Getty Images
جب بھی انڈیا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں میدان میں ٹکراتی ہیں، دنیا روایتی حریفوں کے درمیان کھیلوں کا سب سے سخت مقابلہ دیکھتی ہے۔
احمد آباد میں 14 اکتوبر کو ہونے والا ورلڈ کپ میچ توقعات اور جذبات سے بھرپور ہوگا۔
برصغیر کی آزادی اور تقسیم کے بعد سے جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان کشیدہ تعلقات ہیں۔ دونوں 1947 سے لے کر اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔
لیکن سرد تعلقات کے باوجود ان کی کرکٹ کی تاریخ دونوں ٹیموں کے درمیان محبت، احترام اور دوستی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔
گذشتہ ماہ ختم ہونے والے ایشیا کپ میں پاکستانی بولر شاہین آفریدی نے انڈین فاسٹ بولر جسپریت بمرا کو ان کے نوزائیدہ بچے کے لیے تحفہ دیا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ دیکھی گئی۔
اس اقدام اور تصویر نے پاکستانی اور انڈین شائقین دونوں کے دل جیت لیے۔ اسی طرح 2022 میں وائرل ہونے والی ایک تصویر میں انڈیا کی خواتین کی کرکٹ ٹیم پاکستانی کپتان بسمہ معروف کے بچے کو میدان سے باہر دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ اس تصویر نے انٹرنیٹ پر دلوں کو پگھلا دیا تھا۔
ماضی میں دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان طویل عرصے تک کشیدگی نے کھیل کو متاثر کیا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ اکثر دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کھیل سکیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ تعلقات 1999 میں کارگل جنگ کے بعد معطل ہو گئے تھے۔
سنہ 2003 میں سابق انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے امن اقدام کے بعد تقریباً 15 سالوں میں پہلی بار پاکستان کا دورہ کیا۔ لیکن 2008 کے ممبئی حملوں، جن میں 166 افراد مارے گئے تھے، کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں پھر سے تناؤ آ گیا۔
انڈیا نے ان حملوں کا الزام پاکستان میں موجود عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ پر عائد کیا تھا۔
سنہ 2012 کے بعد سے کرکٹ کی دونوں عظیم ٹیموں کے درمیان کوئی دو طرفہ سیریز نہیں ہوئی ہے۔ یہ ممالک صرف انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ایونٹس اور ایشیا کپ میں ایک دوسرے کا سامنا کر چکے ہیں۔
پھر بھی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 1947 سے لے کر آج تک دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان ذاتی تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں۔
اس سال یعنی سنہ 1947 کو غیر منقسم ملک کی کرکٹ ٹیم کے ایک کھلاڑی فضل محمود کو تقسیم کے دن 15 اگست کو انڈین شہر پونے میں ایک کیمپ میں شرکت کے لیے کہا گیا۔
انھیں اپنے آبائی شہر لاہور سے پونے کا خطرناک سفر طے کرنا پڑا جو ہندو مسلم فسادات کے درمیان راتوں رات پاکستان کا حصہ بن گیا تھا۔
آخر کار بدامنی کی وجہ سے کیمپ کو ختم کر دیا گیا، لیکن اس کے بعد ان کے اور ان کے انڈین ساتھی سی کے نائیڈو کے درمیان جو کچھ ہوا وہ تاریخی تھا۔
’کرکٹر سی کے نائیڈو میرے ساتھ سفر کر رہے تھے۔‘ فضل محمود نے اپنی سوانح عمری ’فرام ڈسک ٹو ڈان‘ میں لکھا۔
’مجھے ٹرین میں چند انتہا پسندوں نے دیکھا جو مجھے نقصان پہنچانا چاہتے تھے، لیکن سی کے نائیڈو نے مجھے ان سے بچایا۔ اس نے اپنا بیٹ نکالا اور انھیں مجھ سے دور رہنے کو کہا۔‘
نائیڈو کو انڈیا میں کرکٹ کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ فضل محمود پاکستان کے پہلے عظیم بولروں میں سے ایک تھے جو نئے بننے والے ملک میں پوسٹر بوائے بن گئے کیونکہ انھوں نے آزادی کے بعد اپنی ٹیم کو شروع سے بنایا تھا۔
اس کے بعد کی دہائیوں نے دوستی کی ایسی ہی دل کو گرما دینے والی کہانیاں پیش کیں ہیں۔
Getty Images
سنہ 1987 میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ سیریز انڈین تہوار ہولی کے موقع پر ہوئی تھی۔ اس وقت پاکستانی ٹیم کا میچوں کے لیے انڈیا جانا عام تھا۔
سابق انڈین وکٹ کیپر کرن مورے، جو اس وقت قومی ٹیم کا حصہ تھے اس شاندار جشن کو یاد کرتے ہیں۔
مورے نے گذشتہ ماہ بی بی سی کو بتایا کہ ’اس سال ہولی کا تہوار یادگار رہا۔ پورا ہوٹل رنگوں سے بھرا ہوا تھا جسے ہم نے ایک دوسرے پر ڈال کر رنگ دیا تھا۔ یہاں تک کہ سوئمنگ پول بھی سرخ ہو گیا۔ یہ اب تک کی بہترین ہولیوں میں سے ایک تھی۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی کھلاڑی بہت پرجوش تھے۔ ’ہوٹل نے ہمیں متنبہ کرنے کی کوشش کی اور بالآخر ہم پر پانچ سو پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا، جو کہ 1987 میں ایک بہت بڑی رقم تھی۔ اگلے دن ہم ایک دوسرے کے خلاف سخت حریف کے طور پر کھیلے اور دشمنی دوبارہ شروع ہو گئی۔‘
دونوں ٹیموں کے درمیان کرکٹ دوروں میں وقفے کے باوجود دوستی برقرار رہی۔
پچھلے سال جب انڈین سپن بولر بشن سنگھ بیدی سکھوں کے گرودوارے جانے کے لیے پاکستان گئے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کے ان کے ہم عصر پرانے دوست ان سے ملنے آئے تھے۔
ان کے سابق مخالف پاکستانی کوچ انتخاب عالم، جنھوں نے 1970 کی دہائی میں ملک کی ٹیم کی کپتانی کی تھی، بیدی کے لیے پرفارم کرتے ہوئے لوئس آرمسٹرانگ کا گانا ’وین دی سینٹس گو مارچنگ اِن‘ سنایا۔
انتخاب عالم انڈیا میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے۔ وہ 2004 میں اپنی پیدائش گاہ واپس آئے، ایک مقامی انڈین کرکٹ ٹیم پنجاب کی کوچنگ کرنے والے پہلے غیر ملکی بن گئے۔
اس دن، دونوں کپتانوں کا تعلق گانوں، کھانے اور یادوں پر بندھا ہوا تھا۔
Getty Images
کئی دہائیوں سے دونوں ٹیموں کے موجودہ کھلاڑیوں میں خیر سگالی برقرار ہے۔
انڈین ٹیم کے سابق کپتان ویراٹ کوہلی اور پاکستانی کپتان بابر اعظم باقاعدگی سے ایک دوسرے کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔
کوہلی نے بابر اعظم کو دنیا کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔