فلائٹ ’ایف زی 4525‘: جھگڑا کرتے صحافی اور کارکن، ایئرلائن کا گلہ اور ایک ’لاپتہ مسافر‘

بی بی سی اردو  |  Oct 21, 2023

BBCخصوصی طیارے میں جھگڑتے صحافی اور کارکن

نواز شریف کی پاکستان واپسی کے لیے دبئی سے اسلام آباد جانے والا یہ چارٹرڈ طیارہ کسی لوکل روٹ پر چلنے والی مسافر بس کا منظر پیش کر رہا تھا۔

پورے سفر کے دوران ’امیدِ پاکستان‘ پرواز کا فضائی عملہ مشکل میں رہا۔ اڑان سے قبل آدھے گھنٹے تک عملہ ’مسافروں‘ سے گذارش کرتا رہا کہ ’پلیز اپنی سیٹوں بیٹھ جائیں‘ مگر پورے سفر میں اُن کی ایک نہ سنی گئی۔

ہم طیارے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ اس پرواز کی فضائی میزبان (ایئر ہوسٹسز) نے نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق خصوصی بیجز لگائے ہوئے تھے۔ دوران پرواز مسافروں، جن میں بڑی تعداد صحافیوں کی تھی، میں پرچم اور کافی کپس تقسیم کیے گئے۔

جیسے ہی طیارہ دبئی کی فضاؤں میں بلند ہوا تو ن لیگ کے کارکنوں اور صحافی طیارے کے عملے کی تمام تر ہدایات کو بُھلا کر اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور جہاز میں پارٹی ترانے گونجنے لگے۔

مسافروں کی اکثریت بظاہر لاہور، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کی بزنس کمیونٹی تھی۔ بعض لوگوں کا تعلق برطانیہ سے بھی تھا جو نواز شریف کے ساتھ وطن واپس آ رہے تھے۔

BBC

ہم نے طیارے میں گپ شپ کرتے کارکنان سے پوچھا کہ ’آپ کیوں دوبارہ اس در (اسٹیبلشمنٹ) پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے آپ کے بقول ماضی میں آپ پر اور آپ کے پارٹی قائدین بشمول نواز شریف پر ظلم ہوا تھا؟‘ تو انھوں نے جواباًیہ سوال داغ دیا کہ ’آپ بتائیں پاکستان میں اور کوئی در ہے جہاں بندہ جا سکے؟‘

پورے چارٹرڈ طیارے میں میرے علاوہ صرف ایک خاتون رومانہ چوہان تھیں۔ رومانہ ن لیگ کی کارکن ہیں۔ میرے اس سوال پر کہ آپ نے اس طیارے پر آنا کیوں ضروری سمجھا، انھوں نے جواب دیا کہ ’میں جمہوریت پر یقین رکھتی ہوں، اس وجہ سے میں آئی ہوں۔‘

نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کا شمار مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت میں ہوتا ہے، اس کے باوجود اس طیارے میں رومانہ کے علاوہ اور کوئی خاتون ورکر کیوں نہ تھی، اس پر رومانہ نے کہا کہ ’شاید ہو سکتا ہے کہ بہت سی خواتین کے لیے برطانیہ آنا یا دبئی آنا اور پھر وہاں سے پاکستان جانا مشکل ہو۔‘

BBCچارٹرڈ طیارے میں صحافیوں اور کارکنان کا ’دنگل‘

دوران پرواز طیارے میں ’وزیر اعظم نواز شریف‘، ’اللہ اکبر‘ اور ’شیر آیا، شیر آیا‘ کے نعرے لگتے رہے۔ جہاں ایک طرف نعرے بازی جاری تھی وہیں صحافی ان کوششوں میں مگن تھے کہ کسی طرح نواز شریف کا کوئی تبصرہ یا انٹرویو مل جائے۔

اس پر نواز شریف اور ان کی ٹیم کی جانب سے یہی جواب آتا رہا کہ ’وہ جلسے سے قبل میڈیا سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔‘ ایک موقع پر نواز شریف نے خود بھی سوالوں کی بوچھاڑ پر انگلی کے اشارے سے صحافیوں کو سوال کرنے سے منع کیا۔

نواز شریف اپنی نشست پر بیٹھے نوٹس بناتے رہے۔ ن لیگی رہنماؤں کی جانب سے بتایا گیا کہ انھوں نے تین سے چار صفحات پر مشتمل نوٹس بنائے، یہ وہ باتیں ہیں جن کا اعلان وہ آج لاہور میں ہونے والے جلسہ عام میں کریں گے۔

صحافیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے کارکنان ناراض تھے کیونکہ انھیں میاں صاحب کے ساتھ سیلفی بنانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔

طیارے کا عملہ چاہتا تھا کہ وہ کھانے کے بعد مسافروں میں چائے بھی تقسیم کریں مگر بعض کارکنان اور صحافی اپنی نشستوں پر بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ اور اسی افراتفری کے عالم میں چند کارکنان نے ایئر ہوسٹس کو چائے سروو کرنے سے منع ہی کر دیا۔

ن لیگ کی طیارے میں موجود انتظامی ٹیم کی بے بسی اُس وقت ظاہر ہوئی جب پارٹی کارکنوں اور صحافیوں کے بیچ دھکم پیل لڑائی تک جا پہنچی۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک صحافی نواز شریف تک رسائی کے لیے آگے جانا چاہ رہے تھے مگر اسے کارکنوں نے روک لیا اور اس موقع پر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔

اسی موقع پر ایک کارکن نے باآواز بلند کہا ’جس کو کوئی مسئلہ ہے اسے آف لوڈ کر دو، دیٹس اِٹ۔‘ اس دھمکی نما اعلان پر مزید سخت جملوں کا تبادلہ ہوا مگر پھر لیگی رہنماؤں کی جانب سے صلح صفائی کروا دی گئی۔

BBCایئر لائن کا گلہ اور ایک ’لاپتہ مسافر‘

طیارے کی اسلام آباد لیڈنگ کے وقت فضائی عملے نے اُردو، انگریزی، پنجابی، بلکہ شاید ہر زبان میں مسافروں سے بیٹھنے کی اپیل کی۔ کچھ مسافروں نے ایئر ہوسٹس کو یہاں تک کہہ دیا کہ ’کیوں جی، اسی کیوں بیٹھیے؟ اسی تے چارٹرڈ دے پیسے دتے نے۔ چارٹرڈ کرایا ہی اس لیے سی کہ اسی بینا نئیں۔‘

پھر وہ لمحہ آیا جب طیارہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوا۔ لینڈنگ کے وقت پارٹی کارکنوں کا جوش و جذبہ دیدنی تھا، جو ان کی نعرے بازی سے عیاں تھا۔

اسلام آباد لینڈنگ کے موقع پر صحافیوں کے اپنے بیچ لڑائی جھگڑا ہوا مگر اس وقت میاں صاحب اُٹھ کر نیچے جا چکے تھے۔ عرفان صدیقی نے ہمیں بتایا تھا کہ میاں صاحب پاکستان میں سب سے پہلے اپنی قانونی ٹیم سے ملیں گے اور پھر اسی پرواز پر لاہور روانگی ہو گی۔

BBC

اس دوران میاں صاحب اور ان کی چھوٹی سی ٹیم کے علاوہ کسی کو بھی طیارے سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔

جب نواز شریف طیارے میں واپس آئے تو سب صحافیوں نے اپنے کیمرے نکال لیے اور داخلی دروازے پر جمع ہو گئے جس پر اسحاق ڈار بولے ’میری سب دوستوں کی گزارش ہے کہ یار یہ اپنی ایک دوسری ایئر لائن ہے اور انھوں نے بہت گلہ کیا ہے، آپ کی مہربانی ہے آپ پلیز بیٹھ جائیں۔ لاہور جا کر بات ہو گی۔ یار 35 منٹ کا سفر ہے، آپ کی مہربانی۔ بڑا بُرا تاثر جا رہا ہے۔‘

میاں صاحب کی واپسی کے باوجود طیارے نے لاہور کے لیے تاخیر سے اڑان بھری۔ عملے نے اعلان کیا کہ ’ابھی ایک بندہ کم ہے۔‘

یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اسلام آباد کے سٹاپ پر کون لاپتہ ہو گیا۔ عملہ شاید خود بھی لاعلم تھا جو سب سے پوچھ رہا تھا کہ ’کون مسنگ ہے؟ اپنی ساتھ والی سیٹ پر دیکھیں۔۔۔‘

تاہم بلآخر یہ پرواز اسلام آباد سے روانہ ہوئی اور چند ہی منٹ میں لاہور لینڈ کر گئی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More