان سموں نے بی بی سی کو بتایا کہ والدین کی عدم موجودگی کی وجہ سے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔
Getty Images’ملزم کو رات کا انتظار تھا‘
سکھر پولیس نے ملزم منور بھابھو کو گرفتار کرلیا ہے۔ ایس ایس پی عرفان سموں کے مطابق انھوں نے ملزم کا پیچھا کیا اور خیرپور میں ایک مکان پر چھاپہ مار کر انھیں گرفتار کیا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ملزم نے دوپہر کو یہ واردات کی تھی اس کے بعد اس کو انتظار تھا کہ سورج غروب ہو تو تاکہ وہ تاریکی میں لاش کو ٹھکانے لگائے۔ اس کے لیے اس کو دیگر لوگوں کی بھی مدد کی ضرورت تھی لیکن لاش ٹھکانے لگانے سے قبل ہی پولیس نے اس کو گرفتار کر لیا۔‘
پولیس کے مطابق منور نے پولیس کو دیے گئے بیان میں کہا کہ اس نے ’شک کی بنیاد پر بیوی کو قتل کیا، اس نے اس کے سر پر اینٹیں ماریں۔ اس کے بعد رسی سے گلا گھونٹا۔ اس کے مرنے کے یقین ہونے کے بعد گڑھا کھودا اور رلی میں ڈال کر اس کو صحن میں ہی دفن کر دیا۔‘
ایس ایس پی عرفان کے مطابق مقتولہ دفن کیے جانے کے وقت زندہ تھیں یا نہیں، اس بارے میں پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ سے معلوم ہوگا۔
شمالی سندھ میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سندھ سھائی آرگنائزیشن کے مطابق سندھ میں رواں سال کے چھ ماہ، یعنی جنوری تا جون، کے اعداد و شمار کے مطابق کارو کاری کے الزام میں 123 افراد کو قتل کیا گیا جن میں 91 خواتین اور 32 مرد شامل ہیں۔
یہ واقعات سکھر، شکارپور، جیکب آباد، کشمور، گھوٹکی اور لاڑکانہ ضلعے میں پیش آئے ہیں۔ سندھ سھائی آرگنائزیشن کی رہنما ڈاکٹر عائشہ دہاریجو کے مطابق ’غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پھر سے بڑھنے لگے ہیں۔ اس کی وجہ قبائلی تنازعات میں شدت ہے۔ اس کے علاوہ زمین کے تنازع اور دوسری شادی کے خواہشمند بھی عورت کو قربانی کا جانور بنا دیتے ہیں۔‘
ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ پولس کا کردار ’عام شہریوں اور متاثرہ خاندان سے مددگار و معاون والا نہیں ہوتا۔ جب تک اس نوعیت کے مقدمات پر انسانی حقوق کا کوئی کارکن آواز بلند نہ کرے اس وقت تک پولیس بھی خاموش ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’فردوس شیخ قتل کیس میں بھی صرف ایک بندہ ملوث نہیں ہو سکتا۔ کیسے ایک گھر میں خاتون کو دفن کردیا گیا، یقیناً دیگر لوگ بھی اس سے باخبر ہوں گے۔ وہ کیوں خاموش رہے، اس کی بھی تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘