چنئی میں جاری ورلڈ کپ مقابلے میں پاکستان نے افغانستان کے خلاف پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 283 رنز کا ہدف دیا ہے جس کے جواب میں افغانستان کی بیٹنگ جاری ہے۔
افغانستان نے 42.1 اوورز میں دو وکٹوں کے نقصان پر 231 رنز بنائے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے پہلی اننگز میں 282 رنز کے جواب میں افغان اوپنرز عمدہ کھیلے اور 21 اوورز میں 130 رنز کی شراکت قائم کی۔ ابراہیم زدران اور رحمان اللہ گرباز نے اپنی نصف سنچریوں کے دوران پاکستانی بولرز کی خوب پٹائی کی۔
پاور پلے میں پاکستانی فاسٹ بولرز شاہین شاہ آفریدی، حسن علی اور حارث رؤف وکٹ لینے میں ناکام رہے۔
شاہین اور حسن علی دونوں کو اپنے پہلے اوورز میں دو، دو چوکے لگے جبکہ آٹھویں اوور میں جب حارث رؤف اٹیک پہ آئے تو گرباز نے انھیں چار چوکے لگائے۔
حارث رؤف نے اپنے پہلے چار اوورز میں 33 رنز دیے۔ پاکستانی سپنرز اسامہ میر، شاداب خان اور افتخار احمد کو بھی کامیابی نہیں مل پا رہی تھی۔
مگر جیسے ہی 22ویں اوور میں شاہین شاہ آفریدی کو اٹیک میں واپس لایا گیا تو انھوں نے ایک بہترین باؤنسر کی مدد سے رحمان اللہ گرباز کو کیچ آؤٹ کیا۔
گرباز نے 53 گیندوں پر 65 رنز کی باری کھیلی جس میں نو چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔
پھر 34ویں اوور میں حسن علی ابراہیم زدران اور رحمت شاہ کے درمیان 60 رنز کی شراکت توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ زدران نے 87 رنز کی باری کھیلی جس میں 10 چوکے شامل تھے۔
40ویں اوور میں شاہین کو دوبارہ اٹیک میں واپس لایا گیا۔ ان کی پہلی ہی گیند رحمت شاہ کے پیڈز سے ٹکرائی مگر اپیل پر امپائر نے ناٹ آؤٹ دیا۔ بابر نے ریویو لیا مگر فیصلہ برقرار رہا کیونکہ گیند لیگ سٹمپ سے باہر تھی۔
جہاں پاکستانی بولرز وکٹیں کی تلاش میں بے بس دکھائی دے رہے تھے وہیں رحمان شاہ نے 41ویں اوور میں اپنی نصف سنچری مکمل کی۔
شاداب کی واپسی نے پاکستانی بیٹنگ کو مضبوط بنایا
پاکستانی کپتان بابر اعظم نے چنئی کی ’ڈرائی‘ پچ کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا۔ افغان کپتان حشمت اللہ شاہدی بھی ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ ہی کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے پاکستان کو 250 کے سکور تک محدود رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
امام الحق اور عبد اللہ شفیق کی سلامی جوڑی نے پاکستان کو دھیما مگر مستحکم آغاز دیا۔ ان کے بیچ 61 گیندوں پر 56 رنز کی شراکت قائم ہوئی جس کے بعد امام 17 رنز پر اپنی حالیہ کمزوری پُل شاٹ کی نذر ہوگئے۔
عبد اللہ نے کپتان بابر کے ساتھ بھی 54 رنز کی شراکت قائم کی مگر اپنی نصف سنچری مکمل کر کے لیفٹ آرم لیگ سپنر نور احمد کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ اس میچ میں نور کو افغان پیسر فضل حق فاروقی کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔
110 رنز پر دو وکٹوں کا نقصان جلد 120 رنز پر تین وکٹوں کا نقصان بن گیا جب رضوان بھی نور کی گیند پر سویپ کھیلتے ہوئے شارٹ فائن لیگ پر کیچ آؤٹ ہوئے۔
163 رنز پر سعود شکیل کی وکٹ گرنے سے پاکستان کی بیٹنگ قدرے مشکل میں پڑ گئی تاہم بابر اعظم کریز پر موجود رہے اور انھوں نے 92 گیندوں پر 74 رنز کی باری کھیلی جس میں چار چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔
اس میچ میں شاداب کی واپسی نے پاکستان کے لوئر میڈل آرڈر کو مضبوط کیا۔ ان کی افتخار احمد کے ساتھ 45 گیندوں پر 73 رنز کی شراکت اور آخری 10 اوورز میں 91 رنز کی بدولت پاکستان کا مجموعی سکور سات وکٹوں کے نقصان پر 282 رنز ٹھہرا۔
میڈل اوورز میں افغان بولرز کی نپی تلی بولنگ نے پاکستانی بلے بازوں کو کافی پریشان کیے رکھا۔ نور احمد نے 49 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
پاکستانی صارفین جہاں ایک طرف کپتان بابر اعظم کی ’مشکل پچ‘ پر بیٹنگ پر داد دے رہے ہیں وہیں شاداب کی واپسی پر ان کی ٹیم میں جگہ بھی زیرِ بحث ہے۔
شاداب نے آج اوپر سے وکٹیں گرنے کے بعد ذمہ دارانہ باری کھیلی۔ انھوں نے 38 گیندوں پر 40 رنز بنائے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک جواب تھا جو ان کے ’آل راؤنڈر‘ ہونے پر سوال اٹھاتے تھے۔
https://twitter.com/MazherArshad/status/1716429332057600404
کرکٹ تجزیہ کار مظہر ارشد لکھتے ہیں کہ ’شاداب نے تین بار ورلڈ کپ میں بیٹنگ کی ہے اور دو بار پاکستان کو بچایا ہے۔ یہ کارکردگی ان کے بلے بازی کے اعداد و شمار میں نہیں جھلکتی۔ معین علی جیسے دیگر لوئر آرڈر بلے بازوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ مجھے حیرانی ہے کہ وہ آسٹریلیا کے خلاف نہیں کھیلے۔ آج بھی انھیں نواز کی طبیعت خراب ہونے پر کھلایا گیا۔‘
علی نامی صارف کہتے ہیں کہ اگر شاداب نے گیند کے ساتھ بھی متاثر کر دیا تو ٹیم کے لیے مستقبل کے امکان روشن ہوجائیں گے۔ ایمن نے طنزیہ کہا کہ ’ہم نے شاداب کو آف کر کے آن کر دیا۔‘
https://twitter.com/ImJaveria/status/1716418461151232469
میچ سے قبل بابر اعظم کی کارکردگی پر بھی سوالات کیے جا رہے تھے مگر انھوں نے کنڈیشنز کو بھانپتے ہوئے محتاط باری کھیلی۔ اس پر سابق پاکستانی کپتان جویریہ خان کہتی ہیں کہ ’پاکستانی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اگر بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو اس سے برداشت کی حدیں پار ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود بابر اتنے بڑے ٹورنامنٹ میں اپنا گراؤنڈ تھامے ہوئے ہیں۔۔۔ ان کی قدر کریں۔‘
صارف حجاب زاہد کہتی ہیں کہ بابر کسی فلیٹ وکٹ پر نہیں بلکہ ہمیشہ مشکل پچز پر اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔