’اگر پاکستان اسے جنگ نہ سمجھے‘: سمیع چوہدری کا کالم

بی بی سی اردو  |  Oct 13, 2023

Getty Images

جاوید میانداد کہا کرتے تھے کہ انڈیا پاکستان میچ وہ موقع ہوتا ہے کہ جب کھلاڑی کھلاڑی نہیں رہتے، جنگجو بن جایا کرتے ہیں اور پورا سٹیڈیم میدان جنگ میں بدل جاتا ہے۔ عمران خان کہتے تھے کہ کرکٹ ایک پریشر گیم ہے اور پاکستان انڈیا میچ میں یہ پریشر دگنا ہو جاتا ہے۔

ورلڈ کپ تاریخ میں پاکستان کے خلاف انڈیا کا ریکارڈ ناقابلِ تسخیر رہا ہے۔ غالباً اسی تناظر میں، کچھ ہفتے پہلے، سارو گنگولی نے اس میچ کے گرد شور شرابے کو بلاجواز قرار دیا تھا کہ شاید اس ورلڈ کپ میں انڈیا آسٹریلیا میچ اس یکطرفہ مقابلے سے زیادہ دلچسپی کا سامان ہو گا۔

مگر انڈیا آسٹریلیا میچ چنائی کی سست پچ پہ کچھ ایسی سنسنی پیدا نہ کر پایا جو پہلی گیند سے بھی پہلے پاک انڈیا مقابلوں کے ہمراہ ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ ون ڈے ورلڈ کپ کی یکطرفہ تاریخ کے پیشِ نظر اب تک یہ جوش ماند پڑ جانا چاہئے تھا مگر گلوبل ایونٹ کی 48 سالہ تاریخ کے باوجود اس مقابلے کی دلچسپی جوں کی توں ہے۔

اگرچہ پاکستان اپنے شیڈول کے پہلے دو آسان مقابلے سہولت سے جیت چکا ہے مگر ٹاپ آرڈر کے مسائل ابھی بھی پریشان کن ہیں۔ عبداللہ شفیق کی شمولیت سے بابر اعظم کے کندھوں کا بوجھ کچھ کم تو ہوا ہے مگر امام الحق کی یکساں تکنیکی خامی یہاں بھی لمحۂ فکریہ ضرور ہو گی۔

اور جب یہ امر بھی ملحوظِ نظر رکھا جائے کہ انڈین بولنگ ڈچ اور لنکن اٹیک سے کہیں دشوار چیلنج ہو گا تو پاکستان کے امکانات کافی مدھم پڑتے نظر آتے ہیں کہ انجری سے واپسی کے بعد بمراہ بہترین فارم میں ہیں جبکہ ان کے ہمراہی محمد سراج کی لائن و لینتھ بھی حالیہ مہینوں میں کمال رہی ہے۔

دوسری جانب انڈیا اگرچہ شبھمن گل کی عدم دستیابی کے باوجود ایک مضبوط ترین بیٹنگ یونٹ ہے لیکن آسٹریلیا کے خلاف میچ میں یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر پیسرز اپنے ڈسپلن سے جڑے رہیں تو اس ٹاپ آرڈر میں نقب لگانا اتنا بھی دشوار نہیں ہو گا۔

Getty Images

لیکن پاکستان کے لیے بڑی دقت فی الحال شاہین آفریدی کی فارم ہے جو ایشیا کپ سے اب تک اپنا بہترین ظاہر نہیں کر پائے۔ پچھلے کچھ برسوں سے شاہین کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ نئی گیند کے ساتھ فُل لینتھ پہ یارکرز اور ان سوئنگ کے ہمراہ حملہ آور ہوتے ہیں اور یہ ان کی ابتدائی کامیابیوں کی کلید بھی رہا ہے۔

مگر پچھلے کچھ عرصے میں وہ نئی گیند سے ویسی ان سوئنگ حاصل نہیں کر پا رہے جو بلے بازوں کے لئے خطرہ بن پائے۔ اور یہ دقت تب سوا ہو جاتی ہے جب بلے بازوں کی جوابی جارحیت کے باوجود شاہین اپنی لینتھ کو کھینچنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ سری لنکا کے خلاف میچ میں بھی یہی کچھ ہوا۔

پاکستان کے لیے اس سے بھی بڑا عقدہ سپنرز کی کم مائیگی رہا ہے۔ شاداب خان متواتر ٹی ٹونٹی کھیلنے کے بعد ابھی تک ون ڈے کرکٹ کے اسرار و رموز سے شناسا نہیں ہو پائے اور صحیح لائن لینتھ کی کھوج میں بھٹکتے نظر آتے ہیں۔

جبکہ انڈیا کی قوت پیس بولنگ کے علاوہ سپن ڈیپارٹمنٹ میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ جس طرح سے رویندرا جدیجا اور کلدیپ یادو نے آسٹریلوی بلے بازوں کو چاروں خانے چِت کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس انڈین ٹیم کے سبھی شعبے اپنی کمال مہارت سے سرگرمِ عمل ہیں۔

لیکن پاکستان کے لیے خوش کن پہلو یہ ہے کہ پچھلے چند برس کے اعدادوشمار میں اگر لیفٹ آرم سپن کے خلاف ٹیموں کی اوسط کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان اوّلین نمبر پہ ہے جہاں اس کی اوسط 82 رنز کے لگ بھگ ہے اور یہ دوسرے درجے پہ کھڑی ٹیم کے اوسط سے بھی دوگنا ہے۔

سو، اگر پاکستانی بیٹنگ بمراہ اور سراج کے ڈسپلن کا ابتدائی بوجھ جھیل پائی تو مڈل آرڈر میں محمد رضوان اور سعود شکیل جیسے کہنہ مشق انڈین سپنرز کو وکٹوں سے محروم رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور بیچ کے اوورز ہی وہ مرحلہ ہوا کرتا ہے جہاں ون ڈے کرکٹ اپنی چال طے کیا کرتی ہے۔

پاکستانی سپنرز کو بہترین ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا ہو گا کہ انڈین مڈل آرڈر کا سپن کے خلاف ریکارڈ پہلے ہی قابلِ رشک ہے۔ پاکستانی پیسرز بھی یقیناً پچھلے میچ کی کوتاہیوں سے تشفی بخش سبق سیکھ چکے ہوں گے۔ اگر پاکستانی ٹاپ آرڈر انڈین پیس کی یلغار سے بچ نکلا تو مقابلہ برابر کا ہو جائے گا ورنہ بظاہر انڈیا کو واضح فوقیت حاصل ہے۔

دونوں ٹیمیں اپنے پہلے دو دو میچز جیت چکی ہیں اور یہاں ایک دوسرے کی فتوحات کے آگے بند باندھنے کو میدان میں اتریں گی۔ سری لنکا کے خلاف ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف طے کرنے کے بعد یہاں پاکستان کا مورال بھی بلند ہو گا اور ایسے پریشر میچز میں اعتماد کی فراوانی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

کیونکہ جب ایسی تاریخی رقابت کے ہمراہ دو ٹیمیں میدان میں اترتی ہیں تو تکنیکی پختگی اور اعداد و شمار سے بھی اہم تر ہو رہتی ہے ذہنی پختگی۔

اور اگر پاکستانی کھلاڑیوں نے اس میچ کو جنگ نہ سمجھا تو بعید نہیں کہ تاریخ کا صفحہ پلٹ جائے اور ایک نیا ریکارڈ ان کا منتظر ہو۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More