’مگر جو کوتاہی ابتدا سے ہوئی‘: سمیع چوہدری کا کالم

بی بی سی اردو  |  Oct 21, 2023

Getty Images

کرکٹ اپنی فطرت میں اس قدر متنوع ہے کہ کبھی کبھار ایک کھلاڑی ہی پورے میچ پہ بھاری پڑ جاتا ہے تو کبھی چھ کھلاڑی بھی بہترین کارکردگی دکھا کر باقی پانچ ساتھیوں کی کم ہمتی کا ازالہ کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔

ایشیا کپ سے اب تک شاہین آفریدی اپنی بہترین کارکردگی ظاہر نہیں کر پا رہے تھے اور اس کا خمیازہ ٹیم کے مجموعی نتائج میں نمایاں ہو رہا تھا۔ مگر جب شاہین اپنی اصل کو لوٹے، تب تک باقی پرزے اپنی جگہ سے سرک چکے تھے اور جمود ایک بار پھر ٹوٹنے سے رہ گیا۔

اس ٹورنامنٹ میں تاحال پاکستان کے تین نمایاں المیے رہے تھے کہ ٹاپ آرڈر اپنے حصے کا بار نہیں اٹھا رہا تھا، شاہین آفریدی اپنی اصل تاثیر پیدا نہیں کر پا رہے تھے اور شاداب خان مڈل اوورز میں اپنا کردار نبھانے سے قاصر رہے تھے۔

بنگلورو میں پاکستان نے شاداب خان کے المیے کا حل یہ نکالا کہ انھیں آرام دے دیا گیا اور اسامہ میر کا ورلڈ کپ ڈیبیو ہوا۔ اور شاہین آفریدی کی بولنگ میں بھی اب تک جو کسر رہی تھی، اس کی بھی بھرپور تلافی ہوتی نظر آئی۔

پچھلے میچز کے برعکس، یہاں جب شاہین نے وکٹ سے تائید ملتی نہ دیکھی تو فوری طور پہ اپنی لینتھ کھینچی اور آسٹریلوی اوپنرز کی سانس دوبھر کر چھوڑی۔

جس پچ پہ بولرز کے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی، وہاں وہ دن کے سب سے مؤثر بولر ٹھہرے۔ یہاں شاہین تو اپنی اصل کو لوٹے مگر ان کے باقی سبھی ساتھی رستہ بھٹک گئے۔

کیچز ڈراپ ہونا کوئی انہونی نہیں۔ بہترین سے بہترین ایتھلیٹ بھی بساں اوقات اندازے کی غلطی کا شکار ہو جاتے ہیں اور آسان ترین کیچز ڈراپ کر بیٹھتے ہیں۔

پاکستانی بیٹنگ کے دوران آسٹریلوی فیلڈنگ سے بھی دونوں پاکستانی اوپنرز کے کیچز گرے مگر آسٹریلوی فیلڈرز کے کندھے نہیں گرے۔

Getty Images

اس کے برعکس ڈیوڈ وارنر کا کیچ ڈراپ ہونے کی دیر تھی کہ پاکستانی فیلڈرز کے شانے جھکتے چلے گئے، چہرے مرجھانے لگے اور شامت کو گویا نوشتۂ دیوار سمجھ لیا گیا۔ اس کے بعد ساری پاکستانی بولنگ بے رہروی کی ایک رو میں بہتی چلی گئی۔

اس بے خودی کے ہنگام پاکستان یہ حقیقت بھی نظر انداز کر بیٹھا کہ بنگلورو کی اس بے جان پچ میں جہاں بولرز کے لئے وحشت کا سامان تھا اور باؤنڈریز کی طوالت جس قدر مختصر تھی، یہاں اچھی بولنگ کے خلاف بھی سوا تین سو کے لگ بھگ سکور ہونا ہی تھا۔

مگر وارنر کا کیچ ڈراپ ہونے کے بعد پاکستانی کیمپ پہ جو پژمردگی طاری ہوئی، پے در پے لائن و لینتھ کی جو کوتاہیاں برتی گئیں اور پھر بابر اعظم جس دفاعی خول میں جا گھسے، وہاں سے واپس آنے کو کوئی معجزہ ہی درکار تھا۔

مگر معجزے روز روز کہاں ہوتے ہیں؟

یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ جہاں دیگر اٹیک پہ یلغار ہونے کے بعد اسامہ میر بھی بے اثر ثابت ہو رہے تھے، وہاں دن کے سب سے مفید بولر افتخار احمد کا کوٹہ پورا کروانا ضروری کیوں نہیں سمجھا گیا؟

اس سارے اٹیک میں سے افتخار واحد بولر تھے جو تند خو وارنر اور مارش کے لیے مسلسل معمہ بنے رہے، مگر بابر اعظم نے ان کا کوٹہ مکمل کروانے کی بجائے اپنے لگے بندھے حساب کتاب پہ عمل پیرا رہنا مناسب سمجھا۔

وہ تو بھلا ہو شاہین آفریدی کا، کہ چار سو سے بھی سوا کسی ریکارڈ مجموعے کی سمت بڑھتی آسٹریلوی یلغار کا رستہ روک دیا اور ان کی تقلید میں دیگر پاکستانی بولرز کے بھی حواس کچھ بحال ہوئے۔

ڈیتھ اوورز میں پاکستانی بولنگ بلاشبہ اپنے بہترین پہ دکھائی دی۔

مگر ابتدا میں پاکستانی بولنگ اور بابر اعظم نے جو کوتاہ نظری دکھائی، اس کا ازالہ کرنے کو نہ تو ڈیتھ اوورز کی بولنگ کافی تھی اور نہ ہی اچھی بیٹنگ۔

بعد میں شاہین آفریدی نے بھی ٹورنامنٹ کے بہترین اعدادوشمار ریکارڈ کیے، عبداللہ شفیق نے بھی عمدہ جارحیت دکھائی اور محمد رضوان نے بھی اپنا تسلسل برقرار رکھا مگر جو کوتاہی پاکستان پہلے 30 اوورز میں کر چکا تھا، تب تک اس کی تلافی ناممکن ہو چکی تھی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More