کرکٹ ورلڈ کپ کے میچ میں افغانستان نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی تو ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے لگا جس میں انڈین کرکٹر اجے جدیجا سے سوال کیا جاتا ہے کہ افغانستان کی ٹیم بڑی ٹیموں کو کیوں نہیں گرا پاتی تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ’تبھی تو آپ کہہ رہے ہو کہ افغانستان چھوٹی ٹیم ہے، جس دن گرا دیں گے اس دن یہ بڑی ٹیم ہو جائے گی۔‘
افغانستان کی ٹیم اس ورلڈ کپ میں اب تک دو بڑی ٹیموں کو ’گرا‘ چکی ہے۔ 15 اکتوبر کو دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کو 69 رنز سے شکست دینے کے ’سنسنی خیز کرشمے‘ کا شور ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ اسی ٹیم نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دے دی۔
سنہ 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کچھ عرصہ پہلے تک ون ڈے رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر تھی۔ پاکستان کی اس ٹیم میں نمبر ون سے لے کر نمبر 11 تک سٹار کھلاڑی موجود ہیں اور سات سال بعد انڈین سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد ناصرف اس ٹیم کی کارکردگی بلکہ استقبالیہ اور لنچ ڈنر میں پیش کیے جانے والے پکوانوں کے چرچے ہونے لگے تھے۔
دوسری جانب افغانستان کو 14 اکتوبر تک ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی ایک ایسی ٹیم تصور کیا جا رہا تھا جس کے خلاف ہر حریف کی فتح یقینی تصور کی جا رہی تھی۔
انگلینڈ کے خلاف افغانستان کے کارنامے کو ’اپ سیٹ‘ کہنے والے تمام ماہرین پاکستان کے خلاف فتح کے ساتھ ہی کپتان حشمت اللہ شاہدی کی ٹیم کے گن گانے لگے اور یوں افغانستان کی جیت صرف ایک اپ سیٹ نہیں رہی۔
پاکستان کے خلاف میچ میں بولنگ، فیلڈنگ اور بیٹنگ میں افغانستان کی ٹیم بابر اعظم کی پاکستانی ٹیم سے میلوں آگے تھی۔
اس جیت کی گونج چنئی سے لے کر دلی، اسلام آباد اور کابل تک سنائی دی اور اسی دوران اجے جدیجا کا نام لیا گیا جو بہت پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ افغانستان بھی ایک بڑی ٹیم ہے۔
اجے جدیجا کا کرکٹ کرئیر ایک تنازعہ کے بعد بے وقت ختم ہو گیا تھا لیکن اب انھیں افغانستان کی ٹیم کو ایک نئی پہچان دینے کا سہرا دیا جا رہا ہے۔
تاہم اجے جدیجا کا نام انڈین کرکٹ میں انجانا نہیں ہے۔
اجے جدیجا، جنھوں نے 1992 میں انڈین ٹیم کے لیے اپنا پہلا ون ڈے کھیلا تھا، سنہ 2000 تک ٹیم انڈیا کا باقاعدہ چہرہ تھے لیکن اس وقت وہ افغانستان ٹیم کے مینٹور ہیں۔
گذشتہ تین میچوں میں افغانستان کی ٹیم کی دوسری جیت کے بعد انڈین کرکٹ سپر سٹار سچن تندولکر نے بھی سوشل پلیٹ فارم X پر جدیجہ کی تعریف کی۔
سچن تندولکر نے لکھا کہ ’اس ورلڈ کپ میں افغانستان کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ بیٹنگ میں ان کا نظم و ضبط، انھوں نے جو رویہ دکھایا، جس طرح سے وہ وکٹوں کے درمیان رنز بنانے کے لیے تیز دوڑتے ہیں وہ ان کی محنت کی عکاسی کرتے ہیں۔ شاید یہ سب مسٹر اجے جدیجا کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہوا ہے۔‘
https://twitter.com/sachin_rt/status/1716505320556757286
’چیس ماسٹر‘ اور ’بیسٹ فنشر‘
جدیجا تقریباً آٹھ سال تک انڈین ون ڈے ٹیم کے باقاعدہ رکن رہے۔ سنہ 1992 اور 2000 کے درمیان، جدیجہ نے صرف 15 ٹیسٹ میچ کھیلے لیکن اس عرصے کے دوران، وہ 196 ون ڈے میچوں میں پلیئنگ الیون کا حصہ رہے۔
اجے جدیجا جو میدان پر ہمیشہ مسکراتے نظر آتے تھے، اپنی چستی اور کھیل کی وجہ سے انڈین ٹیم کے مقبول کھلاڑیوں میں سے ایک تھے۔ مداحوں کے لیے وہ ’مسٹر چارمنگ‘ تھے۔ تب یہ بھی دعویٰ کیا جاتا رہا کہ ’بہت سے شائقین صرف ان کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔‘
اپنی بے مثال بلے بازی کے بل بوتے پر انھوں نے کئی میچوں کا رخ بدلا۔ جدیجا نے 41 میچوں میں بطور اوپنر کھیلا لیکن وہ زیادہ تر مڈل آرڈر بلے باز رہے۔
یوراج سنگھ، مہندر سنگھ دھونی اور وراٹ کوہلی کا دور شروع ہونے سے بہت پہلے اجے جدیجا کو ٹیم انڈیا کا ’چیس ماسٹر‘ اور ’بہترین فنشر‘ کہا جاتا تھا۔
افغانستان کی پاکستان کے خلاف فتح کے بعد سنہ 1996 کے ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل کی ایک ویڈیو فوٹیج بھی وائرل ہوئی جس میں اجے جدیجا پاکستان کے سپیڈ سٹار وقار یونس کی گیند پر چھکا مارتے نظر آ رہے ہیں۔
اس میچ میں جدیجا نے صرف 25 گیندوں میں 45 رنز بنائے تھے۔ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی آمد سے قبل کھیلی جانے والی اس اننگز کو ’گیم چینجر‘ سمجھا جاتا تھا اور آج بھی تماشائی اس کا ذکر کرتے ہیں۔
اجے جدیجا نے ون ڈے میں چھ سنچریاں اور 30 نصف سنچریاں بنائی ہیں۔
اجے جدیجا ایک مفید میڈیم پیسر تھے جنھوں نے ون ڈے میں 20 وکٹیں حاصل کیں۔ میدان میں اپنی فیلڈنگ کے بل بوتے پر بھی انھوں نے کئی میچوں کا رخ انڈیا کے حق میں موڑ دیا۔
ان میں ایک اچھے کپتان کی جھلک بھی نظر آئی۔ اجے جدیجا نے 13 میچوں میں انڈین ون ڈے ٹیم کی کپتانی کی اور آٹھ میں فتح حاصل کی۔
میچ فکسنگ تنازعہ
ان کا کریئر تیزی سے بلندیوں کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن میچ فکسنگ کے الزامات کی وجہ سے دسمبر 2000 میں ان پر پانچ سال کی پابندی عائد کر دی گئی اور ان کا بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کا خواب چکنا چور ہو گیا۔
تاہم ڈویژن بنچ نے انھیں بعد میں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی۔ وہ دلی کی ٹیم میں واپس آئے اور کپتان بن گئے۔ سال 2005 میں انھوں نے راجستھان ٹیم کے کپتان اور کوچ کا دوہرا کردار ادا کیا۔
کرکٹ چھوڑنے کے بعد وہ بطور کوچ اور کمنٹیٹر کرکٹ سے وابستہ رہے۔
نئے کردار میں
افغانستان ٹیم کے مینٹور کے طور پر اجے جدیجا نے اس ٹیم کی سوچ بدل دی ہے۔ ٹیم پر گہری نظر رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اجے جدیجا نے اس ٹیم کو ’جیت کا گر‘ سکھایا ہے۔
اجے جدیجا کا دعویٰ ہے کہ اب یہ ٹیم کسی مخالف سے خوف زدہ نہیں ہے۔
جدیجا کا ماننا ہے کہ ’افغان کھلاڑیوں کی سب سے بڑی خاصیت بے خوفی ہے۔ وہ کسی بھی ٹیم کو سخت مقابلہ دے سکتے ہیں۔‘
پاکستان کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر راشد لطیف نے ایک پروگرام میں بتایا کہ یہ عہدہ لینے سے پہلے اجے جدیجہ نے انھیں کال کی اور پوچھا کہ کیا انھیں افغان ٹیم کے مینٹور کے طور پر کام کرنے کے لیے حامی بھرنی چاہیے۔
اس پر راشد لطیف کے بقول انھوں نے کہا کہ ’ضرور، آپ اس صورتحال میں افغان ٹیم سے بہت کچھ سیکھیں گے۔‘
پاکستان کے سابق کپتان شعیب ملک نے اجے جدیجا کو کھیلتے دیکھا ہے اور ان کے ساتھ بطور تبصرہ نگار بھی کام کر چکے ہیں۔ شعیب ملک کا خیال ہے کہ افغانستان کی ٹیم میں تبدیلی کا زیادہ تر کریڈٹ جدیجا کو دینا چاہیے۔
افغانستان کی پاکستان کے خلاف جیت کے بعد شعیب ملک کا کہنا تھا کہ ’میں نے اجے جدیجا کے ساتھ 2015 ورلڈ کپ کے دوران ایک چینل کے لیے کام کیا ہے۔ کرکٹ کے بارے میں ان کی سمجھ بہت اچھی ہے۔
’اگر آپ کے ارد گرد صحیح لوگ ہوں تو اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔‘ پاکستان اور انگلینڈ سمیت پوری دنیا سمجھ چکی ہے کہ یہ کتنا بڑا فرق ہے۔