فریکوئنسی الوژن: وہ عمل جو ہوتا سب کے ساتھ ہے لیکن اکثر اس سے لاعلم رہتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Sep 18, 2023

Getty Images

کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی نے آپ کو بتایا ہو کہ انھوں نے ایک نیلے رنگ کی گاڑی لی ہے اور اس کے بعد سے آپ کو ہر طرف اسی رنگ کی گاڑیاں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں؟

یہ دیکھ کر آپ نے یقیناً یہ سوچا ہو گا کہ نیلی گاڑی لینے کا رجحان شروع ہو گیا ہے اور آپ کے دوستوں میں سے بھی کسی نے آپ سے اس متعلق بات کی ہے۔

لیکن امکان یہ ہے کہ آپ کے شہر میں ہمیشہ سے اس رنگ کی اتنی ہی گاڑیاں رہی ہیں لیکن آپ کو اس کا ابھی احساس ہونا شروع ہوا ہے۔

اسے ’فریکوئنسی الوژن‘ کہتے ہیں، یعنی دہرائے جانے کا وہم، اور یہ کافی عام رجحان ہے۔

یہ ہر کسی کو ان کی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر متاثر کرتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ ان چیزوں پر توجہ دیتے ہیں جو حال ہی میں آپ کے لیے اہم ہو گئی ہوں۔

Getty Imagesفریکوئنسی الوژن کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ اچانک ایک ماڈل یا رنگ کی متعدد کاریں دیکھنا شروع کرتے ہیں فریکوئنسی الوژن کیا ہے؟

اس کو ’بادر-منہوف فینامنان‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا تعلق یادداشت سے ہے۔

بادر-منہوف گروپ 1970 میں سرگرم جرمن دہشتگرد تنظیم ریڈ آرمی فیکشن (آر اے ایف) کا ایک اور نام تھا جو دو مرکزی لیڈروں کے ناموں پر مشتمل تھا۔

’بادر-منہوف فینامنان‘ کا نام سنہ 1994 میں استعمال ہونا شروع ہوا جب ایک جرمن فورم کے صارف نے بتایا کہ کیسے اس گروپ کا نام سننے کے بعد ان کا اس پر دھیان رہا جس کے بعد فورم کے دوسرے صارفین نے اس رجحان سے متعلق اپنے تجربات بیان کیے جس کی وجہ سے اسے پہچان ملی اور آخر کار اس نام سے یہ مشہور ہو گیا۔

لیکن یہ کوئی نیا رجحان نہیں تھا۔ یہ ہمیشہ سے اس بات سے منسلک رہا ہے کہ ہمارا دماغ ہم میں سے ہر ایک میں انفرادی طور پر کیسے کام کرتا ہے۔

دماغ کے کون سے حصے اسے چلاتے ہیں؟

سٹینفورڈ یونیورسٹی میں لسانیات کے پروفیسر اور سنہ 2005 میں سب سے پہلے ’فریکوئنسی الوژن‘ کی اصطلاح بنانے والے آرنلڈ زوکی کے مطابق یہ رجحان دو معروف نفسیاتی عوامل کا نتیجہ ہے۔

ایک طرف ’سلیکٹو ایٹنشن‘ (لفظی معنی منتخب توجہ) کام میں آتی ہے جو ہمیں ان چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کرتی ہے جو اس وقت ہمارے لیے اہم ہوتی ہیں اور باقی کو ترک کر دیتی ہیں۔ یہ نقسیاتی عمل ہمارے چیزیں اور کام سیکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

دوسری طرف ’کنفرمیشن بائس‘ (لفظی معنی تصدیقی تعصب) ہے جو ہمیں ایسی چیزوں کو تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے جو کسی مخصوص لمحے میں ہماری سوچ کی تائید کرتی ہیں یعنی زیادہ نیلی گاڑیاں دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ زیادہ عام ہیں، جو ہمارے اس یقین کی مزید تصدیق کرتی ہے کہ وہاں اس رنگ کی گاڑیاں زیادہ موجود ہیں۔

’کنفرمیشن بائس‘ اس کو بھی جنم دے سکتا ہے جسے عام طور پر ’کاگنیٹو بائسیز‘ (لفظی معنی شعوری تعصب) کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس بات کی وضاحت تلاش کرتا ہے کہ دنیا کیسے کام کرتی ہے اور پھر اس کے مطابق اپنے آپ کو بدلتا ہے۔

Getty Imagesفریکوئنسی الیوژن یعنی دہرائے جانے کا وہم دماغ کے مختلف حصوں کے ادراک سے منسلک عمل ہے

اس طرح یہ وہم یا الوژن اس بات سے جڑا ہوا ہے کہ ہمارا دماغ ہم میں سے ہر ایک میں انفرادی طور پر کیسے کام کرتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سماجی نفسیات میں ڈاکٹر اور طبی ماہر نفسیات جوانا ریرا بتاتی ہیں کہ ’فریکوئنسی الوژن اگرچہ ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتا یا شاید ہمیں یاد نہیں ہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہوا ہے کیونکہ ہمیں اس بات کا شعور ہونا ضروری نہیں ہوتا کہ یہ فریکوئنسی الوژن ہمارے ساتھ ہو رہا ہے- اس کی ارتقائی اہمیت ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ عام بات ہے کہ یہ آبادی کے ایک بڑے حصے میں ہوتا ہے کیونکہ اس کے ارتقائی عوامل جاتیوں کی بقا سے جڑے ہوتے ہیں۔‘

ہمارے پاس ادراک کی صلاحیت ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دماغ تمام محرکات ہر توجہ نہیں دے سکتا کیونکہ ہم محدود تعداد میں عناصر پر توجہ دے سکتے ہیں ورنہ ہم اپنے ماحول کے مطابق تبدیل نہیں ہو سکیں گے۔

یہ عمل یہ ہے کہ اس میں ہم اپنے حواس کے ذریعے سے کچھ چیزوں یا عناصر کے بارے میں جانتے ہیں اور جاننے کے اس عمل کو ادراک کہتے ہیں۔

جوانا تفصیل سے بتاتی ہیں کہ ’جب ہم نے کسی خاص محرک پر سختی سے توجہ دی ہو، یا تو ہمیں حال ہی میں اس کا سامنا ہوا ہے اور ہمیں یہ دلچسپ لگا ہوا، یا ہم کسی تیز رنگ یا کسی ایسی چیز سے متاثر ہوئے ہوں جو ہمیں جذباتی طور پر متحرک کرتی ہے، یا ہمیں حال ہی میں بار بار کسی چیز کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اس سے ہمارا خیال اس قسم کے محرک کے لیے زیادہ کھل جاتا ہے۔‘

Getty Images

اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ایک لمحے جس چیز کو ہمارا دماغ پکڑ رہا ہے وہ ہمارے لیے اہم ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے لیے اہم ہے، لہذا ہمارا دماغ یہ کرے گا کہ جب ہم اس سے ملتے جلتے محرکات دیکھیں گے تو وہ ہماری توجہ حاصل کر لے گی۔ جاہے وہ کسی برینڈ کی سرخ گاڑی ہو، نیلی گاڑی ہو یا کسی بھی دوسرے قسم کا محرک ہو۔

جوانا ریرا کہتی ہیں کہ ’اس طرح فریکوئنسی الیوژن یعنی دہرائے جانے کا وہم دماغ کے مختلف حصوں کے ادراک سے منسلک عمل ہے جیسے کہ خلا یا جگہ کے ادراک ہونے کا عمل انسانی دماغ میں بنیادی حسوں جسے پیریٹل لاب کہتے ہیں کا حصہ ہے۔لیکن انسانی دماغ میں موجود لمبک نظامیعنی جذبات اور رویوں کو پیدا کرنے والے نظام سے جڑے تمام عناصر بھی اس میں ایک کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ انسانی دماغ میں موجود ہپپوکیمپل سٹریکچر یا امیگڈالا کے حصے جو انسانی یادداشت یا خوف جیسے احساسات پیدا کرتے ہیں۔‘

اس طرح کسی موقع پر کسی مخصوص محرک پر زیادہ توجہ دے کر جزباتی عناصر اس فریکوئنسی الوژن سے منسلک ہو سکتا ہے جس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ سب لوگ ایک ہی قسم کے محرک اور چیز پر یکساں ردعمل کیوں ظاہر نہیں کرتے۔

مثال کے طور پر اگر میں کسی حاملہ خاتوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے بار بار حاملہ خواتین نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں اس کا مطلب ہے کہ میری زندگی کے ایک مخصوص موقعے پر یہ چیز میرے لیے بہت اہم تھی۔

جوانا ریرا کہتی ہیں ’ یہ نہ صرف جذباتی عناصر بلکہ اس کا شعور سے بھی تعلق ہے۔ شاید میرا بچہ ضائع ہوا تھا یا نہیں یا شاید میں حاملہ ہونے کی خواہش رکھتی ہوں یا شاید میں حاملہ ہوں۔ تو اس مخصوص موقع پر وہ چیز میرے لیے بہت اہم تھی۔‘

Getty Images

اس کا مطلب یہ ہے کہ دماغ کے کون سے مختلف حصے فریکوئنسی الوژن میں حصہ ڈالیں گے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کس قسم کے محرک کا سامنا کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہم میں سے ہر ایک کا ردعمل مختلف ہوتا ہے۔

’سائیکالوجی میں یہ بہت بنیادی چیز ہے کہ ایک چیز یا عنصر جس کا ہم سامنا کرتے ہیں وہ خود ہمارا شعوری ردعمل نہیں بناتا، اس صورت میں فریکوئنسی (تعداد)۔ کچھ شعوری تعصبات اور غیر معقول عقائد ہوتے ہیں جو اس چیز کے ساتھ آتے ہیں لیکن وہ چیز خود اسے سامنے نہیں لاتی، یہ ہم اپنے سارے جذباتی نظام کے زریعے لاتے ہیں، جس طرح ہم اسے سمجھتے ہیں جو کی وجہ سے دہرائے جانے جیسے وہم بنتے ہیں۔‘

کیا فریکوئنسی الوژن کے منفی اثرات ہوتے ہیں؟

جوانا اس رجحان سے منسلک اپنے آپ کو ماحول کے مطابق تبدیل کرنے کے عمل کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہیں ’اگر مثال کے طور پر میں نے حال ہی میں ایسا پھل کھایا تھا جو خراب تھا اور پھر اس کی وجہ سے میری طبیعت خراب ہو گئی۔ اس بات کا امکان ہے کہ میں کم از کم کچھ دن اس بات کا مشاہدہ کرنے میں گزاروں گی کہ یہ وہ چیز ہے جو اکثر ہوتی ہے یا ان لوگوں سے بات کروں گی جنھوں نے اس کا تجربہ کیا ہو گا۔ میرا دماغ ایک خطرناک صورتحال کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال رہا ہے لہذا اس کی اہمیت ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں ’تعصبات ہمیشہ بری چیز نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار تعصبات ماحول میں ڈھلنے اور بقا میں مدد کرتے ہیں۔‘

اس کے منفی اثرات نہیں ہوتے جب تک کہ اسے تکلیف دہ واقعات سے نہ جوڑا جائے جیسے کے ٹریفک حادثے کا تجربہ۔

لیکن ماہرین کے مطابق اس صورت میں بھی یہ پوسٹ ٹرومیٹک تناؤ سے منسلک عارضے کی ایک اور علامت کے طور پر بھی پیدا ہوا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس طرح اسے کسی قسم کی پریشانی یا دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More