جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا

بی بی سی اردو  |  Oct 12, 2023

Getty Imagesپاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں فضل محمود کو ملک کا پہلا سپر سٹار تصور کیا جاتا ہے

یہ 1955 کی بات ہے۔

ادیب اور مترجم سوم آنند انھی دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں کا ایکٹیسٹ میچ لاہورمیں تھا اور نئی دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے اعلان ہوا کہ جو شخص بھی میچ دیکھنا چاہتا ہے وہ پاکستان کا چار روز کا ویزا بغیر کسی تاخیرکے حاصل کر سکتا ہے۔

’سرحد کا دروازہ جب اس طرح سے کھول دیا گیا تو اس صلائے عام پر تقریباً 20 ہزار ہندوستانی دوڑے۔ بہت سے لوگ (شائقین کرکٹ) تو امرتسر سے سائیکلوں پر لاہور جاتے دیکھے گئے۔‘

سوم آنند کا اپنا بچپن لاہور میں گزرا تھا چنانچہ انھیں اس شہر سے اُنس تھا۔

یہ یاد اُن کی کتاب ’باتیں لاہور کی‘ سے لی گئی ہے۔ اُردو زبان میں لکھی گئی اس کتاب میں تب نئی دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر راجا غضنفر علی خان کے اچھے سفارتی رویے کا بھی تذکرہ ہے۔

رویے تب شاید تھے ہی اچھے، دونوں طرف۔

’پاکستانکو ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ انڈیا کی سفارش پر ملا‘

پاکستان سنہ 1948 میں امپیریل کرکٹکانفرنس (موجودہ آئی سی سی) کا رُکن بنا تھا، مگر وہ ’فُل ممبر‘ نہیں تھا، بنتا تو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا اہل ہوتا۔

علی خان کی تحقیق کے مطابق غیرمنقسم ہندوستان 1926 میں آئی سی سی کا مکمل رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کو آئی سی سی میں مکمل داخلے کے لیے تقسیم کے بعد 5 سال تک انتظار کرنا پڑا۔

علی خان لکھتے ہیں کہ آئی سی سی کی رکنیت حاصل کرنے کی پاکستان کی ابتدائی دو کوششیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اِس بنیاد پر رد کر دیں کہ اس ’قوم کو ابھیناقابل تسخیر مشکلات پر قابو پانا ہے۔ تاہم تیسری کوشش پر اینتھونی ڈی میلو (اُس وقت کے انڈین کرکٹ بورڈ کے صدر) کی سفارش پر پاکستان کو 1952 میں مکمل رکنیتدے دی گئی۔‘

آئی سی سی رکنیت کے حصول کے بعد اُسی سال انڈیا دلی میں پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ میچ کھیلنے والی پہلی ٹیم تھی۔

علی خان لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ تقسیم کی ہولناکیوں کے بعد عوام سے عوام کے رابطے کا پہلا حقیقی موقع تھا۔ دونوں ٹیموں کے کپتان تقسیم سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور دونوں لاہور کے مشہور کریسنٹ کلب کے لیے کھیل چکے تھے۔ عبدالحفیظ کاردار (پاکستان) اور لالا امرناتھ (انڈیا) دونوں نے کرکٹلاہور کےمنٹو پارک کے میدانوں میں سیکھی تھی۔ وہ ایک ہی زبان بولتے تھے۔‘

Getty Images20 اکتوبر 1952 میں دہلی میں ہونے والے ٹیسٹ میچ کے دوران پاکستانی بولر کے ہاتھوں انڈین بلے باز وجے ہزارے کے بولڈ ہونے کا منظرمہمان نوازی

لالا امرناتھ تو پاکستانی کرکٹرز کا استقبال کرنے دلی ٹرین سٹیشن بھی گئے۔

امرناتھ کی سوانح عمری کے مطابق ’جہاں کسی کو دشمنی کی توقع تھی وہاں صرف دوستی تھی۔‘

ٹیم کے ایک رکن وقار حسن نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’ٹیم کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال ایسی تھی کہ دشمنی ہوا میں بکھر گئی۔‘

پانچٹیسٹ میچوں کی یہسیریز انڈیا دو ایک سے جیت گیا جبکہ دو میچ برابر رہے۔

دلیٹیسٹ پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ عبدالحفیظ کاردار اور امیر الٰہی کے علاوہ تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے یہ ڈیبیو ٹیسٹ تھا۔ کاردار اور الٰہی اس سے قبل انڈیا کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے تھے۔

لکھنئو میںدوسرا ٹیسٹ تھا۔ لکھاری اور کرکٹر نجم لطیف کے مطابق پاکستانی ٹیم ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساںکشش رکھتیتھی۔ ’اس کی بڑی وجہ نوجوان بلے باز حنیف محمد تھے۔ پاکستانی ٹیم رائل ہوٹل میں ٹھہری تھی۔ قریب ہی سے اسلامیہ کالج کے طلبا نے حنیف کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لابی پر دھاوا بول دیا۔‘

Getty Imagesحنیف محمد’فضل محمود نے بیگم کی بات مانی‘

لکھنئو پہنچنے سے پہلے پاکستان کے فاسٹ بولرفضل محمود کے لیے ان کی اہلیہ کا ٹیلی گرام آ چکا تھا کہ وہ کم ازکم سات وکٹ ضرور لیں۔

’پٹ سن کی مَِیٹنگ پر کھیلے گئے اس میچ میں فضل محمود نے پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری میں سات کھلاڑی آؤٹ کیے۔ یوں، ان کے میچ کے اعداد و شمار تھے: 92 رنز کے عوض 12 وکٹیں۔ نذر محمد نے ناقابل شکست 124 رنز بنائے۔ اس طرح پاکستان نے انڈیا کو ایک اننگز اور 43 رنز سے شکست دے کر اپنی پہلی جیت سمیٹی۔‘

لکھنؤ کا ہجوم کھلاڑیوں کا مذاق بھی شستہ اُردو زبان میں اڑا رہا تھا۔

وقارحسن اپنی سوانح عمری میں ایکخاصتبصرہ کو واضح طور پر یاد کرتے ہیں کہ جب وہ باؤنڈری پر فیلڈنگ کر رہے تھے تو طلبا کے ایک گروپ نے ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہوئے یوں کہا: ’اجی قبلہ، آپ اگر رخ ِزیبا اس طرف نہیں کریں گے تو ہم آپ کے ابا حضور کی شان میں گستاخی کر دیں گے۔‘

انڈین ٹیم کی ہار پر انڈیا میں حملہ

تاہم نجم لطیف لکھتے ہیں کہ تقریباً 25000 کا یہ ہجوم انڈیا کی شکست کو ہضم نہ کر سکا۔

’انھوں نے انڈین کھلاڑیوں کے کیمپوں پر حملہ کر کے انھیں آگ لگا دی۔ انھوں نے اس بس کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے جو انڈینکھلاڑیوں کو واپس ان کے ہوٹل لے جانے والی تھی۔ انڈین کھلاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا گیا اور وہبڑی مشکل سے خود کو بچا کر اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔‘

بیگم اختر کی دعائیں پاکستانی ٹیم کے لیے

'واپس رائل ہوٹل میں، فضل محمود نے دیکھا کہ نذرمحمد تیار ہو کر کہیں جانے کی جلدی میں ہیں۔ فضل کے پوچھنے پر نذر نے بتایا کہ وہ ملکہ غزل بیگم اختر فیض آبادیکو آداب کہنے جا رہے ہیں۔

فضلبھی جانے کو تیار ہو گئے۔

نجم لطیف لکھتے ہیں کہ دونوں ان کے گھر پہنچے اور بیٹھک میںبیٹھ گئے۔ کچھ وقت تکجب وہ نہ آئیں تو فضل نے ملازمسے پوچھاکہ وہ کہاں ہیں؟

’جوابملا کہ وہ اگلے کمرے میں نماز پڑھ رہی ہیں۔ فضل اور نذر دونوں اٹھ کر اس کمرے میں چلے گئے جہاں بیگم اختر تھیں۔ جائے نماز پر اپنے ہی خیالوں میں مگن تھیں۔ فضل اور نذر نے مخاطب کیا۔ وہ ان کو دیکھ کر چونک گئیں اور کہنے لگی ’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو تو میچ جیتنے کے لیے کھیلنا چاہیے۔ میں یہاں آپ کی جیت کے لیے دعا کر رہی ہوں۔‘

فضل نے آگے کی طرف جھک کر کہا: ’آپ کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں۔ ہم جیت گئے ہیں۔ پاکستان جیت گیا۔‘

’یہ بڑی خبر سُن کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھے اور اللہ کا شکر ادا کرتے سنا۔‘

فضل اور نذر کی فرمائش پر ان کا دل بہلانے کے لیے، انھوں نے پھر اپنی لازوال غزل ’دیوانہ بنانا ہے‘ گائی۔

بمبئی (ممبئی) میں انڈیا دس وکٹوں سے جیتا جبکہ اگلے دو میچ برابر رہے۔مبصرین کے مطابق لکھنئو میں ہوئے حملوں سے ٹیموں پر اپنے اپنے شائقین کا ڈر بیٹھ چکا تھا۔

ڈرا ہی ڈرا

اس ابتدائی سیریز کے دو سال بعد انڈیا نے پاکستان کا دورہ کیا جہاں ہونے والے پانچ کے پانچ میچ ڈرا ہوئے۔

ڈھاکا (موجودہ بنگلہ دیش)، بہاول پور، لاہور، پشاور اور کراچی میں ہوئے ان میچوں پر وزڈن کا تبصرہ تھا کہ: ’کسی بھی طرف سے پہل کرنے کے لیے تیار نہ ہونے کے باعث سیریزبرابر ہوئی۔ تمام پانچ ٹیسٹ تاریخ میں پہلی بار ڈرا ہوئے۔ شکست کا خوف دونوں ٹیموں کے ذہنوں میں سرفہرست رہا اور ایسا لگتا ہے کہ جب تک دونوں ممالک کو یہ احساس نہیں ہو جاتا کہ ٹیسٹ میچ ہارنا وہ تباہ کن سانحہ نہیں ہے جس کا وہ تصور کرتے نظر آتے ہیں، ان کے درمیان کھیل عملی طور پر غیر دلچسپ رہنے کا امکان ہے۔‘

ہاں لاہور آنے کا موقع ملنے پر انڈینشائقین پرُجوش تھے۔

’ہندوستانی مہمانوں کو خوش آمدید‘

علی خان نے اُن انڈین شائقین کی تعداد دس ہزار لکھی ہے جو لاہور ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لیے آئے تھے۔

’جو لوگ امرتسر میں رہتے تھے انھیں ہر رات اپنے گھروں کو واپس پاکستان، بھارت سرحد عبور کرنے کی اجازت تھی۔‘

آئیے سوم آنند کی بات پھر سے سنتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لاہور پہنچ کر یوں محسوس ہوا جیسے یہاں کوئی برات آنے والی ہے اور سار شہر اس کے سواگت [استقبال] میں لگا ہے۔جگہ جگہ محرابیں بنی تھیں۔ اکثر جگہ جلی حروفمیں لکھا تھا ’ہندوستانی مہمانوں کو خوش آمدید۔‘

’کئی بازاروں میں ان مہمانوں کے لیے چائے پانی کا اہتمام عام ہوتا۔ سڑکوں پر لوگ اجنبیوں کو بھی آواز دے دے کر بلاتے، دو روز بعد تو یہ کیفیت ہو گئی کہ بچے بھی کھیل کھیل میں بڑوں کی نقل میں اس طرح کے جملے دہرانے لگے ’جی آئیاں نوں، جی صدقے‘ اور یہ میلا چار روز تک رہا۔‘

مصنف سریش مینن کا کہنا ہے 1955 میں ہزاروں شائقین کراچی ایئرپورٹ پر انڈین کرکٹرز کے استقبال کے لیے جمع ہوئے۔ جب بھی ہندوستانی کھلاڑی دورہ پاکستان کے دوران خریداری کرنے جاتے تو دکاندار اکثر ان سے پیسے لینے سے انکار کر دیتے۔

’انڈینکھلاڑیوں نے ہمیشہ پاکستان میں شائقین سے ملنے والی محبت اور تعریف کے بارے میں بات کی ہے۔‘

کوئی بھی ٹیم ایک دوسرے سے ہارنا نہیں چاہتی تھی ۔ روایتی حریفوں کے درمیان 1955 سے 1961 تک تمام 10 ٹیسٹ ڈرا پر ختم ہوئے۔

17 سالتک کرکٹ روابط نہیں تھےGetty Images

1961 اور 1978 کے بیچ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مستقل تناؤ (بشمول 1965 اور 1971 کی جنگیں) کے باعث دونوں ٹیموں نے کوئی میچ نہیں کھیلا۔ (دونوں ٹیمیں 1975 کے افتتاحی ورلڈ کپ میں بھیایک دوسرےکے سامنے نہ آ سکیں)۔ 1978 سے 1985 تک 20 ٹیسٹ اور 11 دو طرفہ ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے گئے۔

سرحد پر فوجیوں کی نقل و حرکت سے تناؤ میں اضافہ ہوا تو 1987 میں جنرل ضیا الحق جے پور ٹیسٹ میچدیکھنے اورانڈینوزیر اعظم راجیو گاندھی سے ملاقات کے لیے جا پہنچے۔ اس سے تناوکم ہوا اور ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کے لیے فضا سازگار ہوئی۔

1990 کی دہائی کے بیشتر حصے میں ایک اور انجماد آیا۔ کرکٹ 1999 میں مختصر طور پر دوبارہ نمودار ہوئی۔ رینا گٹوسو نے لکھا ہے کہ اپریل 1999 میں انڈیا اور پاکستان 1987 کے بعد پہلی بار انڈیامیںایک دوسرے سے کھیلنے والے تھے۔

انڈین اخبار ’دی ہندو‘ سے منسلک صحافی امِت بارواہ نے اپنی کتاب ’ڈیٹ لائن اسلام آباد‘ میں لکھا ہے کہ 27 مارچ 1999 کو انڈین حکومت نے قذافی سٹیڈیم لاہور میں ’کیمپ ویزاآفس‘ کھولاتاکہ موہالی میں کھیلے جانے والے انڈیا اور پاکستان کے ایک روزہ میچ کے ایکہزار ویزے جاری کیے جا سکیں۔

رینا گٹوسو لکھتی ہیںکہ ’[قریبی شہر] چندی گڑھ کی گلیوں میں جوش و خروش قابل دید تھا۔انڈیا اور پاکستان کے شائقین اتنی زیادہ تعدادمیں اس کھیل کو دیکھنے آئے کہ مقامی ہوٹلوں کے کمرے ختم ہو گئے۔ شہری انتظامیہ نے مقامی اخبار میں ایک اپیل چھاپی، جس میںلوگوںسے کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں میں پاکستانی مہمانوں کی میزبانی کریں۔

اور پھر کارگل کے تصادمکی وجہ سےیہ سلسلہ دوبارہ بند ہو گیا۔

ایک اور سیاسی پگھلاؤکے باعث2004 اور 2007 کے درمیان بارہ ٹیسٹ میچز اور 24 ون ڈے میچز کھیلے گئے۔

پچاس کی دہائی جیسی مہمان نوازی 2004 میں دہرائی گئی۔

اس دورے کی کوریج کرنے والےانڈینصحافی راہول بھٹاچاریا نے اپنی کتاب’پنڈتس فرام پاکستان‘ میں لکھا کہ انڈین شائقیناتنی تعداد میں آئے کہ پہلے کبھی نہیںآ پائے تھے۔

’وہ ہوائی جہاز سے آئے ، پیدل آئے، بذریعہ سڑک اور ریل آئے۔ ان تمام ذرائعکا استعمال کرتے ہوئے جو انڈین وزیراعظماٹل بہاری واجپائی کے جنوری کے دورے کے بعد سے کھولے گئے تھے۔ بڑی پروازیں، خصوصی پروازیں، اضافی بسیں، ہزاروں کی تعداد میں پیدل آئے، جن کے بینرز پر ’فرینڈز فار ایور‘[ہمیشہ کے لیے دوست] لکھا ہوا تھا۔‘

دو کرکٹ ناولوں کے مصنف رچرڈ ہیلر اور پاکستان کرکٹ کی تاریخ ’وونڈڈ ٹائیگر‘کے مصنف پیٹر اوبورن کے مطابق پاکستان کرکٹ کے سربراہشہریار خاننے لکھا ہے کہاس دورے کے اختتام پر انڈینہائی کمشنر نے ان سے کہا کہ ’بیس ہزارانڈینکرکٹ شائقین نے پاکستان کا دورہ کیا۔ گویا آپ نےانڈیامیں پاکستان کے 20 ہزار سفیروں کو بھیج دیا ہے۔‘

سنہ 2006میں تقریباً 3,000 لوگ صبح ہیسے انڈیا کیسرحدی چوکی پر قطار میں کھڑے تھے تاکہ پیدل پاکستان میں داخل ہوں اور پھر دونوں ٹیموں کے درمیان تیسرے ایک روزہ بین الاقوامی میچ کے لیے لاہور جاسکیں ۔

اے ایف پی کی خبر تھی کہ لوگوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کربارڈر پوسٹ کے عملے نے انٹری گیٹ بند کر دیا۔

’شائقینگیٹ توڑ کر امیگریشن آفس پہنچے۔ امیگریشن اہلکار گھبراہٹ میں بھاگ گئے اور ہجوم نے دفتر پر پتھراؤ کیا، کھڑکیاں توڑ دیں اور معمولی بھگدڑ مچ گئی جس میں تین افرادزخمی ہوئے۔

انڈیا، پاکستان کھلاڑیوں کی پوری ایک نسل آپس میں ٹیسٹ میچوں سے محروم

سنہ 2012 کے بعد سےانڈیا اور پاکستان کےدو طرفہ میچ نہیں ہوئےجبپاکستان انڈیامیں تین ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلنے گیا تھا۔دوطرفہ ٹیسٹ کرکٹتو اس سےبہت پہلے تمام ہوگئی تھی۔

گویاانڈین اور پاکستانی کرکٹرز کیپوری ایک نسل ٹیسٹ میچوں میں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کھیلی۔

صحافی شبھ اگروال لکھتے ہیں کہ انڈیااور پاکستانمیں سیاسی واقعات اکثر حقیقی کرکٹ کی قیمت پر مرکزی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔

رچرڈ ہیلر اور پیٹر اوبورن اپنے ایک مشترکہ مضمون میںلکھتے ہیں کہ سنہ1952 میں شروع ہونے والی پاک بھارت ٹیسٹ سیریزکی تاریخایشز سے بہت مختصر ہے، لیکن اس کی نسبتزیادہ گہرے جذبات اس سے جڑےہیں۔

'یہکھیلوں کے مقابلوں سے زیادہ، قومی تشخص کا اظہار ہیں، اور اسی لیےاس قدرسیاستکی زد میںہیں۔‘

سیاسی تلخیکا تذکرہ کرتے ہوئے ہی سوم آنندکہتے ہیں: کشیدگی کے دنوں میں ایسے لوگوں کے خیالات کا سکہ زیادہ چلتا ہے جو سخت اور بے لچک رویہ اختیار کرنے کے حق میں ہوتے ہیں۔

'اس کا نتیجہ ہندوستان اور پاکستان کے عام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔'

یہ وہی عام لوگ ہیں جو کبھی ہزاروں کی تعداد میں کرکٹ میچ دیکھنے ایک سے دوسرے ملک جاتے تھے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More