Getty Images
جب تک توقعات منھ کے بل نہ گر پڑیں اور خدشات حقیقت میں نہ بدل جائیں، تب تک مقابلوں میں سنسنی پیدا نہیں ہوا کرتی۔ عالمی کرکٹ کے لیے یہ ہفتہ بہت پُرجوش رہا کہ یکے بعد دیگرے دو ناتواں مہروں نے بڑے برج ڈھا دیے۔
یہ کسی کو توقع نہ تھی کہ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ اس افغان ٹیم کے ہاتھوں ڈھیر ہو جائے گا جو کثیرالقومی ایونٹس میں کبھی کوئی حیرت نہیں جگا پائی تھی۔ مگر راشد خان نے میچ سے پہلے کہا تھا کہ وہ جیت کر زلزلے سے بے حال ہم وطنوں کے لیے کچھ سامانِ مسرت پیدا کریں گے۔
انگلش بولنگ تاحال اپنا درست جوڑ طے کرنے سے قاصر رہی ہے اور ایشیائی کنڈیشنز میں ’بیز بال‘ کی اپروچ بھی بار آور ہونے سے معذور نظر آتی ہے۔ اور پھر افغان تھنک ٹینک کے سربراہ جوناتھن ٹروٹ نے بھی اپنی ٹیم میں کوئی ایسی روح پھونکی کہ اپنے ہم وطنوں کو گُنگ کر چھوڑا۔
افغانستان کی اس تاریخی فتح نے نہ صرف گلوبل ایونٹ کو رعنائی بخشی بلکہ اپنی طرح کے دیگر ناتوانوں کی امیدوں کو بھی جِلا بخشی کہ اگر نظم و ضبط برقرار رہے، جذبات چڑھنے نہ پائیں اور ہمت ہمراہ ہو تو کوئی بھی چوٹی ناقابلِ تسخیر نہیں ہوا کرتی۔
افغانستان کی اس فتح نے گویا حساب کتاب لگانے والوں کے لیے تنبیہ پیدا کر چھوڑی تھی کہ اب ٹورنامنٹ یوں لگی بندھی چال سے نہیں چلے گا اور آگے بڑھتے ہوئے مزید حیرانیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔
نیدرلینڈز جب ورلڈ کپ کوالیفائرز کھیل رہی تھی تو اپنے کئی اہم ترین کھلاڑیوں سے محروم تھی کہ وہ کاؤنٹی کرکٹ کے معاہدوں میں بندھے تھے اور کاؤنٹی چیمپئن شپ کے کڑے مرحلے پہ کوئی بھی منتظم اپنے کلیدی مہروں کو آزاد کرنا گوارا نہیں کر رہا تھا۔
مگر اس کے باوجود انھوں نے سکاٹ لینڈ کو شکست دی، یقینی فیورٹ آئرلینڈ کو مات کیا اور ویسٹ انڈیز کو چاروں خانے چِت کر کے اس عالمی سٹیج تک رسائی حاصل کی۔ کپتان سکاٹ ایڈورڈز اپنی اپروچ میں اس قدر واضح تھے کہ ورلڈ کپ سے پہلے ہی بتا رہے تھے، ’ہمیں اسوسی ایٹ نہ کہا جائے، ہم یہاں مسابقتی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں۔‘
Getty Imagesنیدرلینڈز جب ورلڈ کپ کوالیفائرز کھیل رہی تھی تو اپنے کئی اہم ترین کھلاڑیوں سے محروم تھی کہ وہ کاؤنٹی کرکٹ کے معاہدوں میں بندھے تھے اور کاؤنٹی چیمپئن شپ کے کڑے مرحلے پہ کوئی بھی منتظم اپنے کلیدی مہروں کو آزاد کرنا گوارا نہیں کر رہا تھا۔
پاکستان کے خلاف میچ میں بھی ڈچ بولنگ کا ڈسپلن کمال تھا اور ایڈورڈز کی مشاق کپتانی کی بدولت پاکستان ابتدا میں گھٹنوں کے بل نظر آیا۔ مگر پھر ناتجربہ کاری آڑے آئی اور پاکستانی مڈل آرڈر کی جوابی جارحیت نے اپ سیٹ کے امکانات ہوا کر دیے۔
مگر اس شکست میں بھی یہ عیاں تھا کہ اگر ڈچ بیٹنگ کسی روز اپنی بولنگ کا ساتھ نبھا گئی تو کوئی نہ کوئی بڑی ٹیم منہ کے بل ضرور گر پڑے گی۔ اور پھر ون ڈے فارمیٹ کے علاوہ ٹی ٹونٹی میں اپ سیٹ کرنا ڈچ کرکٹ کے لئے کوئی نئی بات تو تھی نہیں۔ بالآخر گزشتہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی نیدرلینڈز ہی کی مرہونِ منت تھی۔
دھرم شالہ میں میچ کے پہلے دو گھنٹے جنوبی افریقی بولنگ کھیل پہ حاوی تھی اور ڈچ بیٹنگ ایک بار پھر معمول کی کارروائی بھگت رہی تھی۔ لیکن پھر کپتان سکاٹ ایڈورڈز کریز پہ تن کر کھڑے ہو گئے اور جنوبی افریقی بولنگ اپنے سارے سبق بھلا بیٹھی۔
ہر ورلڈ کپ سے پہلے ماضی کے فاتحین اور کرکٹ لیجنڈز اپنے چار فیورٹ سیمی فائنلسٹس کی پیش گوئی کیا کرتے ہیں۔ یہاں آغاز پہ، جنوبی افریقہ لگ بھگ کسی بھی پیش گوئی کا حصہ نہ تھی مگر سری لنکن بولنگ کی بے مثال درگت بنانے اور آسٹریلین بیٹنگ کو تگنی کا ناچ نچانے کے بعد ٹیمبا باوومہ کی ٹیم واضح طور پہ سیمی فائنل کی سمت گامزن نظر آنے لگی تھی۔
لیکن ڈچ بیٹنگ کے بعد پروٹیز کا پالا ڈچ بولنگ سے بھی پڑنا تھا جو کہ اپنے تغیر اور ڈسپلن میں اس قدر لاجواب ہے کہ اپنے دن پہ کسی بھی بہترین بولنگ اٹیک کی مسابقت کا دعویٰ کر سکتی ہے اور کسی بھی تگڑی بیٹنگ لائن کے بخئے ادھیڑ سکتی ہے۔
جنوبی افریقہ کی بیٹنگ مہارت ابھی تک اپنے ٹاپ آرڈر کی ممنون رہی ہے اور ایڈورڈز کے بولنگ اٹیک نے پہلے پہل اسی ٹاپ آرڈر کا رستہ روکا۔ جب اوپر کی تین وکٹیں گر گئیں تو پھر مڈل آرڈر کے پاس بھی ڈچ بولنگ اور فیلڈنگ کے ڈسپلن کا کوئی جواب نہ تھا۔
چار روز پہلے تک یہ ورلڈ کپ شاید تاریخ کا سب سے بورنگ ایونٹ دکھائی دے رہا تھا مگر افغانستان اور نیدرلینڈز کی ہمت جواں ہوئی تو اب نہ صرف ہر فیورٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے بلکہ ون ڈے ورلڈ کپ بھی اپنی کھوتی ہوئی معنویت پانے کو قدم بڑھا رہا ہے۔