Getty Images
مارک نکولس کرکٹ کی معتبر آوازوں میں سے ایک ہیں۔ حال ہی میں وہ ایم سی سی کی سربراہی پر فائز ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ون ڈے کرکٹ کو صرف ورلڈ کپ تک محدود کر دیا جائے اور دوطرفہ مقابلوں میں اس فارمیٹ سے احتراز برتا جائے۔
مگر کرکٹ کے قوانین وضع کرنے اور ساکھ برقرار رکھنے کا ذمہ دار میریلبون کرکٹ کلب عالمی کھیل پر ویسی دسترس نہیں رکھتا جو آئی سی سی کو میسر ہے۔ آئی سی سی گلوبل سطح پر کرکٹ چلانے کا کُلی اختیار رکھتی ہے اور ایم سی سی کو ایک رقیب کی نظر سے دیکھتی ہے۔
بطور مبصر نکولس کھیل کا جو شعور رکھتے ہیں، اس کے تناظر میں یہ تجویز خاصی نامعقول دکھائی دیتی ہے کہ بالآخر ایک ایسے فارمیٹ کی گلوبل چیمپئین شپ کھیلنے کا کیا جواز بچ رہتا ہے جو دوطرفہ مقابلوں میں، بظاہر، اپنی حیثیت ثابت کرنے سے معذور نظر آتا ہے۔
ٹی ٹونٹی کرکٹ کی آمد کے بعد سے ہر ون ڈے ورلڈ کپ پر ایک اضافی بوجھ بھی لاد دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ مختصر طرز کی کرکٹ کے ایک روزہ دورانئے کی بقا کا جواز بھی پیدا کرے اور یقینی بنائے کہ صرف ٹی وی ریٹنگز ہی نہیں، ٹکٹوں کی فروخت بھی عروج پر رہے۔
حالیہ ورلڈ کپ سے بھی یہ بے جا توقع وابستہ کی جا رہی تھی کہ پونے دو ارب کی آبادی والے میزبان ملک میں ہر میچ ویسے ہی ہاؤس فل ہو جیسے آئی پی ایل کے ہنگام سٹیڈیمز میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ مگر آئی پی ایل کا فارمیٹ شائقین کے لیے ون ڈے کی طرح دقت آمیز نہیں ہوتا۔
Getty Images
اور پھر بیشتر انڈین سٹیڈیمز کی گنجائش بھی اس قدر وسیع ہے کہ پچیس ہزار تماشائیوں کی موجودگی میں بھی خالی خالی سے نظر آتے ہیں۔ مگر سٹیڈیمز بھرنے کو فقط مثبت پسند توقعات اور میڈیا ہائپ ہی کافی نہیں ہوا کرتی، کھیل کو بھی اپنی سنسنی جگانا ضروری ہوتا ہے۔
اس سیاق و سباق میں یہ ورلڈ کپ تاحال کوئی ایسا جوش پیدا نہیں کر پایا جو کانٹے دار مقابلوں سے جنم لیا کرتا ہے۔
افتتاحی میچ میں انگلینڈ کی ٹیم سلیکشن منطق سے بالاتر تھی۔ انگلش بولنگ اور بٹلر کی قیادت اس سے بھی بدتر رہی۔ اور یوں نیوزی لینڈ نے ایک مناسب ہدف کا ٹھٹھہ اڑا کر رکھ دیا۔ پاکستان کے خلاف ڈچ بولنگ نے شروع میں ایک اپ سیٹ کی امید سی پیدا کی مگر ڈچ بیٹنگ اس توقع کا بوجھ اٹھا نہ پائی۔
جنوبی افریقی بیٹنگ نے ایک ہی اننگز میں سری لنکن بولنگ کے خلاف ڈھائی ٹی ٹونٹی اننگز کھیل ڈالیں مگر سری لنکن جواب تشنۂ تکمیل رہ گیا۔
انتظامی اعتبار سے بھی معاملات زیادہ متاثر کُن نہیں رہے۔ دھرم شالہ کی آؤٹ فیلڈ ایسی بے آب و گیاہ نکلی کہ اس نے میچ سے زیادہ کھلاڑیوں میں اضطراب پیدا کیے رکھا کہ وہ فیلڈنگ کرتے وقت میچ بچانے کو پیشِ نظر رکھیں یا اپنے آپ کو۔ مگر آئی سی سی حکام اور میچ ریفری جواگل سری ناتھ اسے عالمی معیارات کے عین مطابق قرار دیتے وقت یکسر مطمئن نظر آئے۔
Getty Images
کووڈ کے بعد کرکٹ کیلنڈر جس بحران سے گزرا، اس کے طفیل یکے بعد دو ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ تیار کرنے میں ون ڈے کرکٹ منظرِ عام سے غائب ہو گئی تھی اور ون ڈے ورلڈ کپ آتے ہی ایک ایسا گھمسان پڑا کہ جس کے پیشِ نظر سبھی ٹیمیں پچھلے چند ماہ ون ڈے کرکٹ کے بخار میں مبتلا رہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی ایک انجریز دیکھنے کو ملیں اور بیشتر ٹیمیں اپنے کلیدی چہروں کے بغیر گلوبل ایونٹ تک پہنچی۔ سو، اگر انجریز کے بادل یوں ہر ٹیم پہ منڈلا رہے ہوتے تو شاید زیادہ مسابقتی کرکٹ دیکھنے کو مل سکتی تھی۔
تاحال چنئی کے سوا باقی سبھی وینیوز پر رنز کی گنگا بہتی رہی ہے اور جب حالات یوں بلے بازی کی جانبداری کر رہے ہوں، تب یکطرفہ مقابلے زور پکڑتے ہیں اور کمزور ٹیموں کے امکانات ماند تر ہو جاتے ہیں۔ سو، ابھی تک سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان کہیں کوئی حیرت کا سامان پیدا نہیں کر پائے۔
افغانستان کی کرکٹ پچھلے چند برسوں سے بہت پُرجوش رہی ہے اور ان سے توقعات جوڑنے والوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھوتری پر مائل ہے مگر ابھی تک وہ بڑے ایونٹس میں کسی بھی حریف کے لیے لمحۂ فکریہ بننے سے گریزاں ہے کہ راشد خان بھی ٹاپ ٹیموں کے خلاف وہ ہتھیار نہیں بن پائے جو ٹی ٹونٹی فرنچائز کرکٹ میں ان کی شہرت ہو چلی ہے۔
اور اگرچہ سری لنکا اپنی بولنگ کے طفیل پہلے ہی پریشان تھا، ورلڈ کپ سے عین پہلے ہسارنگا کی انجری نے اس پہ ایک اور گھاؤ ڈال چھوڑا ہے۔ جبکہ بنگلہ دیشی کرکٹ اپنے انتظامی مسائل اور غیر منطقی ٹیم سلیکشن کے سبب اس بار بھی کوئی تاثیر پیدا کرنے سے محروم نظر آتی ہے۔
مارک نکولس کی تجویز بھلے کتنی ہی نامعقول کیوں نہ دکھائی دے، ان کے خدشات بہرحال بجا ہیں اور تاحال یہ ورلڈ کپ ان کا جواب دینے سے قاصر رہا ہے۔ مگر عین ممکن ہے کہ شیڈول جوں جوں آگے بڑھے، شاید پچز کے مزاج میں کچھ بدلاؤ آئے، بلے بازوں کی یکطرفہ برتری کم پڑے اور شاید چھوٹی ٹیمیں بھی کوئی اپ سیٹ رچا کر اس فارمیٹ میں نئی روح پھونک سکیں۔