امریکی فوج کا لاکھوں ڈالر کی مالیت کا سٹیلتھ جنگی طیارہ لاپتہ، عوام سے مدد مانگ لی

اردو نیوز  |  Sep 18, 2023

امریکی فوج نے لاکھوں ڈالر کی مالیت کا سٹیلتھ جنگی طیارہ غائب ہونے کے بعد اس کی تلاش کے لیے عوام سے مدد مانگ لی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکام نے اتوار کو پیش آنے والے واقعے کو ’حادثہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایف 35 جنگی طیارہ ریاست جنوبی کیرولینا میں پرواز کر رہا تھا جب پائلٹ ایمرجنسی کی صورتحال میں ایجکٹ کر کہ جہاز سے باہر نکل گیا۔

پائلٹ کی تو جان بچ گئی لیکن اس مہنگے طیارے کا تاحال پتا نہیں چل سکا۔

سٹیلتھ طیارہ جو ریڈار سے اوجھل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے کی تلاش کے لیے چارلسٹن ایئر بیس نے مقامی رہائشیوں سے مدد مانگ لی ہے۔

فضائیہ کی جانب سے ٹوئٹر پر پوسٹ کی گئی کہ ’اگر کسی کے پاس کوئی معلومات ہیں جو ہماری ٹیم کو ایف 35  کی تلاش میں مدد دے سکتی ہیں، تو براہ مہربانی دفاعی آپریشن کے سینٹر میں کال کریں۔‘

ایئر بیس کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ وفاقی ایوی ایشن کے ہمراہ طیارے کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔

امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کی جانب سے طیارہ کردہ ایف 35 جنگی طیاروں کی قیمت 8 کروڑ ڈالر ہے۔

خیال رہے کہ امریکی فوجی ہیلی کاپٹر گرنے کے واقعات تواتر سے پیش آنے کے بعد اپریل میں آرمی کے چیف آف سٹاف نے پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کا حکم دیا تھا۔

چند ہفتوں کے دوران امریکی فوج کے چار ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوئے تھے جس کے بعد ان تمام پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا گیا جو کسی اہم مشن کا حصہ نہیں تھے۔

جمعرات کو دو اپاچی ہیلی کاپٹروں کے آپس میں ٹکرانے کا حادثہ پیش آیا تھا جس میں تین فوجی ہلاک جبکہ ایک زخمی ہے۔

امریکی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ چیف آف سٹاف جنرل جیمز میک کونویل کے احکامات کے مطابق تمام پائلٹس ضروری ٹریننگ مکمل کرنے تک ہیلی کاپٹر نہیں اڑا سکیں گے۔

گزشتہ چند برسوں میں امریکی فوج کے متعدد ہیلی کاپٹر اور طیارے گر کر تباہ ہو چکے ہیں۔ رواں سال فروری میں ٹریننگ فلائٹ کے دوران ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر گرنے کا حادثہ پیش آیا تھا جس میں نیشنل گارڈ کے دو اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

جبکہ اپریل میں دو اپاچی ہیلی کاپٹروں کے آپس میں ٹکرانے کا حادثہ پیش آیا تھا جس میں تین فوجی ہلاک جبکہ ایک زخمی ہے۔ اس واقعے سے دو ہفتے قبل ریاست کینٹکی میں دو بلیک ہاک ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوئے تھے جس میں 9 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More