چاند پر ممکنہ زلزلہ اور ’اچھلنے کا تجربہ‘: چاند کے تاریک کونے سے حاصل شدہ معلومات کتنی اہم ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 19, 2023

گذشتہ ماہ انڈیا نے چاند کے تاریک کونے، یعنی قطب جنوبی، پر دنیا کا پہلا خلائی مشن بھیج کر تاریخ رقم کی تھی۔

چندریان تھری کے ذریعے چاند کی سطح پر ’وکرم‘ نام کا لینڈر اور ’پراگیان‘ نام کا روور اُتارا گیا جن کی مدد سے 10 دن تک معلومات اور تصاویر حاصل کرنے کے بعد تجزیے کے لیے واپس زمین پر قائم کنٹرول روم میں بھیجی گئیں۔

اس ماہ کے آغاز میں سائنسدانوں نے ان مشینوں کو وقفہ دیا تاکہ وہ سورج کی روشنی کی مدد سے اپنی بیٹریاں چارج کر سکیں۔ انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کا کہنا ہے کہ اب یہ مشینیں 22 ستمبر کے قریب ’بیدار‘ ہوں گی۔

اسرو نے وکرم اور پراگیان کی حرکات اور ان سے حاصل کردہ معلومات اور تصاویر کے بارے میں باقاعدگی سے اطلاعات دی ہیں جنھوں نے ایک جانب انڈیا کے شہریوں کو اس مشن سے آگاہ رکھا ہے تو وہیں دوسری جانب بہت سے لوگ ان دریافتوں کی سائنسی اہمیت کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔

بی بی سی نے سابق ناسا سائنسدان میلا مترا سے اسی معاملے پر بات چیت کی ہے جو دلی کی ایک نجی تنظیم سٹیم اینڈ سپیس کی شریک بانی ہیں۔ یہ کمپنی خلائی تعلیم پر کام کرتی ہے۔

فاصلہ اور گڑھے

دو ستمبر کو جب پراگیان روور کو بند کیا جانے والا تھا تو اس سے قبل اسرو نے اعلان کیا کہ یہ اب تک 100 میٹر کا سفر طے کر چکا ہے۔

واضح رہے کہ چھ پہیوں والا یہ روور ایک سینٹی میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چل سکتا ہے۔ میلا مترا کا کہنا ہے کہ ’ایک اہم بات یہ ہے کہ اب تک یہ محفوظ رہا ہے اور چاند کی سطح پر موجود متعدد گڑھوں میں سے کسی میں گرا نہیں ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ اس گاڑی میں پہیوں کا خصوصی میکنزم ہوتا ہے جسے ’روکر بوگی‘ کہتے ہیں۔

’اس کا مطلب ہے کہ تمام پہیے ایک ساتھ نہیں چلتے۔ اسی لیے اگر یہ کسی گہرے گڑھے میں گر جائے تو باہر نکلنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ اسے گڑھوں سے دور رکھا جائے اور اگر کوئی گڑھا سامنے آ جائے تو اسے واپس لے جایا جا سکے یعنی ریورس کیا جا سکے۔‘

میلا مترا کا کہنا ہے کہ یہ کام روور کی آنکھ کی مدد سے سائنسدان کرتے ہیں جو زمین پر کمانڈ سینٹر میں موجود ہیں۔

ایسے میں ایک خطرہ بھی موجود ہوتا ہے کیوں کہ میلا بتاتی ہیں کہ ’پراگیان سے زمین تک تصاویر پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوتی ہے اور جب تک معلومات یا منظر زمین پر پہنچتا ہے، یہ گاڑی خطرے سے قریب ہو چکی ہوتی ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب تک دو گہرے گڑھوں سے اسے محفوظ رکھا جا چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ کمانڈ سینٹر سے اس روور کا رابطہ کافی اچھا ہے۔

گرم سرد

چاند کی سطح کے اوپر کی مٹی اور 10 سینٹی میٹر نیچے سے حاصل کردہ نمونوں کے تجزیے سے پتہ چلا کہ دونوں کے درجہ حرارت میں بہت زیادہ فرق ہے۔

ایک جانب سطح پر درجہ حرارت 60 ڈگری تھا تو سطح کے نیچے درجہ حرارت منفی 10 ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔

ناسا کے مطابق چاند پر درجہ حرارت شدت رکھتا ہے یعنی دن میں مخصوص مقام پر 120 ڈگری تک درجہ حرارت پہنچ جاتا ہے جبکہ رات میں منفی 130 ڈگری تک گر سکتا ہے۔

چاند کی سطح پر چند گڑھوں میں، جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی، منفی 250 ڈگری تک کا درجہ حرارت ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔

میلا مترا کے مطابق درجہ حرارت میں اس حد تک ردوبدل اس لیے اہم ہے کیوں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چاند کی مٹی، جسے ’لونر ریگولتھ‘ کہا جاتا ہے، کافی اچھی انسولیٹر ہے۔

’اس کا مطلب ہے کہ اسے خلا میں کالونیاں بنا کر گرمی اور سردی کے علاوہ تابکاری سے محفوظ رہنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ مٹی ایسی کالونی کو قدرتی طور پر محفوظ رکھ سکتی ہے۔‘

دوسری جانب خیال کیا جاتا ہے کہ چاند کے درجہ حرارت کی ایک وجہ سطح کے نیچے برفانی پانی کی موجودگی ہو سکتی ہے۔

چاند کا ارتقا

پراگیان روور پر نصب لیزر ڈیٹیکٹر کی مدد سے جب چاند کے قطب جنوبی کی سطح پر کیمیکلز کو ناپا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں الومینیئم، کیلشیئم، لوہا، کرومیئم، ٹائٹینیئم، مانگنیز، سیلیکون اور آکسیجن کی شناخت ہوئی۔

تاہم سائنسدانوں کے مطابق سب سے اہم دریافت سلفر یا گندھک کی موجودگی سے متعلق تھی۔ اسرو کے مطابق سلفر کی موجودگی کی ’ناقابل تردید تصدیق‘ ہوئی۔

چاند پر گندھک کی موجودگی کے بارے میں سائنسدان 1970 سے جانتے ہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ کسی دھات یا کرسٹل کے حصے کے بجائے چاند کی سطح پر اس کا پایا جانا ’ایک بڑی کامیابی‘ ہے۔

میلا مترا کے مطابق چاند کی مٹی پر گندھک کا پایا جانا متعدد وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔

’گندھک عام طور پر آتش فشاں سے آتی ہے اور اس سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ چاند کیسے تشکیل ہوا، اس کا ارتقا کیسے ہوا اور اس کا جغرافیہ کیسا ہے۔‘

’اس سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ چاند کی سطح پر برفانی پانی موجود ہے اور چونکہ گندھک ایک اچھی کھاد ہے تو یہ اچھی خبر ہے کیوں کہ اگر چاند پر آبادی ہو گی تو اس کی مدد سے پودے اگائے جا سکیں گے۔‘

کیا چاند پر زلزلہ آیا تھا؟

وکرم لینڈر پر ایک ایسا آلہ بھی نصب تھا جو تحقیق اور تجربات کے دوران ارتعاش کو ناپ سکتا تھا۔

اسرو کا کہنا ہے کہ ’لونر سیسمک ایکٹیویٹی‘ نامی اس آلے کا کان تو زمین کی جانب تھا تاہم اس نے ’ایک قدرتی ارتعاش کو بھی ریکارڈ کیا جس کی تحقیق کی جا رہی ہے۔‘

میلا مترا بتاتی ہیں کہ ’یہ کافی طاقتور ارتعاش تھا جس کی کئی وضاحتیں ہو سکتی ہیں۔‘

’ہو سکتا ہے کہ کوئی چھوٹا سیارچہ یا کسی سیارے کا ٹکڑا چاند کی سطح سے ٹکرا گیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ زلزلے کی وجہ سے ہو اور اگر ایسا ہے تو 1970 کے بعد چاند کی سطح پر ریکارڈ کیا جانے والا یہ پہلا زلزلہ ہو گا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اس سے چاند کی سطح کے نیچے کے بارے میں علم ہو سکے گا۔‘

’لونر پلازما‘ کیا ہے؟

اسرو کی جانب سے جب ایکس، جسے پہلے ٹوئٹر کہا جاتا تھا، پر لکھا گیا کہ ’لینڈر کی مدد سے لونر پلازما کو ناپا گیا ہے اور یہ کافی کم ہے‘ تو بہت سے لوگوں نے سوال کیا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے۔

میلا مترا بتاتی ہیں کہ پلازما ایسے ’چارجڈ پارٹیکلز‘ کو کہا جاتا ہے جو چندریان تھری کی ریڈیو کی لہروں کے ذریعے رابطہ کاری کو متاثر کر سکتے ہیں۔

میلا مترا کے مطابق ’ان کا کم ہونا اچھی بات ہے کیوں کہ ان کا زیادہ ہونا ریڈیو رابطے کو متاثر کر سکتا ہے۔‘

جب لینڈر اچھلا

ستمبر کے اوائل میں وکرم کو بند کرنے سے پہلے ایک تجربہ کیا گیا جسے اسرو نے ’اچھلنے کا تجربہ‘ کہا ہے۔

اسرو کے مطابق ’وکرم لینڈر کو کمانڈ دی گئی کہ اپنے انجن فائر کرے، اور یہ 40 سینٹی میٹر بلند ہوا اور 30 سے 40 سینٹی میٹر دور جا کر نیچے اترا۔‘

اس کامیاب تجربے کا مطلب یہ ہے کہ اسے مستقبل میں انسانی مشن یا پھر زمین تک نمونے لانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

لیکن کیا یہ چھوٹی سی چھلانگ انڈیا کے مستقبل کے خلائی منصوبوں کے لیے ایک بڑا قدم ثابت ہو سکتی ہے؟

میلا مترا کا کہنا ہے کہ ’اس چھلانگ کی مدد سے چاند کی سطح پر اترنے کے بعد انجن کو دوبارہ چلانے کا تجربہ کیا گیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ درست طریقے سے کام کر رہا ہے۔‘

’اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ لینڈر چاند کی سطح پر لفٹ آف کی صلاحیت رکھتا ہے کیوں کہ اس سے پہلے یہ صرف زمین پر ہی ٹیسٹ ہوا تھا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More